پاکستان کے لیے خود احتسابی کا وقت

6 1,060

آج کا دن پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کا مستقبل کا چیمپئن ہونے کی نوید سنا رہا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس صدا کو کوچ ڈیو واٹمور، کپتان محمد حفیظ اور پاکستان کے کھلاڑی سن لیں۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ ہر فارمیٹ میں جنوبی افریقہ کی پاکستان کے کھلاڑیوں پر نفسیاتی برتری قائم ہے۔ ایک روزہ میچ ہو، ٹیسٹ میچ ہو یا ٹی ٹوئنٹی، جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اور کل سپر ایٹ کے اُس اہم میچ میں بھی حسب معمول وہی ہونے جارہا تھا کہ عمرگل اور عمراکمل نے زیرو سے ہیرو بننے کی ٹھان لی اور جنوبی افریقہ سے جیتی ہوئی بازی ہارتے ہارتے دوبارہ جیت لی۔

عمر اکمل نے 43 رنز کی ذمہ دارانہ و دانشمندانہ اننگز  کھیلی (تصویر: ICC)
عمر اکمل نے 43 رنز کی ذمہ دارانہ و دانشمندانہ اننگز کھیلی (تصویر: ICC)

میں یہاں عمراکمل کا خصوصاً ذکرکروں گا۔ کل کے میچ میں بلاشبہ عمرگل کے 17 گیندوں پر 32 رنز فیصلہ کن ثابت ہوئے، لیکن جب عمرگل نے اپنی زبردست اننگز کی آخری گیند جو 19 ویں اوور کی بھی آخری گیند تھی کو چھکے کی کوشش میں ہوا میں اچھالا تو میں دل ہی دل میں دعا کررہا تھا خداکرے کہ عمر اکمل اور عمرگل دوڑ کر کراس نہ کرلیں۔ یہاں عمراکمل انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف خود اپنی کریز میں ہی رہے بلکہ عمرگل کو بھی رن لینے سے روک لیا۔ یہ دانشمندی ہی آگے جاکر سود مند ثابت ہوئی کیونکہ اننگز کے آخری اوور کا سامنا عمراکمل نے کیا اور مورنے موکل نے یارکر کی کوشش میں دوسری گیند فل ٹاس پھینک دی جسے عمراکمل نے چھکے کے لیے روانہ کر کے پاکستان کی فتح پر مہر ثبت کر دی۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ کے بعد آسٹریلیا نے پاکستان اور خصوصاً اس کے بلے بازوں کو یہ بیش قیمت سبق سکھایا کہ اپنے گیند بازوں کی محنت کا فائدہ کس طرح اٹھایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی بلے بازی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مخالف ٹیم کو 130-140 رنز پر آؤٹ کرنے میں کامیابی کے بعد ہدف کے تعاقب میں آپ کو صرف وکٹ پر ٹھہر کر بیس اوورز کھیلنے کے لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں اترنا ہے، ناکہ پاکستان کے بلے بازوں جیسی حکمت عملی کے ساتھ کہ آج ہم نے گیندبازی میں مخالف ٹیم کو چت کیا ہے، چلو! بلے بازی میں بھی کرتے ہیں۔ اسی کوشش میں ''تو چل، میں آیا'' ، گیند بازوں کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے یکے بعد دیگرے تمام بلے باز پویلین واپس اور ٹیم شرمناک شکست کے دہانے پر۔

آسٹریلیا کے شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر نے جس سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی باریوں کا آغاز کیا اور شروع سے آخر تک ایک بھی احمقانہ شاٹ نہیں کھیلا، اس سے آسٹریلیا کی پیشہ ورانہ اہلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ ٹیم حال ہی میں ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز ہار کر سری لنکا پہنچی ہے۔ اوپنرز نے پہلے گیندوں کو تولا، اور پھر ان پر ٹوٹ پڑے۔ حملہ تب کیا جب بھارتی گیندباز وکٹ کی تلاش میں خود ایسی گیندیں پھینکتے جنہیں چھکے کا راستہ نہ دکھانا "جرم" ہوتا۔ اس طرح مخالف ٹیم کو غیر ضروری طور پر وکٹ نہیں ملتی، اور حریف "ترپ کے پتے" بھی آپ کو باؤنڈریز تھالی میں رکھ کر پیش کریں گے۔ جس طرح بھارتی گیندباز آشوِن، عرفان پٹھان، پیوش چاؤلہ اور ہربھجن سنگھ شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر کو پیش کررہے تھے۔

پاکستان ٹیم کے پاس ٹی ٹوئنٹی کا اچھا خاصا تجربہ ہے، اور اس تجربے سے اب تک ٹیم کو یہ جان لینا چاہیے تھا کہ اگر ٹی ٹوئنٹی میں ایک دو اوورز چار، پانچ رنز کے اوسط سے گزر بھی جائیں تو یہ کوئی پریشانی کن بات نہیں ہے اور نہ اس سے خود پر غیرضروری دباؤ طاری کرنا چاہیے۔ کیونکہ آگے صرف ایک بڑا اوور بھی اس کی تلافی کرسکتا ہے بشرطیکہ وکٹیں ہاتھ میں ہوں۔ لیکن شروع سے ہی بنا دیکھے، سوچے اور سمجھے مخالف گیند بازوں پر اندھا دھند ٹوٹ پڑنا، نہایت مہنگا پڑسکتا ہے۔ کل پاکستان کو ایک بار پھر جنوبی افریقہ کے خلاف یہ سبق ملا اور وہ بھی جیت کے بونس کے ساتھ۔

عموماً جیت کی خوشی میں غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کل کی جیت کو ہار سمجھتے ہوئے اوراس کے علاوہ بھارت و آسٹریلیا کے میچ کی ویڈیو دیکھ کراور اس کا تجزیہ کرکے سبق سیکھے تو پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کا چیمپئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان شاء اللہ