جنوبی افریقہ حقیقی نمبر ایک، آسٹریلیا کو بدترین شکست

0 1,053

سیریز کے اولین دونوں مقابلوں میں بجھے بجھے رہنے کے بعد جنوبی افریقہ نے کیا شاندار واپسی کی اور پرتھ میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں میزبان آسٹریلیا کو بدترین شکست دے کر نہ صرف سیریز جیت لی بلکہ اپنی عالمی نمبر ایک پوزیشن بھی برقرار رکھی۔ آسٹریلیا اپنی تاریخ کے بہترین کپتانوں میں سے ایک رکی پونٹنگ کو حسین یادوں کے ساتھ الوداع نہ کہہ سکا، جو خود بھی اس مقابلے، بلکہ پوری سیریز، میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔

آخری ٹیسٹ میں 309 رنز کی تاریخی و فیصلہ کن فتح کے ساتھ جنوبی افریقہ کی نمبر ون پوزیشن مزید مستحکم ہو گئی ہے (تصویر: AFP)
آخری ٹیسٹ میں 309 رنز کی تاریخی و فیصلہ کن فتح کے ساتھ جنوبی افریقہ کی نمبر ون پوزیشن مزید مستحکم ہو گئی ہے (تصویر: AFP)

جنوبی افریقہ کی فتح میں کلیدی کردار دوسری اننگز میں ہاشم آملہ کے 196 اور ابراہم ڈی ولیئرز کے 169 رنز کی بدولت 569 رنز کے مجموعے نے ادا کیا، جس کے بوجھ سے آسٹریلیا کا نکلنا ممکن دکھائی نہ دیتا تھا اور 309 رنز کی بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ برسبین اور ایڈیلیڈ کی کارکردگی کے بعد کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ آخری و فیصلہ کن ٹیسٹ میں آسٹریلیا اس بری طرح ہارے گا۔ ایسا لگتا تھا کہ آسٹریلیا نے پورا دم اولین دونوں ٹیسٹ میچز میں لگا دیا، جہاں اسے تمام تر کوشش کے باوجود فتح نصیب نہ ہو سکی جبکہ جنوبی افریقہ دونوں مقابلوں میں توقعات سے کم کارکردگی دکھانے کے بعد گویا آخری حملے کے لیے دم بچائے بیٹھا تھا اور اس نے بروقت اور پوری قوت کے ساتھ حتمی وار کیا اور بازی اپنے حق میں کر لی۔ اور یوں دنیا پر یہ ثابت بھی کیا کہ وہ حقیقی نمبر ایک ٹیم ہے۔ انگلستان کو اس کے میدانوں پر اور اب آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر شکست دینے کے بعد جنوبی افریقہ بلا شرکت غیرے دنیائے کرکٹ کا حکمران ہے۔

واکا، پرتھ میں کھیلے گئے اہم ترین ٹیسٹ مقابلے میں ٹاس جیت کے جنوبی افریقہ نے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور آسٹریلیا کی بہترین گیند بازی کے سامنے اس کا ٹاپ اور مڈل آرڈر ایک مرتبہ پھر بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا۔ مرد بحران ایک مرتبہ پھر فف دو پلیسے تھے، جنہوں نے مسلسل تیسری اننگز میں جنوبی افریقہ کو مشکل صورتحال سے باہر نکالا۔ 75 رنز پر 6 وکٹیں گرنے کے بعد دو پلیسے نے رابن پیٹرسن اور ویرنن فلینڈر کے ساتھ کی بدولت اسکور کو 225 تک پہنچا دیا جو ابتدائی حالات کو دیکھتے ہوئے بہت معقول مجموعہ تھا اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوا کہ دو پلیسے کی یہ اننگز کس قدر اہمیت کی حامل تھی۔ جس میں انہوں نے 142 گیندوں پر 78 رنز بنائے۔ ان کے علاوہ ٹاپ آرڈر میں صرف الویرو پیٹرسن 30 تک پہنچ پائے جبکہ اتنے ہی رنز فلینڈر اور 31 رنز پیٹرسن نے اسکور کیے۔

آسٹریلیا کی جانب سے ناتھن لیون نے 3 جبکہ مچل اسٹارٹ اور مچل جانسن نے 2،2 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک، ایک وکٹ جان ہیسٹنگز اور شین واٹسن کو بھی ملی۔

جواب میں آسٹریلیا جنوبی افریقہ کے برق رفتار باؤلنگ اٹیک کے سامنے بے بس تھا۔ پہلے روز کے آخری اوورز میں دو وکٹیں گنوانے کے بعد دوسرے روز بھی اس کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ نہ تھما۔ ایڈ کووان پہلے ہی اوور میں صفر پر ڈیل اسٹین کا شکار بنے تو کچھ ہی دیر بعد دوسرے اینڈ سے شین واٹسن فلینڈر کی وکٹ بن گئے اور یوں اپنی واپسی کو یادگار نہ بنا سکے۔ دوسرے روز جب پست حوصلوں کے ساتھ آسٹریلیا نے دوبارہ کھیل شروع کیا تب بھی حالات نہ بدلے۔ سب سے پہلے ڈیوڈ وارنر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے، اسی اوور میں نائٹ واچ میں ناتھن لیون کی باری آئی۔ کچھ ہی دیر میں اپنا آخری ٹیسٹ کھیلنے والے رکی پونٹنگ فلینڈر کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہو گئے جبکہ سب سے زبردست دھچکا اسٹین نے اگلے ہی اوور میں مائیکل کلارک کو آؤٹ کر کے دیا۔ 17 ویں اوور میں محض 45 رنز پر آسٹریلیا 6 وکٹیں گنوا چکا تھا۔ جنوبی افریقہ نے میچ پر ایسی گرفت حاصل کر لی، جو آخر تک کمزور نہ پڑی۔

مائیکل ہسی سے مزاحمت کی امید تھیں لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے اور محض 12 رنز بنانے کے بعد مورنے مورکل کی گیند پر پہلی سلپ میں حریف کپتان کو کیچ تھما گئے۔ میتھیو ویڈ جو بہت دیر سے اک اینڈ سے جنوبی افریقی حملوں کو روک رہے تھے اس وقت آؤٹ ہوئے اسکور 140 پر پہنچا تھا۔ آسٹریلوی بلے بازوں کی کارکردگی کا اندازہ لگائیے کہ ان میں سے 68 رنز خود ویڈ کے بنائے ہوئے تھے۔ بہرحال، پوری آسٹریلوی ٹیم 54 ویں اوور میں 163 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور یوں جنوبی افریقہ کو پہلی اننگز میں 62 رنز کی حیران کن برتری ملی۔

ڈیل اسٹین نے 4، رابن پیٹرسن نے 3، ویرنن فلینڈر نے 2 اور مورنے مورکل نے ایک وکٹ حاصل کی۔

پھر جنوبی افریقہ نے کیا جوابی وار کیا، گویا آسٹریلیا کے گیند بازوں کے چھکے چھڑادیے اور دوسرے ہی روز یہ طے ہو گیا کہ 'اصلی تے وڈا' نمبر وَن کون ہے۔ برتری کے ساتھ اننگز کا آغاز کرتے ہوئے گو کہ پیٹرسن کی وکٹ ابتداء ہی میں گر گئی لیکن ہاشم آملہ اور گریم اسمتھ کے درمیان 178 رنز کی شراکت نے مقابلے کو مکمل طور پر یکطرفہ بنا دیا۔ اسمتھ 84 رنز بنانے کے بعد دوسرے روز گرنے والی آخری وکٹ بنے۔ انہوں نے محض 100 گیندیں کھیلیں اور 13 چوکے لگائے۔

دوسرے اینڈ پر ہاشم آملہ بھی بہت برق رفتاری سے اسکور کو آگے بڑھا رہے تھے۔ آسٹریلوی گیند باز بالکل کلب سطح کے باؤلر لگ رہے تھے جنہوں حریف بلے باز بری طرح پیٹ رہے تھے۔ جب دوسرا روز مکمل ہوا تو جنوبی افریقہ صرف دو وکٹوں پر 230 رنز بنا چکا تھا اور ہاشم آملہ 99 رنز پر کھیل رہے تھے۔

تیسرے روز کیلس بہت زیادہ دیر تک ہاشم کا ساتھ نہ دے سکے ، اور 37 رنز بنا کر پویلین سدھار گئے لیکن یہ ذمہ داری وکٹ کیپر ابراہم ڈی ولیئرز نے نبھائی۔ جنہوں نے ہاشم آملہ ہی کی طرح بہت تیز رفتاری سے اسکور کو آگے بڑھایا۔ ایسا لگتا تھا جنوبی افریقہ بساط کو جلد از جلد لپیٹنا چاہتا ہے۔ ہاشم آملہ کی سنچری محض 87 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے مکمل ہوئی جبکہ کھانے کے وقفے کے فوراً بعد انہوں نے 150 کا سنگ میل بھی عبور کیا اور وہ بھی صرف 163 گیندوں پر۔

ڈی ولیئرز ابتداء میں تو روایتی ٹیسٹ اننگز کھیلتے دکھائی دے رہے تھے اور 50 رنز کے لیے 98 گیندیں استعمال کی لیکن اس کے بعد انہوں نے اننگز کو تہرے ہندسے میں پہنچانے کے لیے صرف 33 مزید گیندوں کا سہارا لیا اور اپنی سنچری 131 گیندوں پر 15 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے مکمل کی۔ چائے کے وقفے سے قبل ایک ہی اوور میں ہاشم آملہ اور ڈین ایلگر کی وکٹیں گر گئیں۔ ہاشم آملہ بدقسمتی سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے اور 196 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے 221 گیندوں پر 21 چوکوں سے مزین خوبصورت اننگز کھیلی۔

دوسرے اینڈ پر ڈی ولیئرز کے بلے سے رنز تیزی سے اگلتے رہے۔ وہ ماضی کے ڈی ولیئرز کی بھرپور جھلک دکھا رہے تھے اور وہ بھی اہم ترین موقع پر۔ 184 گیندوں پر 169 رنز کی خوبصورت اننگز تراشنے کے بعد وہ مچل اسٹارک کی وکٹ بن گئے۔ جنوبی افریقی اننگز دن کے اختتامی لمحات میں 569 رنز پر تمام ہوئی اور آسٹریلیا کو فتح کے لیے 632 رنز کا بھاری ہدف ملا۔

آسٹریلیا کی جانب سے نوجوان مچل اسٹارک نے 6 جبکہ مچل جانسن نے 4 وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن اسٹارک کے لیے یہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہا۔ انہیں تقریباً 29 اوورز میں 154 رنز بھی کھانے پڑے، یعنی قریب قریب ساڑھے پانچ کے اوسط سے جبکہ جانسن نے بھی 110 رنز دیے۔ ان کے علاوہ جان ہیسٹنگز اور ناتھن لیون بری طرح ناکام رہے جنہیں بالترتیب 102 اور 128 رنز پڑے اور کوئی وکٹ بھی نہ ملی۔

اتنے بھاری ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کا آغاز محتاط تھا کیونکہ ابھی دو سے زائد دن کا کھیل باقی تھا، اس لیے میچ کو بے نتیجہ کرنا تو آسٹریلیا کے بس میں نہ تھا۔ اسے لازماً فتح کے لیے کھیلنا تھا لیکن اس کے لیے چند کھلاڑیوں کی جانب سے ناقابل یقین کارکردگی دکھانے کی ضرورت تھی۔ تیسرا روز تو انہوں نے بغیر کسی وکٹ کے 40 رنز بنا کر گزار لیا لیکن چوتھا دن جنوبی افریقی باؤلرز کا تھا۔ جنہوں نے صبح کا آغاز ہی وکٹ کے ساتھ کیا جب دن کی دوسری ہی گیند پر وارنر سلپ میں کیچ دے بیٹھے۔ کچھ دیر مزاحمت کے بعد وکٹیں گرنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا۔ پہلے واٹسن، پھر پونٹنگ اور پھر کووان نکلے تو 130 پر آسٹریلیا کی چار وکٹیں گر چکی تھیں۔ پونٹنگ جب اپنی آخری اننگز کھیلنے کے لیے میدان میں آئے تو جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں نے انہیں "گارڈ آف آنر" پیش کیا۔ اس خیر سگالی قدم کو تماشائیوں کی جانب سے بہت سراہا گیا اور بلاشبہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی جانب سے بھی۔

بہرحال، جنوبی افریقہ کی تیز گیند بازوں کی مثلث اپنا کام دکھا رہی تھی۔ معمولی مزاحمت تو اسے ہوئی لیکن یہ امر طے شدہ تھا کہ آسٹریلیا شکست سے دوچار ہوگا۔ 200 رنز پر پہنچنے سے پہلے پہلے مائیکل کلارک، مائیکل ہسی اور میتھیو ویڈ بھی اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ چکے تھے جبکہ واحد قابل ذکر مزاحمت آخری وکٹ پر مچل اسٹارک اور ناتھن لیون نے کی جنہوں نے 87 رنزبنا کر شکست کے مارجن کو کم کیا اور آسٹریلیا کو ریکارڈ شکست کی ہزیمت سے بچایا۔

اسٹارک 43 گیندوں پر 68 رنز بنا کر ناقابل شکست اور آسٹریلیا کے سب سے بہترین بلے باز رہے، جبکہ لیون نے 31 رنز بنائے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے ڈیل اسٹین اور رابن پیٹرسن نے 3، 3 اور فلینڈ اور مورکل نے 2،2 وکٹیں حاصل کیں۔

ہاشم آملہ کو شاندار بلے بازی پر میچ کا اور مائیکل کلارک کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس شاندار فتح کے ساتھ جنوبی افریقہ نے ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں اپنا پہلا مقام برقرار رکھا ہے اور اب اسے انگلستان کی جانب سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے جو بھارت کو ہرا کر بھی اسے اس پوزیشن سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس فتح کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کی بدولت جنوبی افریقہ پورے سال 2012ء میں ناقابل شکست رہا۔ اس نے آغاز سری لنکا کے خلاف 2-1 کی فتح سے کیا اور پھر نیوزی لینڈ کو 1-0 سے اور پھر انگلستان کو 2-0 کی تاریخی شکست سے دوچار کیا۔ رآسٹریلیا شکست کے باوجود تیسرے نمبر پر ہی ہے جسے پاکستان پر 5 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔