[آج کا دن] پاک-بھارت سنسنی خیز مقابلہ، نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا

2 1,012

پاکستان کی سرزمین ہند پر اک مایوس کن سیریز کا سنسنی خیز ترین لمحہ جب بھارت محض 26 اور پاکستان صرف 4 وکٹوں کے فاصلے سے فتح سے محروم رہ گیا اور دہلی ٹیسٹ بے نتیجہ اختتام کو پہنچا۔

بھارت کا مایوس کن دورہ کرنے والا پاکستانی دستہ، جس کے قائد آصف اقبال تھے (تصویر بشکریہ سکندر بخت)
بھارت کا مایوس کن دورہ کرنے والا پاکستانی دستہ، جس کے قائد آصف اقبال تھے (تصویر بشکریہ سکندر بخت)

1979ء میں فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم آج ہی کے روز یعنی 9 دسمبر کو اختتام پذیر ہونے والے مقابلے میں سکندر بخت کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے بھارت کی تمام امیدیں خاک میں مل چکی تھیں لیکن بھارت نے اننگز کو گیئر نہ لگایا اور اس کا خمیازہ ایک یقینی فتح سے محرومی کی صورت میں بھگتا۔ گو کہ دلیپ وینگسارکر کی 146 رنز کی اننگز بھارت کو شکست سے بچانے کا بھی اک اہم سبب تھی لیکن اگر وہ اس میں ذرا سی تیز رفتاری اختیار کرتے تو بھارت کو فتح سے ہمکنارکر سکتے تھے۔

لیکن پاکستان کیوں نہ جیت پایا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی عدم موجودگی تھی جو میچ کے دوسرے روز ہی زخمی ہو گئے تھے۔ وہ پہلی اننگز میں آٹھواں اوور پھینکتے ہوئے زخمی ہوئے اور پھر دوسری اننگز میں بھی صرف ایک اوور ہی کرا پائے۔ اسٹرائیک باؤلر کی عدم موجودگی سے بھارتی بلے بازوں کو حوصلہ ملا اور وہ میچ پاکستان کی گرفت سے نکال گئے۔

پاکستان نے پہلی اننگز میں وسیم راجہ کے 97 اورکپتان آصف اقبال کے 64 رنز کی بدولت 273 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں بھارت کی ٹیم نوجوان سکندر بخت کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے صرف 126 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ سکندر نے 69 رنز دےکر 8 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ سکندر بخت کا بھارت میں پہلا ٹیسٹ مقابلہ تھا، جس میں انہوں نے سنیل گاوسکر، دلیپ وینگسارکر، کپل دیو سمیت آٹھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

147 رنز کی حیران کن برتری ملنے کے بعد پاکستان نے اپنی دوسری اننگز کا بھرپور آغاز کیا اور ظہیر عباس اور وسیم راجہ کی نصف سنچریوں کے نتیجے میں محض 4 وکٹوں پر اپنی برتری 348 تک پہنچا دیا۔ لیکن کپتان کے لوٹتے ہی وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ آخری چھ وکٹیں صرف 41 رنز کا اضافہ کر پائیں۔ کپل دیو اور دلیپ دوشی نے پاکستانی ٹیل پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسے 364 پر ختم کر دیا۔

یوں بھارت کو جیت کےلیے 390 رنز کا بھاری ہدف ملا اور تقریباً ڈیڑھ دن ابھی باقی تھا۔ بھارت نے دو وکٹیں گنوائیں اور اسکور کو 117 تک پہنچایا لیکن آخری روز یہ وینگسارکر کی سست روی تھی، جس نے ہدف کی جانب پیشقدمی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کھڑی کی۔ ان کی ”کچھوا چال“ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے پہلے پورے سیشن میں صرف 17 رنز بنائے۔

ایسا لگتا تھا کہ بھارت کو میچ میں شکست سے بچنے کی اس قدر فکر ہے کہ وہ یہ بھول ہی چکا ہے کہ اسے جیتنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ اور جب یہ بھولا ہوا سبق یاد آیا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔

بھارت کو آخری سیشن میں 139 رنز درکار تھے۔ تب بلے بازوں کو کچھ ہوش آیا ور دونوں اینڈز سے رنز بنانے کی رفتار میں اضافہ ہوا لیکن آخری سیشن میں سکندر بخت کے ہاتھوں یشپال شرما کا آؤٹ بھارت کے لیے سخت دھچکا ثابت ہوا۔ وہ اب بھی منزل سے 114 رنز کے فاصلے پر تھا جو اسے دن کے آخری 20 اوورز میں بنانے تھے۔ حتمی لمحات میں کپل دیو اور وینگسارکر نے کوشش ضرور کی لیکن 26 رنز کی دوری سے ہدف کو حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔

وینگسارکر 146 رنز کی اننگز کے دوران 522 منٹ تک کریز پر موجود رہے اور 370 گیندیں کھیلیں۔ یوں دلیپ کی تاریخی اننگز صرف ”میچ بچاؤ“ ہی قرار پائی ”فتح گر“ نہیں۔

پاکستان کی جانب سے سکندر بخت نے میچ میں 11 وکٹیں حاصل کیں، جو ان کے کیریئر کی بہترین باؤلنگ رہی۔

البتہ اس شاندار کارکردگی کے باوجود پاکستان کے لیے یہ سیریز مایوس کن رہی۔ اولین دونوں میچز بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد پاکستان ممبئی میں ہونے والا اگلا مقابلہ بری طرح ہار گیا اور بھارت کو سیریز میں ایسی برتری ملی جو بعد ازاں بڑھی ضرور لیکن کم نہیں ہوئی۔ مدراس میں پانچواں ٹیسٹ بھارت کی جیت پر مہر ثبت کر گیا جہاں اس نے 10 وکٹوں کی فیصلہ کن فتح حاصل کی اور کلکتہ کا آخری ٹیسٹ سنسنی خیز مقابلے کے بعد بے نتیجہ اختتام کو پہنچا۔ یوں سیریز 2-0 سے میزبان بھارت کے نام رہی۔