صرف ایک شکست کی اتنی بھاری قیمت؟

3 1,038

سپر ایٹ مرحلے میں پاکستان کی بھارت کے خلاف شکست یقیناً ہر پاکستانی کے لیے نہایت تکلیف دہ تھی۔ لیکن زندگی میں ہار کے برعکس کھیل میں ہار کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کی تلافی کا موقع فوراً مل جاتا ہے۔ بھارت سے ہار کے 48 گھنٹے بعد پاکستان نے آسٹریلیا جیسی مضبوظ ٹیم کو کراری شکست دے کر نہ صرف ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں چیمپئن بننے کے مشن کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر چڑھادیا بلکہ اپنے روایتی حریف بھارت کو بھی کولمبو سے بوریا بستر باندھنے پر مجبور کردیا۔

بھارت کو پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک شکست ہوئی اور وہ باہر ہو گیا (تصویر: ICC)
بھارت کو پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک شکست ہوئی اور وہ باہر ہو گیا (تصویر: ICC)

کل کولمبو میں بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والا میچ پاکستان کرکٹ ٹیم کے شائقین کے لیے عجیب و غریب میچ تھا۔ شاید جنوبی افریقہ کے کھلاڑی فرحان بہاردین کے بلے سے 122 واں رنز بنا تھا اور کولمبو کا میدان پاکستانی شائقین نے سر پر اٹھالیا۔ یقیناً بھارتی کھلاڑیوں کے لیے میچ کے ان آخری تین اوورز کا دورانیہ کرکٹ میدان میں بدترین لمحات ہوں گے۔ دو دھاری خنجر کے زخم کی طرح ایک طرف ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا کڑوا گھونٹ، اور اوپر سے پاکستانی شائقین کا طویل زبردست جشن، جس نے پویلین میں جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیلادی۔ دوسری طرف میدان میں بھارتی کھلاڑیوں کے چہرے پر اس کا کرب صاف دکھائی دے رہا تھا۔

پاکستان کا سیمی فائنل میں پہنچنا، اور آسٹریلیا کی بدترین ہار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میں ہر ٹیم دو تین کھلاڑیوں پر انحصار کررہی ہے۔ یہ کھلاڑی چل گئے تو ٹیم آسانی سےجیت جاتی ہے۔ بصورت دیگر یا تو ٹیم بری طرح ہار جاتی ہے، یا اگر جیت بھی جاتی ہے تو خوش قسمتی اور کسی دوسرے کھلاڑی کی کبھی کبھار والی ہیرو کارکردگی کی وجہ سے۔ آسٹریلیا کی اب تک کی شاندار کارکردگی کا دارومدار شین واٹس اور ڈیوڈ وارنر پر رہا ہے، جیسے ہی یہ کھلاڑی پاکستان کے خلاف ناکام ہوئے، آسٹریلیا مشکل میں پھنس گیا۔ اسی طرح سری لنکا کا "تری دیو" سنگاکارا، جے وردھنے اور دلشان پر، پاکستان کا ناصر جمشید، محمد حفیظ اور کسی حد تک کامران اکمل پر، ویسٹ انڈیز کا کرس گیل اور سنیل نارائن پر، اور بھارت کا تو حد سے زیادہ ویراٹ کوہلی پر رہا ہے۔ اگر جنوبی افریقہ کے خلاف ویراٹ کوہلی چل جاتے تو بھارت باآسانی 170 رنز کا مجموعہ پالیتا جس کے بعد جنوبی افریقہ کو 140 پر محدود کرنا 122 رنز کے مقابلے ایک آسان ہدف ہوتا۔

سپر ایٹ مرحلے سے ایک اور سبق یہ بھی ملتا ہے جو دو سال بعد کارمند ہوگا کہ "گرو تو اس جھرنے کی طرح، جو گِھر کر بھی اپنی سندرتا کھونے نہیں دیتا۔" بھارت کو آسٹریلیا کے خلاف کراری شکست کے لیے بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔ دوسری طرف آسٹریلیا کو جنوبی افریقہ اور بھارت کو ایک بڑے مارجن سے ہرانا سیمی فائنل میں جگہ پانے کی صورت میں انعام ملا۔ اور پاکستان نے آسٹریلیا کو بھاری شکست دے کر سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

آخری بات، نیوزی لینڈ کو شکایت ہے کہ ہار جیت کا فیصلہ کرنے کے لیے "سپر اوور" کا نظام ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے گروپ مرحلے میں نہیں ہونا چاہیے، میں ذاتی طور پر نیوزی لینڈ سے اتفاق کرتا ہوں۔ کیونکہ گروپ مرحلے میں درجہ بندی کے لیے پہلے ہی پوائنٹس اور نیٹ رن ریٹ کا نظام موجود ہے۔ ایسے میں سپر اوور کا طریقہ استعمال کرکے ایک ٹیم کو 6 بالوں کی لاٹری کے ذریعے دو پوائنٹس مفت میں مل جاتے ہیں، جو میرے خیال میں غلط ہے۔