تاریخی فتح گہنا گئی، غیر مستقل مزاج پاکستان کو بدترین شکست

4 1,134

پاکستانی بلے بازوں نے آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ کا سنہرا موقع گنوا دیا اور سیریز کی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند روز قبل کی تاریخی فتح کو گہنا دیا۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ میں اپنے کم ترین اسکور 74 رنز پر ڈھیر ہوا اور آسٹریلیا 94 رنز کے بھاری مارجن سے مقابلہ جیت گیا اور سیریز کے نتیجے کو بھی 2-1 کے قابل عزت ہندسے تک پہنچایا۔ گو کہ سیریز پاکستان کے نام رہی لیکن ”غیر مستقل مزاجی“ کا یہ شاندار مظاہرہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے سری لنکا روانگی سے قبل ٹیم کے لیے سب سے تشویشناک پہلو ہوگا۔

آسٹریلیا کی دھواں دار بلے بازی اور پھر تباہ کن باؤلنگ کے سبب پاکستان اپنے کم ترین اسکور 74 پر ڈھیر ہوا (تصویر: AP)
آسٹریلیا کی دھواں دار بلے بازی اور پھر تباہ کن باؤلنگ کے سبب پاکستان اپنے کم ترین اسکور 74 پر ڈھیر ہوا (تصویر: AP)

آسٹریلوی بلے بازوں، خصوصاً اوپنرز شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر کی دھواں دار بلے بازی کے بعد پاکستان کے ہاتھ پیر ایسے پھولے کہ گیند بازوں کا بہترین انداز میں واپس آنا اور آسٹریلیا کو 168 رنز پر محدود کرنا بھی کام نہ آ سکا۔ تعاقب میں پاکستانی بیٹسمین اس طرح وکٹ گنواتے رہے گویا وہ بلے بازی جانتے ہی نہیں۔ وہ بیٹسمین جن کے بلوں نے سیریز میں خوب رنز اگلے ہیں، ایسے خاموش ہوئے کہ میدان میں تاریخی کلین سویپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے خواہشمند تماشائیوں کو کھسیانی ہنسی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔

169 رنز کے بھاری ہدف کے تعاقب میں سب سے پہلے عمران نذیر پویلین سدھارے، جن کے بارے میں یہ بات اب زبان زد عام ہو چکی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ان کے بین الاقوامی کیریئر کی آخری سیریز ہوگی اور شاید اب ایسا ہی ہو۔ گو کہ انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ٹورنامنٹ کے لیے بھی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے لیکن اب ایسا ممکن نہیں دکھائی دیتا کہ انہیں دوبارہ بحیثیت اوپنر ٹیم میں موقع دیا جائے گا۔ انہوں نے بارہا وہی غلطی کی جس کی وجہ سے وہ گزشتہ مقابلے میں آؤٹ ہوئے۔ وہی گیند باز مچل اسٹارک، وہی آف اسٹمپ پر پڑی ہوئی گیند جو سیم پر اندر کو آئی،بس فرق یہ تھا کہ پچھلے میچ میں وہ درمیانی اسٹمپ سے محروم ہوئے تھے اور اس مرتبہ وکٹوں کے سامنے دھر لیے گئے۔ پاکستان محض دوسرے اوور میں اپنی پہلی وکٹ گنوا بیٹھا۔ دوسرے اینڈ سے پیٹرک کمنز نے کپتان محمد حفیظ اور اوپر بھیجے گئے شعیب ملک کو ایک ہی اوور میں ٹھکانے لگا دیا۔ حفیظ 9 رنز بنانے کےبعد ڈین کرسچن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے جبکہ شعیب صفر پر آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی تھے کیونکہ اگلے ہی اوور میں یہ ”تمغہ“ کامران اکمل نے بھی حاصل کیا جو اسٹارک کی گیند پر مڈ آف پر شین واٹسن کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ پاکستان 16 رنز پر چار بلے بازوں سے محروم تھا۔ عمر اکمل جو اس طرح کی صورتحال کے لیے کبھی موزوں بلے باز ثابت نہیں ہوئے، ایک مرتبہ پھر حریف ٹیم کی شاندار فیلڈنگ کا نشانہ بن گئے۔ محض 2 رنز بنانے کے بعد وہ مڈ وکٹ پر مائیکل ہسی کے ”کیچ آف دی میچ“ کے بعد دل برداشتہ میدان سے لوٹے۔

صرف 19 رنز پر آدھی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ اور ناصر جمشید اور عبد الرزاق نے گیندیں روکنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ رنز بننے کو نہیں آ رہے تھے کہ بالآخر جمود کے دوران ناصر جمشید اننگز کے سب سے زیادہ یعنی 17 رنز کے ساتھ وکٹ سے واپس آ گئے۔

یاسر عرفات اور عبد الرزاق نے ساتويں وکٹ پر پاکستان کی جانب سے 20 رنز کی ”سب سے بڑی شراکت“ قائم کی، جس کا خاتمہ 15 ویں اوور میں بریڈ ہوگ کی سیریز میں پہلی وکٹ سے ہوا۔ یاسر 15 رنز بنانے کے بعد ان کی ایک خوبصورت گیند کا شکار بنے۔ انہوں نے پاکستانی اننگز کا واحد چھکا بھی لگایا۔ اگلے اوور میں عمر گل رن آؤٹ ہوئے اور 17 ویں اوور میں عبد الرزاق کے پیٹرک کمنز کی تیسری وکٹ بننے کے ساتھ ہی پاکستان کی اپنے سب سے کم اسکور پر آؤٹ ہونے سے بچنے کی امید بھی ختم ہوئی۔ رزاق نے 27 گیندوں پر صرف 13 رنز بنائے۔ آخری وکٹ پر سعید اجمل اور رضا حسن نے پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے کم ترین اسکور 67 پر آؤٹ ہونے کی ہزیمت سے بچایا اور بالآخر آخری اوور کی پہلی گیند پر سعید اجمل اسٹارک کی گیند پر بولڈ ہوئے اور 74 رنز پر پاکستانی اننگز تمام ہوئی۔

آسٹریلیا کی جانب سے اسٹارک اور کمنز نے بہت ہی شاندار باؤلنگ کروائی اور 3،3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک، ایک وکٹ شین واٹسن، بریڈ ہوگ اور گلین میکس ویل کو بھی ملی۔

قبل ازیں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا تو آسٹریلیا کے اوپنرز کی شعلہ فشاں بلے بازی نے پاکستانی باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ گیند اتنی مرتبہ براہ راست باہر پھینکی کہ درمیان میں ایسا لگا کہ جیسے ”چوکے کی نہیں ہو رہی“ 🙂

گو کہ اوپنرز شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر دونوں ابتدائی اوورز میں کچھ جدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ اب تک سیریز میں بجھے بجھے عبد الرزاق کو اس مرتبہ پہلا اوور دیا گیا جن کی تیسری ہی گیند وارنر کے بلے کا کنارہ لیتی ہوئی دوسری اور تیسری سلپ کی جگہ سے ہوتی ہوئی تھرڈ مین باؤنڈری پار کر گئی۔ اگر اس جگہ سلپ کھڑی ہوتی تو ممکنہ طور پر یہ وارنر کی آخری گیند ہوتی۔ اگلی گیند پر وہ ایل بی ڈبلیو کی ایک زبردست اپیل سے بھی بچ گئے اور یوں خدا خدا کر کے آسٹریلیا کے لیے پہلا اوور تمام ہوا۔ عمر گل کے اگلے اوور میں دونوں بلے باز محض 4 رنز بنا سکے اور پھر عبد الرزاق ایک مرتبہ پھر دوڑتے ہوئے اپنے اینڈ سے آئے اور دوسری ہی گیند پر شین واٹسن کے خلاف ایک ایل بی ڈبلیو کی فلک شگاف اپیل کی لیکن امپائر ضمیر حیدر نے اس مرتبہ بھی بلے باز کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ بلاشبہ پہلے سے کہیں زیادہ زور دار اپیل تھی اور گیند درمیانی اور لیگ اسٹمپ کے درمیان گھٹنے کے نیچے لگی تھی۔ خیر، امپائر نے شک کی گنجائش کا فائدہ پھر بلے باز کو دیا اور یہیں سے آسٹریلیا کے حوصلے بلند ہو گئے۔ رزاق کے اسی اوور میں واٹسن نے ایک چوکا رسید کیا اور اگلے اوور سے چھکوں کا اک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے جیسا نہ لگتا تھا، یہاں تک کہ بہت ہی صبر آزما مرحلہ طے کرنے کے بعد یاسر عرفات نے دو اوورز میں دونوں اوپنرز کو ٹھکانے لگایا۔

آسٹریلیا نے محض 7 اوورز میں اپنے پہلے 50 رنز مکمل کیے اور پھر ساتویں اوور میں شعیب ملک پر پوری سیریز کا غصہ نکالا۔ واٹسن نے ملک کی پہلی، چوتھی اور چھٹی گیند کو مڈ وکٹ پر باؤنڈری لائن سے کہیں دور پھینکا اور آسٹریلیا مقابلے پر چھا گیا۔ ناتجربہ کار رضا حسن، جنہیں پہلی مرتبہ اس سیریز میں ملک کی نمائندگی کا موقع ملا، اگلے اوور میں ڈیوڈ وارنر کے رحم و کرم پر تھے، جنہوں نے اپنے ساتھی کی تقلید کرتے ہوئے رضا کو تین چھکے رسید کیے۔

محض 28 گیندوں پر نصف سنچری بنانے والے ڈیوڈ وارنر کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا (تصویر: AP)
محض 28 گیندوں پر نصف سنچری بنانے والے ڈیوڈ وارنر کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا (تصویر: AP)

سلسلہ یہیں نہیں تھما، سیریز میں اب تک آسٹریلیا کو ناکوں چنے چبوانے والے سعید اجمل بھی اگلے اوور میں دو چھکے کھا بیٹھے۔ جس میں پہلی گیند پر وارنر کی جانب سے لگایا گیا چھکا ایک خوبصورت سوئچ ہٹ تھی، جو ڈیپ مڈ وکٹ باؤنڈری کے پار جا گری۔ تیسری گیند پر واٹسن نے چھکا لگا کر سیریز میں کسی بھی بلے باز کی جانب سے پہلی نصف سنچری مکمل کی اور آسٹریلیا کا اسکور بھی تہرے ہندسے میں پہنچایا۔ آسٹریلیا جس نے پہلے 50 رنز کے لیے 42 گیندیں استعمال کی تھیں، محض 15 رنز پر مزید 50 رنز جمع کر چکا تھا اور 10 اوورز کے اختتام پر اسکور بورڈ پر بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 104 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔

اس موقع پر سیریز میں پہلی بار آزمائے گئے یاسر عرفات کو ایک اور موقع دیا گیا، جنہوں نے اوور کی پہلی ہی گیند پر چھکا تو کھایا لیکن چوتھی گیند پر ایک دھیمے باؤنسر پر واٹسن کی وکٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ واٹسن 32 گیندوں پر 47 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔ ان کی اننگز میں 5 چھکے اور ایک چوکا شامل تھا۔ دونوں بلے بازوں نے بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ میں آسٹریلیا کی سب سے بڑی اوپننگ شراکت قائم کی۔

رنز بننے کی رفتار یکدم سست ہو گئی اور محمد حفیظ نے اگلے اوور میں محض 2 رنز دیے لیکن آسٹریلوی پیش قدمی کو بڑا دھچکا یاسر عرفات نے اپنے اگلے ہی اوور میں پہنچایا جنہوں نے پہلی ہی گیند پر ڈیوڈ وارنر کو پوائنٹ پر کیچ آؤٹ کرا کر دونوں سیٹ بلے بازوں کی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ وارنر محض 34 گیندوں پر 6 چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 59 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے اپنی نصف سنچری محض 28 گیندوں پر مکمل کی تھی۔

دونوں اوپنرز تو میدان بدر ہوئے، لیکن وہ ایسا پلیٹ فارم فراہم کر چکے تھے جس کی بنیاد پر آنے والے بلے باز پاکستان کی پہنچ سے کہیں باہر ایک مجموعہ اکٹھا کر سکتے تھے۔ گلین میکس ویل نے بھرپور کوشش کی کہ رنز بنانے کی رفتار کو کم نہ ہونے دیا جائے اور انہوں نے محمد حفیظ کو ایک چھکا اور یاسر عرفات کو دو اور رضا حسن کو ایک چوکا رسید کر کے اپنے ارادے ظاہر بھی کیے لیکن رضا کو ایک تیز سویپ کھیلنے کی کوشش میں وہ ڈیپ مڈ وکٹ پر ناصر جمشید کے عمدہ کیچ کا شکار ہو گئے۔ میکس ویل نے 20 گیندوں پر 27 رنز بنائے۔ یہیں سے آسٹریلیا کی اننگز اپنی پٹری سے اتر گئی۔ ایسے موقع پر جب وہ رنز کی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے 200 رنز بنا سکتا تھا، سعید اجمل اور دیگر پاکستانی باؤلرز کی نپی تلی گیند بازی نے اسے محدود کر دیا۔ آسٹریلیا نے اننگز کے ابتدائی 10 اوورز میں 104 رنز بنائے جبکہ آخری 10 میں وہ محض 64 رنز ہی بنا پایا۔

سعید اجمل نے اگلے اوور میں کپتان جارج بیلے کو ایک خوبصورت اندر آتی گیند پر بولڈ کیا، اور آؤٹ آف فارم کیمرون وائٹ کے عمر گل کے ہاتھوں آؤٹ ہونے کے بعد اجمل نے اپنے ’ازلی دشمن‘ مائیکل ہسی کی اننگز بھی تمام کر دی۔

اننگز کے آخری اوور میں آسٹریلیا 8 رنز بنانے میں کامیاب رہا اور یوں 20 اوورز کی تکمیل پر 168 رنز کا بھاری مجموعہ موجود تھا۔

پاکستان کی جانب سے سعید اجمل، عبد الرزاق اور محمد حفیظ کے علاوہ تمام ہی گیند باز مہنگے ثابت ہوئے۔ ان تینوں میں سے بھی سعید اجمل ہی کامیاب رہے جنہوں نے اپنے 4 اوورز میں محض 19 رنز دیے اور 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ رزاق کے دو اوورز میں 12 اور حفیظ کے 3 اوورز میں 17 رنز بنائے گئے۔ شعیب ملک کے واحد اوور میں 20، رضا حسن کے 3 اوورز میں 34، یاسر عرفات کے 3 اور عمر گل کے 4 اوورز میں 30، 30 رنز بنے۔ عمر گل اور یاسر عرفات نے 2،2 جبکہ رضا حسن نے ایک وکٹ حاصل کی۔

ڈیوڈ وارنر کو میچ اور سعید اجمل کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب دونوں ٹیمیں متحدہ عرب امارات کی گرمیوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد سری لنکا جائیں گی جہاں رواں ماہ کی 18 تاریخ سے ٹی ٹوئنٹی کا عالمی اعزاز ”ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء“ جیتنے کے لیے دنیا بھر کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ پاکستان 2009ء کی تاریخ دہرانے جبکہ آسٹریلیا 2010ء میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں انگلستان کے ہاتھوں ملنے والی شکست کا داغ دھونے کی کوشش کرے گا۔