کک ’کیپٹن فنٹاسٹنک‘، انگلستان کو ناقابل یقین و ناقابل شکست برتری حاصل

2 1,102

کس نے تصور کیا ہوگا کہ جنوبی افریقہ کے اپنے ہی میدانوں پر ذلت آمیز شکست کھانے والا انگلستان دنیائے کرکٹ کی سب سے مشکل مہم پر اس طرح کامیابیاں سمیٹے گا؟ جی ہاں، انگلستان کولکتہ میں ہونے والا تیسرا ٹیسٹ 7 وکٹوں سے جیت کر بھارت کے خلاف سیریز میں 2-1 کی ناقابل شکست برتری حاصل کرچکا ہے اور اس فتح کےمعمار تھےانگلش قائد و سالار ایلسٹر کک، جن کی ریکارڈ شکن و ریکارڈ ساز بلے بازی نے بھارت کو 8 سالوں کے بعد کسی ہوم سیریز میں شکست کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے جبکہ انگلستان کو 28 سال بعدبھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دینے کے قریب پہنچا دیا ہے۔

ایلسٹر کک کی ریکارڈ ساز اننگز نے بھارت کو ہوم گراؤنڈ پر ایک اور شکست سے دوچار کیا (تصویر: BCCI)
ایلسٹر کک کی ریکارڈ ساز اننگز نے بھارت کو ہوم گراؤنڈ پر ایک اور شکست سے دوچار کیا (تصویر: BCCI)

ماہرین تو سمجھ رہے تھے کہ انگلستان بھارت کے خلاف ایک مقابلہ بھی نہ جیت پائے گا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف اپنی میدانوں میں بدترین شکست کی ہزیمت کے بعد جب احمد آباد میں پہلے ٹیسٹ میں بھارت نے یکطرفہ مقابلے کے بعد اسے شکست دی، انگلستان کی کمزوری مزید عیاں ہو گئی۔ لیکن یہ کپتان ایلسٹر کک کی بلند حوصلگی اور جراتمندی تھی، جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پہلے ممبئی اور اب کولکتہ میں انگلستان نے تاریخی فتوحات سمیٹتے ہوئے انگلستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں تقریباً 30 سالوں سے کوئی انگلش کپتان نہیں پہنچ پایا۔

انگلستان نے آخری مرتبہ 1984-85ء میں ڈیوڈ گاور کی زیر قیادت بھارت میں سیریز جیتی تھی اور اب کک الیون کو یہ تاریخی سنگ میل عبور کرنے کےلیے ناگ پور میں ہونے والے آخری ٹیسٹ کو محض ڈرا کرنا ہوگا جبکہ دوسری جانب بھارت کے لیے اب رہی سہی عزت بچانے کا وہی آخری موقع ہوگا۔

دوسری جانب عالمی کپ 2011ء جیتنے کے بعد بھارت کی کرکٹ کے پرائم فارمیٹ یعنی ٹیسٹ میں کارکردگی جس بری طرح متاثر ہوئی تھی، اس کا اظہار اسی بات سے ہوتا ہے کہ بھارت کو بیرون ملک مسلسل 8 ٹیسٹ میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ البتہ اس عرصے میں ان پر لگا ہوا 'گھر کے شیر' کا لقب بدستور برقرار رہا۔ انہوں نے گو کہ مشکل سے سہی لیکن ویسٹ انڈیز کو ہرایا ضرور لیکن انگلستان اور آسٹریلیا میں بدترین ہاروں نے ان کے دامن کو داغدار کر دیا۔ معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنے والے حلقوں کی جانب سے یہ صدائیں تک بلند ہوئیں کہ انگلستان کے کلین سویپ کا بدلہ بھارتی سرزمین پر لیا جائے گا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بھارت اپنے گھر میں بھی ڈھیر ہونے والا ہے۔

چلیے، نظر دوڑاتے ہیں کہ آخر کولکتہ میں پانچ دن تک کیا کچھ ہوتا رہا۔ بھارتی قائد مہندر سنگھ دھونی نے ایک مرتبہ پھر ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور بھارت گوتم گمبھیر، سچن تنڈولکر اور خود کپتان کی نصف سنچریوں کی بدولت 316 رنز کے مجموعے تک پہنچا۔ لیکن یہ حقیقت یہ ہے کہ پہلا دن انگلش باؤلرز کے نام رہا، جنہوں نے 7 بھارتی وکٹیں گرا کر حریف کو غالب پوزیشن حاصل نہ کرنے دی۔ جب 273 رنز پر پہلے دن کا کھیل ختم ہوا تو کریز پر واحد مستند بلے باز دھونی ہی بچے تھے ، جبکہ دیگر تمام بیٹسمین واپس لوٹ چکے تھے۔ گزشتہ مقابلے کی طرح صرف اسپنرز گریم سوان اور مونٹی پنیسر نے ہی نہیں، بلکہ اس مرتبہ تیز باؤلر جیمز اینڈرسن نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

دوسرے دن انگلش گیند بازوں نے کسی بلے باز کو طویل قیام نہ کرنے دیا اور پوری بھارتی ٹیم 316 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ اک ایسے میدان پر جہاں پر کھیلے گئے گزشتہ تینوں مقابلوں میں بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 600 سے زائد رنز بنائے ہوں، ایسے مجموعے پر آؤٹ ہونا میزبان ٹیم کے لیے تشویشناک امر تھا۔

انگلستان کی جانب سے مونٹی پنیسر نے 4 اور جیمز اینڈرسن نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ ایک،ایک وکٹ گریم سوان اور اسٹیون فن کو ملی۔

بلے بازوں اور باؤلرز کی ناقص کارکردگی کے باعث جو بھارت کے لیے معمولی سی کسر رہ گئی تھی وہ فیلڈرز نے پوری کر دی (تصویر: BCCI)
بلے بازوں اور باؤلرز کی ناقص کارکردگی کے باعث جو بھارت کے لیے معمولی سی کسر رہ گئی تھی وہ فیلڈرز نے پوری کر دی (تصویر: BCCI)

اور جواب میں انگلستان نے کیا خوبصورت بلے بازی کی۔ کپتان ایلسٹر کک نے ریکارڈ ساز اننگز کھیلی، گو کہ وہ انتہائی بدقسمت رہے کہ اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر سکے لیکن ابتداء ہی سے انہوں نے جیسی کارکردگی دکھائی، وہ بھارت کو میچ سے باہر کرنے کے لیے کافی تھی۔ کک اور نک کومپٹن نے پہلی وکٹ پر 165 رنز جوڑے اور پورا دن بھارتی باؤلرزجدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ جب دوسرے روز کا کھیل اختتام کو پہنچا تو بھارت کی برتری صرف 100 رنز کی رہ گئی تھی اور انگلستان کی ابھی 9 وکٹیں باقی تھیں۔

تیسرا دن مکمل طور پر انگلستان کا دن تھا۔ کک ، جوناتھن ٹراٹ اور کیون پیٹرسن کے بلوں سے اگلنے والے رنز بھارت کی رہی سہی ساکھ بھی بہا لے گئے۔ کک اور ٹراٹ کے درمیان 173 رنز کی رفاقت کا خاتمہ پراگیان اوجھا کی گیند پر ٹراٹ کے پویلین لوٹنے سے ہوا جنہوں نے 223 گیندوں 87 رنز بنائے۔

اس کے بعد میچ کا افسوسناک ترین لمحہ آیا جب ایلسٹر کک رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے اپنی ڈبل سنچری نہ بنا سکے۔ وہ 190 رنز پر کھیل رہے تھے کہ حریف کھلاڑی ویراٹ کوہلی کی ایک براہ راست تھرو سے خود کو بچانے کی کوشش میں وکٹیں ظاہر کر بیٹھے اور رن آؤٹ قرار پائے۔ 377 گیندوں پر محیط اس اننگز کے دوران کک نے 23 چوکے اور 2 چھکے لگائے اور انگلستان کی شاندار فتح کی بنیاد رکھی۔ اس اننگز کے دوران کک نے کئی سنگ میل عبور کیے، جن میں انگلستان کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے باز ہونے کا اعزاز حاصل کرنا اور سب سے کم عمر میں 7 ہزار ٹیسٹ رنز کی تکمیل قابل ذکر ہیں (تفصیلات یہاں دیکھئے )

ان دونوں بلے بازوں کے علاوہ کیون پیٹرسن نے 54 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی اور جب تیسرا روز مکمل ہوا تو انگلستان بھارت پر 193 رنز کی برتری حاصل کر چکا تھا اور اس کی چار وکٹیں بھی باقی تھیں۔ البتہ چوتھے دن آخری چار وکٹیں اسکور میں صرف 14 رنز کا اضافہ کر پائیں اور انگلش اننگز 523 رنز پر تمام ہوئی یعنی بھارت پر 207 رنز کی زبردست برتری۔

یہ انگلش بلے بازوں کے لیے تابناک اور بھارتی فیلڈرز کے لیے شرمناک دن بھی تھا۔ خصوصاً ایشانت شرما کے ہاتھوں کک کا کیچ چھوڑنا ناقابل یقین تھا۔ اک دھیمی رفتار سے مناسب بلندی پر آنے والا کیچ، جسے بین الاقوامی سطح پر کھیلنے والا کوئی کھلاڑی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، ایشانت اپنے ہاتھوں سے گرا بیٹھے۔

پراگیان اوجھا نے سب سے زیادہ 4 اور روی چندر آشون نے 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک، ایک وکٹ ظہیر خان اور ایشانت شرما کو ملی۔

اب بھارت کی باری تھی کہ وہ اپنی 'مشہور زمانہ' بلے بازی کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے کولکتہ سے وابستہ پرانی یادوں کو تازہ کرے اور معجزہ کر دکھائے۔ وریندر سہواگ اور گوتم گمبھیر کے درمین 86 رنز کی شراکت داری نے امید کی کرن ضرور دکھلائی لیکن گریم سوان کے ہاتھوں سہواگ (49 رنز) کے بولڈ اور پھر بغیر کسی بڑے وقفے کے 9 وکٹوں کے گرنے سے بھارت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی۔ پجارا 8 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے، تو دوسرے اینڈ سے فن نے گوتم گمبھیر کو 40 رنز پر پویلین کی راہ دکھا دی۔ اگلے ہی اوور میں سچن تنڈولکر گریم سوان کی گیند پر سلپ میں کیچ دے بیٹھے۔ یووراج سنگھ 11 اور کپتان مہندر سنگھ دھونی صفر پر جمی اینڈرسن کی "خوراک" بن گئے۔اب صرف ویراٹ کوہلی بچے تھے، جن کے لیے یہ پوری سیریز ایک بھیانک خواب رہی ہے، اور یہ خواب بدستور جاری ہے، وہ 2 رنز بنانے کے بعد اسٹیون فن کی دوسری وکٹ بنے۔ فن نے اگلے ہی اوور میں ظہیر خان کو بھی آؤٹ کر دیا یوں بھارت 159 رنز پر اپنی 8 وکٹیں گنوا بیٹھا۔

ایڈن گارڈنز میں صرف انگلش اسپنرز ہی نہیں بلکہ تیز باؤلرز بھی بھرپور فارم میں نظر آئے (تصویر: BCCI)
ایڈن گارڈنز میں صرف انگلش اسپنرز ہی نہیں بلکہ تیز باؤلرز بھی بھرپور فارم میں نظر آئے (تصویر: BCCI)

اس موقع پر جب بھارت کو اننگز کی بدترین شکست سامنے نظر آ رہی تھی، روی چندر آشون چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔ انہوں نے پہلے ایشانت شرما کے ساتھ نویں وکٹ پر 38 رنز جوڑے اور پھر بھارت کو اننگز کی ہزیمت سے بچایا۔ جب چوتھا دن مکمل ہوا تو بھارت 9 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ 239 رنز پر پہنچ چکا تھا اور آشون 83 رنز پر ناقابل شکست تھے۔ آخری روز صرف یہ دیکھنا تھا کہ آیا آشون سنچری مکمل کر پائیں گے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ اور وہ نہیں کر پائے! اینڈرسن نے 247 کے مجموعے پر دوسرے اینڈ سے اوجھا کو بولڈ کر کے بھارتی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ آشون 157 گیندوں پر 91 رنز پر بنا کر ناقابل شکست ہی میدان سے لوٹے۔

انگلستان کی جانب سے دونوں تیز باؤلرز یعنی اینڈرسن اور فن نے 3،3، سوان نے دو اور مونٹی نے ایک وکٹ حاصل کی۔

صرف 41 رنز کے ہدف کے تعاقب میں کک کی جلد بازی اور پھر جوناتھن ٹراٹ اور کیون پیٹرسن کے آؤٹ ہونے سے کچھ دیر کے لیے مقابلے میں زندگی پیدا ہو گئی۔ کک آشون کو آگے بڑھ کر کھیلنے کی پاداش میں وکٹوں کے پیچھے سے اسٹمپ کر دیے گئے جبکہ ٹراٹ کو اوجھا نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ 'کے پی' آشون کی دوسری وکٹ بنے اور یوں انگلستان 8 رنز پر اپنے تین بہترین بلے بازوں سے محروم ہو گیا۔ لیکن این بیل نے آتے ہی حالات کو اپنی گرفت میں لیا اور پھر بھارت کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ 13 ویں اوور کی پہلی گیند پر انگلستان نے مقررہ ہدف حاصل کر کے سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کر لی۔

ایلسٹر کک کو شاندار بلے بازی اور کپتانی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

بیرون ملک دو بڑی سیریز ہارنے کے بعد اب اپنے ملک میں بھی شکست کے دہانے پر ہونا بھارت کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اب سب سے بڑا سوال دھونی کی قائدانہ اہلیت و صلاحیت پر اٹھایا جائے گا، اور 13 دسمبر سے ناگ پور میں شروع ہونے والا آخری ٹیسٹ گویا دھونی کے لیے ایک سخت امتحان ہوگا۔