سچن: شاندار کیرئیر کا افسوسناک اختتام

1 1,027

تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

عہد حاضر کے بریڈ مین،کرکٹ کے دیوتا اور ریکارڈز کے بے تاج بادشاہ سچن رمیش تنڈولکر نے بالآخر ایک روزہ میچوں کو خیرباد کہہ ہی دیا اور 23برسوں پر محیط سچن کاطویل اور حیرت انگیز کیریئر یک لخت اپنے اختتام کو پہنچ گیا، اور وہی ہوا جس کا ڈر اُن کے مداحوں کو اکثر پریشان کرتا تھا، یعنی ایک شاندار کیرئیر کا افسوسناک اختتام۔

اگر سچن عالمی کپ 2011ء کے عین بعد ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیتے تو یہ کرکٹ کی تاریخ کا حسین ترین الوداعیہ ہوتا (تصویر: AFP)
اگر سچن عالمی کپ 2011ء کے عین بعد ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیتے تو یہ کرکٹ کی تاریخ کا حسین ترین الوداعیہ ہوتا (تصویر: AFP)

سچن کے اس ناگہانی فیصلے کی توقع یقیناً کسی نے نہیں کی تھی۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ’نا قابل فہم ‘مظاہروں کے سبب اُن کے ریٹائرمنٹ کے مطالبات گرچہ زور پکڑ چکے تھے ، اس کے باوجود کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ سچن یوں اچانک، اور پاکستان کے خلاف اہم ترین سیریز سے قبل، ایک روزہ کرکٹ کو الوداع کہہ دیں گے۔

انگلستان کے خلاف بھارت کی حالیہ بدترین شکست جس میں ’ٹیم انڈیا‘ کے بیشتر ارکان نا اہل ثابت ہوئے ، ان میں ایک نام اس عظیم بلے باز کا بھی تھا۔کولکتہ ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 76رنز کے علاوہ سچن انگلستان کے خلاف کھیلے گئے تینوں ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکا م رہے ۔اس باری کو اگر چھوڑ دیا جائے تو گزشتہ 9ٹیسٹ باریوں میں سچن کا اسکور کچھ اس طرح تھا۔2، 5، 8، 8، 13، 27، 17 اور 19۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ کے خلاف گھریلو میدانوں پر ہی سچن بری طرح ناکام رہے تھے ۔ جس کے بعد اُن کی اہلیت پر چہار جانب انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔حتیٰ کہ سنیل گواسکر نے سچن کے عجیب و غریب انداز میں مسلسل بولڈ ہونے پر دو ٹوک لفظوں میں یہ کہہ دیا تھا کہ انہیں اب ریٹائر ہو جانا چاہئے ۔

نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی گئی اس سیریز کے بعد انگلستان نے جہاں بھارتی ٹیم کے پرانے زخموں کو مزید گہرا کر دیا وہیں انگلستان کا یہ تاریخی دورہ سچن کے لئے بھی نہ صرف یہ کہ پریشان کن رہا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسی دورے نے سچن کو اس حتمی فیصلے تک پہنچنے پر مجبور کر دیا تو غلط نہ ہوگا۔

احمد آباد ٹیسٹ کے بعد بھارتی کرکٹ کی تاریخ کی جس بدترین کہانی کی شروعات ہوئی اس کے ہر باب کے اختتام کے بعد میڈیا کی تلوار سچن پر گرتی رہی۔’کب جاؤ گے سچن‘، ’یوواؤں کو موقع دو‘ جیسے فقرے فضا میں گونجنے لگے ۔ یہ گونج نئی نہیں تھی۔ لیکن اس دفعہ یقیناً یہ سچن کے لئے ’سماعت شکن‘ ہوگئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ روایتی حریف پاکستان کے دورے سے قبل ہی سچن نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ بورڈ کے سامنے رکھ ڈالا۔

بورڈ کے لئے تو یہ خبر ’ہزار مرحلہ انتظار ختم ہوا‘ جیسی خوشخبری لے کر آئی۔صدر این سرینی واسن نے ’خندہ پیشانی‘ سے اس فیصلے کا استقبال کیا۔ سچن اوربورڈ کے درمیان اس ’ایجاب و قبول‘ کے عین بعد پاکستان کے خلاف کھیلی جانے والی ایک روزہ سیریز کے لئے بھارتی ٹیم کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ واقعات کا یہ ربط سچن کے شائقین کو کہاں گوارہ تھا؟نتیجتاً غیر معتبر ذرائع سے یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ بھارتی ٹیم کے انتخاب سے قبل سچن نے بورڈ کے صدر این سرینی واسن کو فون پر پاکستان کے خلاف کھیلی جانے والی ایک روزہ سیریز کے لئے اپنی دستیابی کے متعلق بتایا تھا۔ لیکن صدر نے ان کی خراب فارم کے سبب یہ مشورہ دیا کہ وہ انگلستان اور آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچوں پر توجہ دیں۔ ابھی ٹیم میں حالات کے پیش نظر ردو بدل ناگزیر ہو گئی ہے ۔ بورڈ کے اس بے باکانہ فیصلے نے ہی سچن کو لامحالہ کرکٹ سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا۔یہ باتیں غیر مصدقہ ہونے کے باوجود یہ سوال ضرور پیدا کرتی ہیں کہ آخر سچن نے پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے کسی میچ کو اپنے ریٹائرمنٹ کے لئے کیوں نہیں منتخب کیا؟

سچن کے ریٹائرمنٹ کی وجہ کچھ بھی رہی ہو، اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ کئی ماہ سے سچن اپنے کیرئیر کے آزمائشی دور سے گزر رہے تھے ۔ ان کے لئے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ایک مشکل ترین فیصلہ ہوتا جا رہا تھا۔صحیح وقت کے انتخاب میں یقیناً وہ پس و پیش میں تھے ۔ اور اسی پس و پیش میں انہوں نے کئی قیمتی مواقع گنوادئے ۔ عالمی کپ 2011ء کے عین بعد اگر وہ ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیتے تو یہ نہ صرف کرکٹ کی تاریخ کا حسین ترین الوداعیہ ہوتا بلکہ عالمی کپ 2011ء کے بعد بھارتی ٹیم کو ملنے والی رسوائیوں کے داغ سے کم از کم اس عظیم بلے باز کا دامن تو محفوظ رہتا، اور دنیا اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہتی کہ ایک عظیم کھلاڑی کی سبکدوشی ٹیم کو یتیم کر دیتی ہے ۔

بہر حال463میچوں میں اپنے جلوے بکھیر چکے سچن کی بدنصیبی کہیے یا ان کے شائقین کی کم نصیبی کہ اس عظیم بلے باز کواس کے آخری ایک روزہ میچ میں خراج عقیدت پیش نہ کیا جا سکا۔ ا س طرح اُن کے مداحوں کی یہ تمنا بھی پوری نہ ہو سکی کہ وہ اپنے پرستار کو رکی پونٹنگ، مرلی دھرن اور اسٹیو وا کی طرح اپنا آخری سلام پیش کریں۔

یہ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مارچ 2012ء میں ایشیا کپ میں کھیلا گیا پانچواں میچ سچن کا آخری ایک روزہ میچ ثابت ہو گا۔ اس میچ میں سچن نے 52رن بنائے تھے، ساتھ ہی بھارت نے شاندار طریقے سے پاکستان کو 6وکٹوں سے شکست دی تھی۔ لیکن اس وقت کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ میچ تاریخ کے صفحات پرکسی اور اعتبارسے بھی محفوظ ہو رہا ہے ۔

درحقیقت سچن کے بہترین ایک روزہ کیرئیر کا یہ قابل افسوس اور تکلیف دہ اختتام تھا۔اب ان کا ٹیسٹ کرکٹ سفر کتنی منزلیں طے کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ کرکٹ کے ہر شائق کی یہی تمنا رہے گی کہ ان منزلوں کی انتہامیں کوئی گہن نہ لگنے پائے اور سچن اپنے ٹیسٹ کیرئیر سے پورے آب و تاب اور احترام کے ساتھ رخصت ہوں۔