کمزور ضرور لیکن پرامید ہیں، دھونی کا ناقدین کو جواب

0 1,010

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے اختتام کے بعد اب دنیائے کرکٹ اپنے معمول کی جانب رواں ہو رہی ہے اور چند بہترین ٹیموں کے درمیان معرکہ آرائی سے اعلیٰ ترین کرکٹ یعنی ٹیسٹ ایک مرتبہ پھر جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسی عالمی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی وہیں نومبر کے وسط سے بھارت اپنا عالمی نمبر ایک کا اعزاز چھیننے والے انگلستان کے خلاف کھیلے گا۔ اس مرتبہ کہانی اس لیے مختلف ہے کہ بھارت کو بدلہ چکانے کا موقع اپنی سرزمین پر مل رہا ہے۔

بڑی ٹیموں کے خلاف بھارت کی حالیہ ٹیسٹ کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے لیکن دھونی پرامید ہیں (تصویر: Getty Images)
بڑی ٹیموں کے خلاف بھارت کی حالیہ ٹیسٹ کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے لیکن دھونی پرامید ہیں (تصویر: Getty Images)

بھارت کی حالیہ ٹیسٹ فارم کے باعث ناقدین خصوصاً سابق بھارتی کھلاڑی موجودہ ٹیم سے سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت گزشتہ ایک سال میں بیرون ملک کھیلی گئی مسلسل دو سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت سےدوچار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنیل گاوسکر نے یہ تبصرہ تک کر ڈالا ہے کہ یہ تین دہائیوں کی کمزور ترین بھارتی ٹیسٹ ٹیم ہے۔

اس کرارے بیان پر بھلا کپتان مہندر سنگھ دھونی کہاں چپ بیٹھنے والے ہیں، انہوں نے نئی منطق نکالتے ہوئے کہا ہے کہ راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن جیسے کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔

حالانکہ انہی دونوں کھلاڑیوں کی موجودگی میں بھارت انگلستان اور آسٹریلیا سے دونوں ٹیسٹ سیریز بری طرح ہار چکا ہے لیکن دھونی اب وقت مانگ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیم بے شک کاغذ پر کمزور دکھتی ہے لیکن وقت کے ساتھ کارکردگی میں بہتری آنے کی انہیں پوری امید ہے۔

اپنے جم ’اسپورٹس فٹ‘ کے افتتاح کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے دھونی نے کہا کہ ایک روزہ طرز میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے وہ بہت مطمئن ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ ٹیسٹ میں بھی ایسی کارکردگی دہرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم کی نظریں اب آنے والے مصروف ایام پر مرکوز ہیں جس کے دوران بھارت انگلستان، پاکستان اور آسٹریلیا جیسے سخت حریفوں کے خلاف کھیلے گا۔ سابق عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف چار ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز 15 نومبر سے شروع ہوگی۔

اس موقع پر دھونی نے اشارہ دیا کہ وہ انگلستان کو اسپن جال میں پھنسانے کی کوشش کریں گے، جو حالیہ کچھ عرصے میں اس کی بہت بڑی کمزوری ثابت ہوئی ہے۔

بھارت حال ہی میں اپنی سرزمین پر نیوزی لینڈ کو شکست دے چکا ہے جبکہ انگلستان اپنے ہی ملک میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کا داغ کھا کر مشکل ترین مہم پر ہندوستانی سرزمین پہنچا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت واقعی گھر کا شیر ہوگا یا انگلستان خود کو ٹیسٹ کی نمبر ایک پوزیشن کا اہم امیدوار ثابت کرتا ہے۔