[آج کا دن] تاریخ کے عظیم ترین لیگ اسپنر کا یوم پیدائش

0 1,015

ویسٹ انڈیز کے "Fearsome Foursome" اور پاکستان کے عمران خان، سرفراز نواز اور وسیم اکرم نے کرکٹ کو تیز باؤلرز کا کھیل بنا دیا اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ کہ کرکٹ میں وہی ٹیم جیتے گی جو اچھے تیز باؤلرز کی حامل ہوگی لیکن آج کے روز آسٹریلیا میں پیدا ہونے والے ایک کھلاڑی نے اِس نظریے کو بدل کر رکھ دیا۔ دنیا کے پہلے سپر اسٹار لیگ اسپنر شین وارن 1969ء میں آج ہی کے روز آسٹریلوی ریاست وکٹوریہ میں پیدا ہوئے۔ لیگ اسپن گیند بازی کی دنیا میں ان سے بڑا کھلاڑی نہ کبھی پیدا ہوا تھا اور نہ ہی اب تک کہیں کوئی نظر آتا ہے۔

1992ء میں بھارت کے خلاف سڈنی ٹیسٹ سے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کرنے والے شین کی ابتدائی کارکردگی ہر گز ایسی نہ تھی جس نے اندازہ ہوتا ہو کہ دنیائے کرکٹ میں 'اک شیر کی آمد ہے' کیونکہ انہوں نے اس میچ میں 150 رنز دے کر صرف ایک وکٹ حاصل کی جبکہ سری لنکا کے خلاف اسی سال اگست میں کھیلے گئے اپنے دوسرے ٹیسٹ میں بھی انہوں نے پہلی اننگز میں 107 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کی۔ لیکن کولمبو کے سنہالیز اسپورٹس کلب میں ہونے والے اس ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں شین وارن نے اپنی صلاحیتوں کی پہلی بار جھلک دکھائی۔ 181 رنز کے تعاقب میں سری لنکا 150 رنز پر 7 وکٹیں گنوا چکا تھا اور صرف 14 رنز کے اضافے سے وارن نے مہمان ٹیم کے بقیہ تینوں کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگا کر آسٹریلیا کو 16 رنز کی اک شاندار فتح تک پہنچایا اور بعد ازاں یہی جیت سیریز میں فیصلہ کن بھی ثابت ہوئی ۔ شین وارن اس فتح کو آج بھی اپنی سب سے یادگار جیت قرار دیتے ہیں۔

لیکن انہوں نے عالمگیر شہرت 1993ء میں حاصل کی جب ایشیز 93ء کے اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ میں انہوں نے مائیک گیٹنگ کو ایک غیر معمولی گیند پر بولڈ کر کیا۔ اس گیند کو 'صدی کی بہترین گیند' قرار دیا گیا۔ پھر روایتی حریف انگلستان کے خلاف وارن کی کامیابیوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آخر تک تھمنے کو نہ آیا۔ چاہے آسٹریلیا جیتے یا ہارے، وارن وکٹیں سمیٹتے رہے یہاں تک کہ 2005ء کی ایشیز ناکام مہم میں بھی انہوں نے 40 وکٹیں حاصل کیں۔ انگلستان کے خلاف مجموعی طور پر 36 ٹیسٹ مقابلوں میں انہوں نے 23.25 کے اوسط سے 195 وکٹیں حاصل کیں۔ یوں ایشیز کی تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلر ہیں۔

شین وارن ٹیسٹ کیریئر میں 17 مرتبہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے اور پہلی بار انہوں نے 1992ء کے اواخر میں ملبورن میں کھیلے گئے روایتی باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں یہ اعزاز حاصل کیا جہاں انہوں نے 52 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں ۔

سوائے بھارت کے تقریباً تمام ہی ممالک کے خلاف ان کا ریکارڈ شاندار ہے۔ بھارتی بلے باز کیونکہ اسپن گیند بازی کو کھیلنے میں ماہر ترین سمجھے جاتے ہیں اس لیے شین وارن کی ان کےخلاف ایک نہ چلی۔مجموعی طور پر بھارت کے خلاف 14 میچ کھیلنے والے شین کو 47.18 کے بھاری اوسط سے صرف 43 وکٹیں ملیں۔ اس کے علاوہ تمام ٹیموں کے خلاف ان کا اوسط 30 سے نیچے ہے۔ پاکستان کے خلاف انہوں نے اپنے کیریئر میں 15 ٹیسٹ کھیلے اور 20.17 کے اوسط سے 90 وکٹیں حاصل کیں۔جس میں 6 مرتبہ اننگز میں پانچ اور 2 مرتبہ میج میں 10 شکار بھی شامل ہیں۔ اس میں سب سے نمایاں 2002-03ء کی سیریز رہی جب انہوں نے پاکستان کے خلاف تین مقابلوں میں 12.66 کے اوسط سے 27وکٹیں حاصل کیں۔

2006-07ء کی ایشیز سیریز میں آسٹریلیا کی 5-0 سے تاریخی فتح میں انہوں نے اپنا حصہ ڈالا اور ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ سڈنی میں کھیلا پانچواں ٹیسٹ ان کے کیریئر کا آخری مقابلہ تھا جہاں آسٹریلیا نے 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے ایک تاریخی کلین سویپ کیا۔

سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹوں کی دوڑ میں 'وارنی' اور مرلی کے درمیان خوب مقابلہ ہوا۔ گو کہ بعد ازاں مرلی دھرن اس میں اتنا آگے نکل گئے کہ شین کے لیے اب ان کا تعاقب ممکن نہ رہا تھا لیکن پھر بھی 145 ٹیسٹ میچز میں 25.41 کے عمدہ اوسط سے حاصل کردہ 708 وکٹیں شین وارن کے عظیم کیریئر کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے 48 مرتبہ اننگز میں 4 یا زائد وکٹیں حاصل کیں جبکہ 5 یا زائد وکٹیں حاصل کرنے کاکارنامہ کل 37 بار انجام دیا۔ انہوں نے ایک میچ میں 10 وکٹیں 10 مرتبہ حاصل کیں۔ ٹیسٹ میں ان کی بہترین گیند بازی اننگز میں 71 رنز دے کر 8 وکٹیں اور میچ میں 128 رنز دے کر 12 وکٹیں رہی۔

شین وارن کے ٹیسٹ کیریئر کا جائزہ

بمقابلہ مقابلے وکٹیں اوسط بہترین باؤلنگ فی اننگز
آئی سی سی ورلڈ الیون 1 6 11.83 3/23
انگلستان 36 195 23.25 8/71
بنگلہ دیش 2 11 27.27 5/113
بھارت 14 43 47.18 6/125
پاکستان 15 90 20.17 7/23
جنوبی افریقہ 24 130 24.16 7/56
زمبابوے 1 6 22.83 3/68
سری لنکا 13 59 25.54 5/43
نیوزی لینڈ 20 103 24.37 6/31
ویسٹ انڈیز 19 65 29.95 7/52
مجموعی کیریئر 145 708 25.41 8/71

مارچ 1993ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کرنے والے شین وارن نے کل 194 ایک روزہ مقابلے بھی کھیلے اور 25.73 کے اوسط سے 293وکٹیں حاصل کیں۔ گو کہ مقابلوں کی یہ تعداد دیگر ہم عصر کھلاڑیوں سے کہیں کم ہے لیکن اس کے باوجود اس لحاظ سے اہم ہے کہ شین وارن نے 1999ء کی عالمی کپ فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے وہ ممنوعہ ادویات کے استعمال کے نتیجے میں عائد ایک سال کی پابندی کے باعث 2003ء کا عالمی کپ نہ جیت سکے۔انہوں نے کیریئر میں عالمی کپ کے دو سیمی فائنل اور ایک فائنل میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ پہلا سیمی فائنل 1996ء کا وہ تاریخی مقابلہ تھا جہاں آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک نسبتاً معمولی ہدف کا دفاع کر رہا تھا۔ اس مقابلے میں شین وارن نے 36 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں اور بالآخر آسٹریلیا 5 رنز سے فتح یاب ٹھیرا۔

دوسری عالمی کپ سیمی فائنل کارکردگی 1999ء کے اس مقابلے میں رہی جسے آج بھی "تاریخ کا بہترین ایک روزہ مقابلہ" کہا جاتا ہے۔ اس یادگار مقابلے میں شین وارن نے جنوبی افریقہ کی بلے بازی کے چار ستونوں – گیری کرسٹن، ہرشل گبز، ہنسی کرونیے اور ژاک کیلس – کو گرایا اور بالآخر مقابلہ برابر ہوا اور آسٹریلیا گروپ مرحلے کی فتح کی بنیاد پر فائنل کھیلنے کا حقدار ٹھیرا۔ فائنل میں شین وارن نے پاکستان کو صرف 132 رنز پر ڈھیر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ عالمی کپ مقابلوں میں ان کا اوسط صرف 19.50 اور فی اوور رنز دینے کی شرح محض 3.83 رہی۔

ایک روزہ کیریئر کا جائزہ

مقابلے گیندیں رنز وکٹیں بہترین گیند بازی اوسط رنز فی اوور
194 10642 7541 293 5/33 25.73 4.25

شین وارن 1994ء میں وزڈن کی جانب سے سال کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ 2000ء میں سال کے بہترین ایک روزہ کھلاڑی اور اسی سال صدی کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں بھی شمار کیے گئے۔ آپ کو 2006ء کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے سال کا بہترین ٹیسٹ کھلاڑی قرار دیا۔

بین الاقوامی کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے ایام میں انہوں نے انڈین پریمیئر لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اولین ایڈیشن میں انہیں راجستھان رائلز کا کپتان مقرر کیا گیا۔ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم میں انہوں نے اپنی قیادت سے ایسی روح پھونکی کہ تمام تر توقعات کے برخلاف راجستھان نے آئی پی ایل کا اولین ایڈیشن اپنے نام کیا۔

شین وارن اور ان کے ساتھی گلین میک گرا کتنے عظیم باؤلر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے آسٹریلیا مستقل رو بہ زوال ہے اور جو ٹیم سالوں سے ٹیسٹ اور ایک روزہ میں بلاشرکت غیرے حکمران تھی اب ٹیسٹ میں تیسرے اور ایک روزہ میں چوتھے نمبر پر ہے۔