گھر کے شیر کا اعزاز بھی ہاتھوں سے گیا، 28 سال بعد گورے کامیاب

5 1,085

ممبئی میں بدترین شکست کے بعد کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ انگلستان ایسی شاندار جوابی کارروائی ڈالے گا کہ ہندوستان اگلے تینوں مقابلوں میں چاروں شانے چت ہوگا۔ احمد آباد اور کولکتہ کے بعد ناگپور میں بھی ہندوستان جس طرح کھیل کے تمام شعبوں میں ناک آؤٹ ہوا ہے، اس سے کم از کم یہ تو ضرور ثابت ہو گیاہے کہ اب بھارت ”گھر کا شیر“ بھی نہیں رہا۔گو کہ نتیجہ ڈرا کی صورت میں نکلا لیکن آخری دن جب ہندوستان کو ’ابھی نہیں، تو کبھی نہیں‘ والی صورتحال کا سامنا تھا، وہ پورے دن کی جدوجہد کے باوجود صرف ایک وکٹ حاصل کر پایا اور یوں انگلستان نے میچ بچا کر سیریز اپنے نام کر لی۔

تاریخی فتح کے بعد ڈریسنگ روم میں زبردست جشن، کیون پیٹرسن تمام کھلاڑیوں کے دستخط کی حامل شرٹ پہنے ہوئے (تصویر: Twitter/Matt Prior)
تاریخی فتح کے بعد ڈریسنگ روم میں زبردست جشن، کیون پیٹرسن تمام کھلاڑیوں کے دستخط کی حامل شرٹ پہنے ہوئے (تصویر: Twitter/Matt Prior)

یوں 28 سال کے طویل عرصے کے بعد سرزمین ہندوستان پر کوئی ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا۔ آخری مرتبہ 1984-85ء میں ڈیوڈ گاور کی زیر قیادت ٹیم نے بالکل اسی طرح 1-0 سے خسارے میں جانے کے بعد سیریز جیتی تھی۔ اس وقت شاید ایلسٹر کک پیدا بھی نہ ہوئے تھے، بہرحال آج اسی کک نے اپنی زیر قیادت پہلی کی سیریز میں ایسا تاریخی کارنامہ انجام دے ڈالا ہے، جو دہائیوں میں جا کر کسی ٹیم کو نصیب ہوتا ہے۔ مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں یہ بھارت کی ہوم گراؤنڈ پر پہلی سیریز شکست تھی۔ اس طرح بیرون ملک انگلستان اور آسٹریلیا کے خلاف شکستیں کھانے کے بعد دھونی الیون نے گھر پر بھی شکست کا مزا چکھ ہی لیا۔

گو کہ چوتھے ٹیسٹ میں انگلستان کے لیے ابتداء ہی سے حالات اچھے ثابت نہ ہوئے تھے، لیکن انہوں نے دباؤ کو بہت ہی اچھے طریقے سے جھیلا، اور بھارت کی طرح سنگین غلطیاں نہیں کیں۔

پہلے روز ان فارم کپتان کی وکٹ جلد گر جانے کے باوجود جوناتھن ٹراٹ اور کیون پیٹرسن کے درمیان 235 گیندوں پر 86 رنز کی شراکت اور پھر میٹ پرائیر اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے جو روٹ کی 285 گیندوں پر 103 رنز کی رفاقت انگلینڈ کو بحران سے نکال لے گئی۔ انگلستانی بلے بازوں نے جس طرح کا کھیل پہلے اور دوسرے دن پیش کیا، وہ اس بات کی عکاسی کر رہا تھا کہ انگلستانی ٹیم ایک منظم اجتماعی قوت کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ انگلستان کی جانب سے بنائے گئے 330 رنز میں ٹیم کے کم و بیش ہر رکن نے اپنا بھرپور تعاون پیش کیا تھا۔ٹراٹ نے 44 اور کیون پیٹرسن اور نوجوان روٹ نے 73،73 رنز بنائے جبکہ حتمی لمحات میں میٹ پرائیر کے 57 اور گریم سوان کے 56 رنز نے اسکور کو 300 کی نفسیاتی حد سے اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بھارت کی جانب سے پیوش چاولہ نے4، ایشانت شرما نے 3، رویندرجادیجا نے 2 اور روی چندر آشون نے ایک وکٹ حاصل کی۔

ایک مشکل وکٹ پر انگلش بلے بازوں کی توقع سے بڑھ کر کارکردگی کے برعکس بھارت کی ابتدا ہی انتہائی ناقص رہی جب قابل اعتماد بلے باز وریندر سہواگ اس وقت جمی اینڈرسن کی گیند پر صفر پر پویلین لوٹ گئے جب اسکور کارڈ پر ٹیم کا اسکور محض ایک رن تھا۔ پہلے اور دوسرے ٹیسٹ میچ کے ہیرو چیتشور پجارا نے کسی حد تک گوتم گمبھیر کا ساتھ دینے کی کوشش تو کی لیکن وہ بدقسمتی سے امپائر کے ایک ناقص فیصلے کی زد میں آ گئے۔ کیونکہ ری پلے سے یہ معلوم ہوا کہ گیند ان کے دستانوں سے نہیں بلکہ ان کی کہنی کے نچلے حصہ کو چھوتی ہوئی قریبی کھڑے این بیل کے ہاتھوں میں گئی تھی۔

اب تمام ذمہ داری ایک ایسے بلے باز کے سر آن پڑی تھی جو خود اپنی کارکردگی سے نالاں و پریشاں تھا۔ جی ہاں سچن تنڈولکر! حسب روایت یہاں بھی ان کے بلے سے ایک ذمہ دار باری دیکھنے کا خواب نہ صرف کہ چکنا چور ہوا، بلکہ جس انداز سے وہ اینڈرسن کی گیند پر کلین بولڈ ہوئے، اس نے ماضی قریب کی طرح ایک دفعہ پھر ان کی قابلیت و صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا ڈالا۔

پہلی اننگز میں سچن تنڈولکر کے بولڈ ہونے نے ایک بار پھر ان کی قابلیت و اہلیت پر سوال اٹھا دیا ہے (تصویر: BCCI)
پہلی اننگز میں سچن تنڈولکر کے بولڈ ہونے نے ایک بار پھر ان کی قابلیت و اہلیت پر سوال اٹھا دیا ہے (تصویر: BCCI)

87 رنز پر 4 کھلاڑی آؤٹ کے مایوس کن اسکورکارڈ کے ساتھ کھیل کا تیسرا دن شروع ہوا اور کپتان مہندر سنگھ دھونی اورجانباز بلے باز ویراٹ کوہلی نے بھارت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے اپنی پوری قوت جھونک دی۔ تیسرے دن کے چائے کے وقفے تک ہر بھارتی شائق ان دونوں بلے بازوں کو سلام کرتا رہا۔ ان کے بلے سے نکلنے والا ایک، ایک رن اور کریز پر گزرنے والا ایک ایک منٹ شائقین کی امیدوں کو بیدار کرتا رہا۔ لیکن تعریف کرنی ہوگی، انگلستانی کھلاڑیوں کی کہ جب بھارت اس حیرت انگیز شراکت کے سہارے اپنی ٹوٹی ہوئی کشتی کے کل پرزے جوڑنے میں مصروف تھا اور یہ کشتی ویراٹ کوہلی کی شاندار سنچری اور کپتان مہندر سنگھ دھونی کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت بالکل محفوط مقام پر آنے ہی والی تھی کہ گریم سوان نے وہ کاری ضرب لگائی کہ جس نے 507 گیندوں پر 198 رنز کی اس شاندار رفاقت کا خاتمہ کر دیا۔ویراٹ کوہلی اپنی چوتھی ٹیسٹ سنچری بنانے کے فوراً بعد ایل بی ڈبلیو قرار پائے۔ انہوں نے 295 گیندوں پر 11 چوکوں کی مدد سے 103 رنز بنائے۔

جو ٹوٹی اور ڈوبتی ہوئی کشتی از سر نو منظم ہو کر طوفان کامقابلہ کرنے کو تیار ہو چلی تھی، ایک دفعہ پھر ہچکولے کھانے لگی۔ یہ ضرب اتنی شدید تھی کہ اس نے نہ صرف بھارتی بلے بازوں کے حوصلے توڑ ڈالے بلکہ اس نے انگلستانی گیند بازوں کو نئی جان بھی بخش دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اینڈرسن جو اب تک بے ضرر دکھائی دے رہے تھے، رویندر جادیجا پر پہلے ٹیسٹ کے دباؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ایل بی ڈبلیو کر ڈالا۔ اس ”اتھل پتھل“ کا نتیجہ یہ ہوا کہ کپتان مہندر سنگھ دھونی جو 90 رنز بنا کر تقریباً ایک گھنٹے کریز پر گزار چکے تھے، 99 پر پہنچ کر دہرے دباؤ کا شکار ہو گئے اور افسوسناک انداز میں محض چند ’ملی میٹرز‘ کے فاصلے سے سنچری سے محروم ہو گئے۔ کپتان کا اہم سنگ میل سے محض ایک رن کے فاصلے پر رن آؤٹ ہونا بھارتی شائقین کے لیے پورے میچ کا سب سے تکلیف دہ لمحہ تھا۔ اسی روز کھیل کے بالکل اختتامی لمحات میں سوان نے تابوت میں ایک کیل اور ٹھونک ہی دی، اس طرح بھارتی اننگز جو تیسرے دن کی شروعات اور تقریباً کھیل کے بیشتر لمحات میں شائقین کی داد و تحسین وصول کرتی رہی آناً فاناً ایسی منتشر ہوئی کہ سارا نظارہ ہی تبدیل ہو گیا۔ بھارت اب بھی انگلستان کے پہلی اننگز کے اسکور 330 رنز سے 33 قدموں کے فاصلے پر ہے اور اس کی صرف دو وکٹیں باقی رہ گئی ہیں۔

بھارت کے لیے میچ کا سب سے تکلیف دہ لمحہ مہندر سنگھ دھونی کا 99 رنز پر رن آؤٹ ہونا تھا (تصویر: BCCI)
بھارت کے لیے میچ کا سب سے تکلیف دہ لمحہ مہندر سنگھ دھونی کا 99 رنز پر رن آؤٹ ہونا تھا (تصویر: BCCI)

اس طرح شاندار گیند بازی کے ذریعے انگلستان مقابلے میں واپس آیا۔ چوتھے روز کھانے کے وقفے سے قبل بھارت نے 326 رنز بنا کر اپنی پہلی اننگز ختم کرنے کا اعلان کیا، اس موہوم سی امید کے ساتھ کہ وہ باؤلرز کے بل بوتے پر شاید میچ نکال جائے۔لیکن دوسری اننگز میں انگلش بلے بازوں نے مزید اعتماد کے ساتھ کھیلا، خصوصاً جوناتھن ٹراٹ اور این بیل کے درمیان 208 رنز کی شراکت تو گویا بھارت کے لیے آخری تازیانہ ثابت ہوئی۔ دونوں بلے باز پانچویں روز بھارتی زخموں پر جی بھر کر نمک چھڑکتے رہے، اور انہیں وکٹ کے لیے ترساتے رہے اور پورے دن کی محنت کے باوجود انہیں صرف ایک وکٹ حاصل ہوئی جب ٹراٹ 310 گیندوں پر 143 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ جب دونوں کپتانوں نے آخری گھنٹہ شروع ہونے سے قبل مقابلہ ختم کرنے پر اتفاق کیا تو انگلستان کا اسکور 352 رنز چار کھلاڑی آؤٹ تھا۔

یوں انگلستان نے مبصرین کے تمام تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف اک تاریخی فتح سمیٹی بلکہ کسی حد تک جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ سیریز شکست کا داغ بھی دھو ڈالا ہے۔ دوسری جانب بیرون ملک مسلسل دو سیریز میں کلین سویپ کے بعد اب اپنے ہی گھر پر ایسی بدترین شکست کے بعد بھارتی ٹیم کی ٹیسٹ اہلیت پر شدت کے ساتھ انگلیاں اٹھیں گی اور عین ممکن ہے کہ بھارت آسٹریلیا کی طرز پر کسی قسم کا تحقیقاتی کمیشن بٹھائے اور اس کے نتیجے میں ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں۔

جیمز اینڈرسن کو میچ اور ایلسٹر کک کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اب انگلستان کی ٹیم کرسمس اور سالِ نو کی تعطیلات منانے کے لیے وطن واپس روانہ ہو جائے گی اور محدود اوورز کا مرحلہ کھیلنے کے لیے جنوری میں واپس ہندوستان آئے گی۔ اس دوران بھارت پاکستان کے خلاف محدود اوورز کی ایک مختصر سیریز کھیلے گا جس میں دونوں ٹیمیں تین ایک روزہ اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جائیں گے۔