ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء: پاکستان کا باہر ہونا، انصاف کا تقاضہ

2 1,018

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا سیمی فائنل جاری ہے۔ پاکستان کے گیند بازوں بشمول عمرگل نے سری لنکن اننگز کے سولہویں اوور سے انیسویں اوور تک، یعنی 24 گیندوں پر، محض 24 رنز دے کر جیسے میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ سری لنکن کپتان مہیلا جے وردھنے اسکور بورڈ کی طرف دیکھتے ہیں، جہاں صرف 123 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا ہے اور محض 6 گیندیں باقی ہیں۔ ان کے چہرے پر انتہائی پریشان کن تاثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ اب عمرگل آخری اوور کرانے کے لیے دوڑتے ہیں، اور اپنے مستقل "مرض" یعنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے وہ عین آخری اوور میں 16 رنز دے جاتے ہیں۔ سری لنکن کپتان ہوا میں مکا لہراتے ہوئے جیسے اپنے آپ، اور پوری ٹیم کو پیغام دیتے ہیں کہ بس!! میچ جیتنے کے لیے مجھے انہی 16 رنز کی ضرورت تھی۔ اوور سے پہلے کی پریشانی اور مایوس کن تاثرات خوشی اور جیت کے لیے پرجوش ولولے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

سیریز اور ٹورنامنٹ کبھی کبھی  کارکردگی دکھانے والوں سے نہیں جیتے جاسکتے (تصویر: ICC)
سیریز اور ٹورنامنٹ کبھی کبھی کارکردگی دکھانے والوں سے نہیں جیتے جاسکتے (تصویر: ICC)

عمرگل کے آخری اوور میں 16 رنز بننے پر جہاں پاکستان کرکٹ شائقین کی چھٹی حِس عالمی کپ 1996ء کے کوارٹر فائنل میں وقاریونس کے دو اوورز میں پڑنے والے 40 رنز کے فیصلہ کن ثابت ہونے کے اندیشے کی گھنٹی بجا نے لگی۔ لیکن امید کی کرن ابھی روشن ہے کیونکہ ہدف پھر بھی 140 رنز کا ہے جس کو 15-20 گیندوں پر 30-35 رنز کی ایک اننگز کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی بلے بازی شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کے کپتان محمدحفیظ عین اس وقت اپنی ٹائمنگ بھول جاتے ہیں۔ عمران نذیر حسب معمول اِدھر اُدھر ایک دو چوکے لگا کر محمدحفیظ کو خدا حافظ کہتے ہوئے پویلین واپس۔ ناصر جمشید ابھی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ بدقسمتی سے امپائر کے غلط فیصلے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالات نازک صورت حال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کامران اکمل محمدحفیظ کا ساتھ دینے میدان میں آجاتے ہیں، من میں ایک امید سی جاگ جاتی ہے کہ اگر یہ 5-6 اوور بھی ٹھہر گیا تو پاکستان ٹیم کو مشکلات سے نکال لے گا۔ افسوس ہماری "کشتی وہیں ڈوبی جہاں پانی کم تھا"۔ کامران اکمل حسب معمول انتہائی مضحکہ خیز انداز میں سری لنکا کو اپنی وکٹ تحفے میں دیتے ہوئے پویلین کی راہ لیتے ہیں۔

سابق کپتان شعیب ملک، حال کے کپتان محمدحفیظ کا ساتھ دینے میدان میں اترتے ہیں تو ایک بار پھر امید کی کرن جگمگانے لگی۔ دو تجربہ کار بلے بازوں کی موجودگی میں ویسے ہی آس بندھ جاتی ہے کہ ہدف بھی صرف 140 ہی تو ہے، اور اگر ان دونوں میں سے ایک بھی آخری اوور تک کھیل جاتا ہے تو دوسرے اینڈ سے عمر اکمل، شاہد آفریدی، سہیل تنویر اور عمرگل کے ساتھ سے آخری دو اوورز میں 20-25 رنز لینے مشکل نہیں ہوں گے۔ دوسری ایک بات کہ یہ حقیقت محمد حفیظ اور شعیب ملک پر اب تک واضح ہوگئی ہوگی کہ یہ وکٹ مار دھاڑ کرنے والے بلے بازوں کے لیے مشکل ترین وکٹ ہے، لیکن تیکنیک کے ساتھ سیدھے بیٹ سے کھیلنے والے بلے باز اس پر رنز بناسکتے ہیں۔ لیکن شعیب ملک پچھلے قدموں پر جا کر کھیلنے کی کوشش میں جس طرح سری لنکن اسپنرز کو ایک بے جان پچ پر اپنی تینوں وکٹیں دکھا رہا ہے، میرے جیسا کرکٹ کی معمولی سی سمجھ رکھنے والے بندے کو بھی پہلے سے معلوم ہوگیا کہ شعیب ملک بھی کچھ ہی گیندوں کا مہمان ہے۔ اوروہی ہوا، رنگانا ہیراتھ کی جس گیندپر شعیب ملک بولڈ ہوا وہ ہر گز کریز میں کھڑے کھڑے کھیلنے کی اہل نہیں تھی۔

شعیب ملک میدان کے ساتھ ممکنہ طور پر ٹیم سے بھی آؤٹ ہوگیا۔ اب ساری امیدیں کپتان محمدحفیظ، عمراکمل اور شاہد آفریدی سے ہیں۔ اور جیسے پہلے کہا جاچکا ہے کہ 140 رنز کے کم ہدف کی وجہ سے امید کی کرن روشن تھی اور پاکستان کے شائقین اسی خواہش اور امید میں میچ دیکھ رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں آج کون ہیرو بن کر میدان سے باہر آتا ہے۔ لیکن شومئی قسمت!! ایک ہی اوور میں محمدحفیظ اور آفریدی یکے بعد دیگرے گیندوں پر پویلین لوٹ آئے اور اپنے ساتھ پاکستان کی جیت کی امید کے چراغ بھی بجھا گئے۔

لیکن، ٹھہریے!! کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہاں سے جو کچھ ہوا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کا چیمپئن نہ بننا عین انصاف کے مطابق ہے۔ پاکستان جیسے تیسے آگے بڑھتا گیا اور آخری تین اوورز یعنی 18 گیندوں پر پاکستان کو جیتنے کے لیے 32 رنز کی ضرورت ہے۔ 90ء کی دہائی میں، بلکہ آٹھ دس سال پہلے تک بھی، جب ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی کرکٹ شروع نہیں ہوئی تھی، ایک روزہ کرکٹ میں 18 گیندوں پر 32 رنز ایک مشکل ترین ہدف ہوتا تھا۔ لیکن جب سے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ بین الاقوامی سطح پر شروع ہوا ہے نہ صرف ٹی ٹوئنٹی میں بلکہ ایک روزہ کرکٹ میں بھی 18 گیندوں پر 32 رنز تو کیا 40-45 رنز بھی بن رہے ہیں۔ ایسے میں باوجود اس حقیقت کے کہ وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار ہے جس پر تیزی سے رنز بنانا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔ ایک ایسی ٹیم کے لیے جو ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن ہونے کا دعوی پیش کررہی ہے اس کے لیے 18 گیندوں پر 32 رنز بنانا ناممکن ہدف نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سہیل تنویر، عمرگل اور عمر اکمل کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا صحیح معنوں میں ناممکن ثابت ہوا۔ سہیل تنویر، عمرگل اور عمراکمل نے آخری 18 گیندوں کی ابتدائی 13 گیندوں پر محض 9 رنز اسکور کیے۔ عمر گل اور سہیل تنویر نے مجموعی طور پر 19 گیندوں پر 10 رنز بنائے۔ ان تمام اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کامران اکمل، محمدحفیظ اور شاہد آفریدی جس بچکانہ انداز میں آؤٹ ہوئے اس کی بہت بھاری قیمت پاکستان کو دینی پڑی۔ لیکن یہاں سری لنکن گیندبازوں کی شاندار کارکردگی کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بلے بازی میں بدترین کارکردگی دکھائی ہے لیکن سری لنکن گیندبازوں نے پاکستان کے بلے بازوں کو کسی بھی موقع پر سنبھلنے نہیں دیا۔

پاکستان کی بلے بازی ایک بار پھر مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف عمر گل نے ناقابل یقین کارکردگی کے ذریعے پاکستان کو بچایا۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف ایک بار پھر بلے بازی کی ناکامی کی وجہ پاکستان کو بدترین شکست کاسامنا ہوا۔ آسٹریلیا کو اسپنرز نے چت کرکے ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچایا۔ لیکن سیمی فائنل میں بلے باز پھر دھوکہ دے گئی۔ اور جیسے میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ سیریز اور ٹورنامنٹ، معاونین یا لاٹریوں اور کبھی کبھی کے ہیرو والی کارکردگی سے نہیں جیتے جاسکتے۔ بلکہ اس کے لیے ہر شعبے میں ٹیم کے پاس قابل بھروسہ اور مستند کھلاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس مڈل آرڈر اور اختتامی لمحات میں بیڑا پار لگانے والے بلے باز کی سخت کمی ہے۔ شاہد آفریدی گیند بازی میں تو اب بھی کارآمد ہوسکتے ہیں لیکن بلے بازی کے لیے ساتویں پوزیشن پر پاکستان کو مستند بلے باز کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو شعیب ملک اور عمران نذیر سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، تاکہ اگلے ورلڈ کپ کے لیے ایک متوازن ٹیم تیار کی جاسکے۔