[آج کا دن] وسیم اکرم کا فتح گر چھکا

3 1,090

1987ء میں پاک و ہند میں ہونے والے عالمی کپ میں دونوں میزبان ٹیموں کی سیمی فائنل میں مایوس کن شکست کے بعد برصغیر میں کرکٹ کی مقبولیت کو سخت دھچکا پہنچا۔ سرحد کے دونوں جانب کی ٹیمیں نہ صرف یہ بہت مضبوط تھیں بلکہ بھارت تو اپنے اعزاز کا دفاع اپنی ہی سرزمین پر کر رہا تھا، لیکن سیمی فائنل میں انگلستان اور آسٹریلیا نے دونوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

اس صورتحال میں بھارت میں کرکٹ کو مقبول بنانے کے لیے چند اقدامات اٹھائے گئے، جن میں ایک 1989ء میں کھیلا گیا نہرو کپ بھی تھا۔ یہ ٹورنامنٹ بھارت کی تحریک آزادی کے رہنما اور پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے صد سالہ یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا۔

اس ٹورنامنٹ میں روایتی حریف بھارت اور پاکستان کے علاوہ عالمی چیمپئن آسٹریلیا، انگلستان، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا نے بھی شرکت کی یعنی کہ اپنے دور کے تقریباً تمام ہی عظیم کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں موجود تھے۔ پاکستان کی جانب سے عمران خان، جاوید میانداد، عبد القادر اور وسیم اکرم، بھارت کی جانب سے کرش سری کانت، مہندر امرناتھ، دلیپ وینگسارکر، محمد اظہر الدین اور کپل دیو، ویسٹ انڈیز کی جانب سے ویوین رچرڈز، رچی رچرڈسن، میلکم مارشل، کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی واش، آسٹریلیا کی جانب سے ایلن بارڈر، جیف مارش، اسٹیوواہ اور این ہیلی اور انگلستان کی جانب سے گراہم گوچ، ایلک اسٹیورٹ، ناصر حسین اور ایلن لیمب نے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔

یہ ٹورنامنٹ کئی دلچسپ مراحل سے گزرنے کرنے کے بعد بالآخر فائنل میں اپنے وقت کی دو بہترین ٹیموں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان مقابلے پر منتج ہوا، جہاں دلچسپ ترین مقابلے کے بعد پاکستان نے آخری اوور میںوسیم اکرم کے یادگارچھکے کی بدولت ٹورنامنٹ جیتا۔

1989ء میں آج ہی کے روز ، یعنی یکم نومبر کو، ہونے والے اس فائنل میں پاکستان کو 274 رنز کا مشکل ہدف ملا تھا۔ ویسٹ انڈیز نے ڈیسمنڈ ہینز کی سنچری کی بدولت اک بڑامجموعہ اسکور بورڈ پر کھڑا کر دیا تھا۔ یہ ایک روزہ کرکٹ کا وہ دور تھا جب 'پاور پلے' وغیرہ نامی کوئی شے نہ ہوتی تھی اور 260 سے اوپر کا ہدف شاذ و نادر ہی کوئی ٹیم عبور کر پاتی تھی لیکن پاکستان نے بہت مشکل صورتحال سے اپنی اننگز کو بحال کرنا شروع کیا۔ اس کے ابتدائی چار کھلاڑی صرف 133 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے۔اس صورتحال میں سلیم ملک نے 62 گیندوں پر 71 رنز کی بہترین اننگز کھیلی جبکہ عمران خان، جو پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے سب سے زیادہ یعنی 3 وکٹیں بھی لے چکے تھے، نے ذمہ دارانہ و ناقابل شکست 55 رنز بنا کر مقابلے کو پاکستان کی گرفت میں برقرار رکھا۔

عمران خان اور سلیم ملک کے درمیان پانچویں وکٹ پر 93 رنز کی فتح گر رفاقت قائم ہوئی جبکہ چھٹی وکٹ پر جب کپتان عمران خان اکرم رمضا کے ساتھ مل کر پاکستان کو فتح کی دہلیز تک لے آئے تو آخری اوور میں اکرم رضا رن آؤٹ ہو گئے۔ اس وقت پاکستان کو آخری دو گیندوں پر تین رنز درکار تھے۔

وسیم اکرم کو پہلی ہی گیند پر زبردست دباؤ کا سامنا تھا۔ گیند حریف کپتان ویوین رچرڈز کے ہاتھوں میں تھی، جو اپنے تمام گیند بازوں کو آزمانے کے بعد اب بادل نخواستہ آخری اوور خود کروا رہے تھے۔ انہوں نے آخری اوورکی پانچویں گیند پھینکی اور وسیم اکرم نے بازوؤں کو کھولتے ہوئے پوری قوت سے بلے کو گھمایا اور گیند فضا میں طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد مڈ وکٹ باؤنڈری کےباہر تماشائیوں میں جا گری۔

پاکستان نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹورنامنٹ جیت لیا۔ کپتان عمران خان کو فائنل اور سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔