ٹھاکرے جی! جان دیو، ساڈی واری آن دیو

2 1,049

تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ ہند کو وزارت داخلہ کے ذریعہ ہری جھنڈی دکھائے جانے کے بعد نہ صرف سرحد کے دونوں اطراف خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی بلکہ پوری دنیا کے کرکٹ شائقین اس دلچسپ، سنسنی خیز اور تاریخی سیریز کے لئے بیتاب ہو چکے تھے۔ اور کیوں نہ ہوتے؟ ایک طویل عرصہ کے بعد ’’دو روٹھے ہوئے دوست‘‘ پرانی رقابت کو فراموش کرنے کے لئے ایک دفعہ پھر باہم دیگر دوستانہ ماحول تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک خوش آئند قدم تھا جس کی چہار جانب سے پزیرائی کی جار ہی تھی۔ پڑوسی ملک نے بھی خندہ پیشانی سے اس قدم کا استقبال کیا۔ سرزمین ہندوستان کے عوام کی اکثریت اور سنجیدہ حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی کرکٹ میں حالیہ پیدہ شدہ بحران سے خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے پڑوس میں بھی ماحول خوشگوار ہو اور کرکٹ کی اس مردم خیز سرزمین میں جلد پرانے دن لوٹ آئیں۔

حالیہ بیانات پر تو مسٹر ٹھاکرے کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ہمیں یقین ہے حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کیونکہ بال ٹھاکرے ہندوستان کے مسلم شہری نہیں (تصویر: Hindustan Times)
حالیہ بیانات پر تو مسٹر ٹھاکرے کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ہمیں یقین ہے حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کیونکہ بال ٹھاکرے ہندوستان کے مسلم شہری نہیں (تصویر: Hindustan Times)

بھارتی حکام نے گرچہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مدعو کرنے میں کافی تاخیر کی اس کے باوجود تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچوں پر مشتمل اس مختصر سیریزنے اپنے آغاز سے قبل ہی دونوں ممالک کے عوام کو خوشی میں مخمور کر دیا تھا۔لیکن افسوس کہ یہ خوشی چند’’شر پسند حاسدوں‘‘ کو پھوٹی آنکھ نہیں بھار ہی ہے۔ اور انہوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پرانے راگ الاپنے شروع کردئے ہیں۔ یہ ہیں مسٹر بال ٹھاکرے ۔ جی ہاں! توقع کے عین مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورۂ ہند ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔

گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے ’’فدائین‘‘ کو یہ ’’حکم نامہ‘‘ صادر کیا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہندوستان نہ آنے دیا جائے۔بال ٹھاکرے کی اس ’پکار‘ پر کتنے لوگ لبیک کہیں گے یہ تو خود موصوف ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن ان کے ا س زہر افشاں بیان سے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بال ٹھاکرے اور ان کی تنظیم ’شیو سینا‘ سوائے نفرت کی سیاست کے کچھ نہیں جانتی۔ ان کے خمیر میں زہر بھرا ہے جو وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ ان کی سیاست اسی زہر آلود خون سے زندہ ہے جو ان کے وجود کی بقا کے لئے لازمی ہے۔ اسی لئے مسٹر بال ٹھاکرے اور ان کی تنظیم ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جہاں سے ان کے خون کو زندہ رہنے کی خوراک مہیا ہو سکے۔پاکستان کا دورۂ ہند ان کے نزدیک ایک ایسا ہی نادر موقع ہے جس کے ذریعہ یہ اپنی سیاسی پیاس کی سیرابی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا چاہیں گے۔ جس کا آغاز انہوں نے کر دیا ہے۔ گرچہ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ان کی یہ کوشش محض دھمکی آمیز تقاریر، نفرت انگیزبیانات اور اشتعال انگیز نعروں تک ہی محدود رہے گی۔البتہ ہندوستانی میڈیا اگر انہیں توجہ کا مرکز بناتا ہے تو اس کا امکان ضرور ہے کہ یہ اپنی تنظیم کے چند سرد پڑے کارکنان کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ورنہ ہندوستان میں ان کی کیا حیثیت ہے؟

یہ ہر ہندوستانی بخوبی جانتا ہے۔ انہیں اپنی آواز کو عوام الناس تک پہنچانے کا محض ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے ان کا ترجمان’سامانا‘۔ یہ اخبار مراٹھی میں شائع ہوتا ہے جس کے قارئین انہیں محض ان کی ’مراٹھی ریاست‘ میں ہی مل سکتے ہیں۔ اگر چندمتعصب نیوز چینلز ان کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دیں تو ان کی ’چیخ و پکار‘ کی باز گشت’سامانا‘ میں ہی دب کر رہ جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے انہیں صرف پاکستانیوں سے نفرت نہیں بلکہ ان شر پسندوں سے خود ہندوسابنی عوام بھی تنگ آ چکے ہیں۔ انہیں صرف ’اردو داں‘ طبقہ سے بغض نہیں بلکہ یہ تو ہندی بولنے والوں کو بھی اپنا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اور آئے دن شمالی ہندوستان کے باشندوں کے خلاف نہ صرف یہ کہ زہر افشانی کرتے ہیں بلکہ انہیں تشدد کے ذریعہ اپنی ریاست سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔

بال ٹھاکرے کی دورۂ پاکستان کے تعلق سے کی جانے والی زہر افشانی دراصل ملک کی پر امن فضا کو بگاڑکر کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ اس آگ کے بھڑک جانے کے بعد وہ اس پر اپنی سیاسی روٹی سینک سکیں۔ یہ یقیناًایک قابلِ سزا جرم ہے۔جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ان کی تنظیم پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے تھی بلکہ مسٹر ٹھاکرے کوداخلِ زنداں کیا جانا چاہئے تھا ۔

لیکن ہمیں یقین ہے حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کیونکہ بال ٹھاکرے ہندوستان کے مسلم شہری نہیں ۔