بلے بازوں کی ناکامی، پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ

2 1,024

بھارت نے پاکستان کو 8 وکٹوں سے ہرا کر عالمی مقابلوں میں پاکستان کے خلاف ناقابل شکست رہنے کے اپنے ریکارڈ کو قائم رکھا۔ دوسری طرف آسٹریلیا نے پہلے بھارت کو چاروں شانے چت کیا، اورپھر جنوبی افریقہ کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر حریف ٹیموں کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے اعزاز پر اپنے دعوے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ سری لنکا نے بھی پہلے نیوزی لینڈ کو ایک سخت مقابلے کے بعد ہرایا، اورپھرٹی ٹوئنٹی کی مضبوط ٹیم اور دفاعی چیمپئن انگلستان کو شکست دینے والےویسٹ انڈیز کوباآسانی 9 وکٹوں سے شکست دے دی اور آسٹریلیا کے ساتھ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء فائنل کھیلنے کی مضبوط امیدواربن کر سامنے آئی۔

 بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کے باوجود یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ پاکستان کارکردگی اور قسمت کے بل بوتے پر سیمی فائنل میں پہنچ جائے (تصویر: ICC)
بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کے باوجود یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ پاکستان کارکردگی اور قسمت کے بل بوتے پر سیمی فائنل میں پہنچ جائے (تصویر: ICC)

ویسے تو انفرادی ہو یا اجتماعی، کامیابی کسی بھی میدان میں ہو، اس کے پیچھے کئی عوامل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کھیل کے میدان میں بھی خاص طور پر ایسے کھیل جس میں کامیابی کا دارومدار پوری ٹیم پر ہوتا ہے اس میں بھی کامیابی کے لیے بہت ساری لڑیوں کا آپس میں ملنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان ٹیم کو جنوبی افریقہ کے خلاف گیندبازوں اور قسمت کی دیوی نے جیت تو دلادی، لیکن ناصرجمشید، محمدحفیظ اور شعیب ملک کی اہم موقع پر ناکامی پر پاکستان کے شائقین کرکٹ لازماً بےچینی محسوس کررہے ہوں گے۔ کیونکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء جیتنے کے لیے پاکستان کی اس مڈل آرڈر بلےبازی کی تکون کو ہرصورت میں سعید اجمل، شاہدآفریدی اور عمرگل کی باؤلنگ تکون سے ملنا ہوگا۔ عمران نذیر، اکمل برادران جیت میں معاونین کا کردار تو ادا کرسکتے ہیں لیکن ان سے ٹورنامنٹ جتوانے کی توقع کرنا خوش فہمی تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔ اس لیےبھارت کے خلاف ناصرجمشید، محمد حفیظ اور شعیب ملک کی بری طرح ناکامی پاکستانی شائقین کرکٹ کی بے چینی کو پریشانی میں تبدیل کرگئی ہے۔

یہ کوئی ”راکٹ سائنس“ نہیں ہے۔ فارمیٹ کوئی بھی ہو ہر چیمپئن ٹیم کے پاس ہمیشہ اپنےایسے ”ترپ کے پتے“ ہوتے ہیں جن سے پوری ٹیم کی توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ اہم مواقع پر مخالف ٹیم کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوں گے اور نہ صرف اپنی ٹیم کو مشکلات کے بھنور سے نکالیں گے بلکہ بیڑا بھی پار لگائیں گے۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کسی ٹیم کے گیارہ کے گیارہ کھلاڑی کارکردگی دکھائیں۔ مکمل پیشہ ورٹیمیں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، اور انگلستان جیسی ٹیموں میں بھی معاون کھلاڑی ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان ٹیموں کے کوچ، کپتان اور انتظامیہ ہر کھلاڑی سے 100 فیصدکارکردگی کا تقاضا کرتے ہیں لیکن جب ٹیم میدان میں اترتی ہے تو ٹیم انتظامیہ اور کپتان کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سے کھلاڑی ”قابل بھروسہ“ اور ”فتح گر“ ہیں ہیں اور کون سے ”معاون“۔ آسٹریلیا، سری لنکا، بھارت، جنوبی افریقہ اور یہاں تک کہ انگلستان کے کھلاڑیوں کی فہرست پر بھی نظر ڈالیں تو آپ کو ایسے قابل اعتبار نام ملیں گے جن پر ان کا کپتان اور شائقین بھروسہ رکھ سکتے ہیں کہ یہ کھلاڑی اہم مواقع پر اپنی طرف سے کم از کم ”کوشش“ ضرور کریں گےاور حریف ٹیم کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے پہلے تک ایسے لگ رہا تھا پاکستان کے کوچ اور کپتان کو بھی قابل اعتبار اور میچ ونر کھلاڑی مل گئے ہیں۔ جن میں محمد حفیظ پرسکون انداز میں بلے بازی کا افتتاح کرتے، کروڑوں کوششوں میں ایک بار نکلنے والی لاٹری ”عمران نذیر“ نہ بھی نکلی تو ناصر جمشید رنز کی رفتار میں کمی نہیں آنے دیں گے۔ ”چلے تو چاند تک“ کی ایک اور مثال کامران اکمل کا بلّا نہ چلا تو شعیب ملک اور عمر اکمل بھرپور کوشش کرتے ہوئے ٹیم کا مجموعہ کم از کم 140 - 150 تک تو پہنچا ہی دیں گے۔ لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے ابتدائی میچ سے ہی پاکستان ٹیم نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے ٹورنامنٹ کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ٹیم کی ذہنی ناپختگی اور کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ محمدحفیظ اس تذبذب میں مبتلا بلے باز نظر آتے ہیں کہ ٹھہر کر کھیلوں یا تیز؟۔ میدان میں داخل ہوتے ہی ناصر جمشید کی شکل پر ہوائیاں اڑرہی ہوتی ہیں جوایک ایسے نوجوان کی ذہنی حالت دکھارہی ہے جس کو معلوم ہے اگر وہ آؤٹ ہوگیا تو ٹیم شدید مشکلات میں گھر جائے گی۔ ناصر جمشید پر یہ غیرضروری دباؤ شعیب ملک کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دیکھ رہا ہے پاکستان کا یہ انتہائی تجربہ کار سابق کپتان ایسے کھیل رہا ہے جیسے کرکٹ کھیلنا بھول چکا ہے۔

ویسے تو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی کرکٹ میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اور پاکستان کے پاس اب بھی سیمی فائنل میں پہنچنے کا موقع موجود ہے، اور یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ٹیم کبھی بھی قابل بھروسہ نہیں تھی اسی لیے یہ ٹیم دنیائے کرکٹ کی واحد ٹیم ہے جو جیتا ہوا میچ ہار سکتی ہے اور ہارا ہوا میچ جیت سکتی ہے۔ اس لیے گزشتہ میچز میں بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کے باوجود یہ امکان، یا چلیں خدشہ ہی سہی، بہرحال موجود ہے کہ پاکستان کارکردگی اور قسمت کے بل بوتے پر سیمی فائنل میں پہنچ جائے۔ لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس کے لیے محمد حفیظ، ناصر جمشید اور شعیب ملک کو خصوصاً کچھ کر دکھانا ہوگا۔