پاکستان کا دورۂ بھارت: فتح و شکست سے ماوراء

0 1,061

تحریر : سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

بھارت ۔پاک کے درمیان جاری تاریخی سیریز میں کون کس پر حاوی رہے گا،کس کے حصہ میں آئے گی شکست اور کون ہوگاسرخرو؟ رسوائیوں کا تاج کون پہنے گااور جیت کا سہرا سجے گا کس کے سر؟ان سوالات پر بحث اسی روز شروع ہو گئی تھی جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دورۂ ہند کے لئے ہری جھنڈی دکھائی گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سیریز کی اہمیت فتح و شکست کے نتائج سے ماوراء ہے۔ فاتح کوئی بھی ہو، اس یادگار ترین سیریز کا اصل نتیجہ سیریز کے اختتام سے شروع ہونے والا ہے۔

محض ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل میچوں پر مشتمل اس مختصر سیریز کوچند حلقوں سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارتی حکام کی پاکستان کرکٹ کے حوالے سے بیزاری تو اپنی جگہ لیکن چند "باغیرت" افراد اس سیریز کی مخالفت اس لئے بھی کرتے ہوئے دیکھے گئے کہ بھارت نے اس کے لئے کوئی علحدہ پروگرام طے نہیں کیا۔ بلکہ انگلستان کے دورۂ بھار ت کے پروگرام میں جو"خالی اوقات" تھے اسے گویا زبردستی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی میزبانی کے لئے منتخب کر لیا گیا۔

یہ اعتراضات گرچہ حق بجانب تھے، اس کے باوجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کی یہ اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس نے بھارت کی اس سنہری پیشکش کو بہ رضا و رغبت قبول کر لیا ۔ورنہ پاکستان میں سری لنکن کھلاڑیوں پر حملوں اور ممبئی بم دھماکوں نے ہند ۔ پاک کرکٹ تعلقات کا تو جنازہ ہی نکال دیا تھا۔ ایک طرف جہاں تمام ملکوں نے گویا پاکستان کا بائیکاٹ کر ڈالا ، وہیں بھارتی سیاست دانوں کی یہ ضد اپنی جگہ قائم رہی کہ جب تک سیاسی تعلقات استوارنہیں ہوجاتے وہ بھارت اور پاکستان کو کرکٹ کھیلنے نہیں دیں گے۔نتیجتاً بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلی جانے والی سیریز نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں میں معطل کر دی گئی بلکہ کسی تیسرے ملک میں بھی کھیلنے پربھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔

اس صورتحال میں مجھے اکثر ہند ۔پاک کرکٹ تعلقات پر غالب کا یہ شعر یاد آتا تھا"واں وہ غرور عز و ناز، یاں یہ حجاب پاس وضع - راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں"لیکن تعریف کرنا ہوگی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین ذکا ءاشرف کی کہ جن کی کوششیں رنگ لائیں اور بالآخر 5 برسوں کا طویل انتظار ختم ہوا۔

سال 2007کے اختتامی ایام میں پاکستان کے دورۂ بھارت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ سیریز منعقد نہیں ہوئی۔اس سیریز کے بعد سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے کرکٹ کے دیوانوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ وہ بھارت۔ پاک کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے ہر بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں"اتفاقی معرکے" کی تمنا کرتے رہیں۔شائقین کی یہ تمنا عالمی کپ 2011کے سیمی فائنل اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں ہونے والے عظیم ترین معرکوں کی شکل میں پوری تو ہوئی لیکن اس سے اس پیاس کی سیرابی کہاں ممکن تھی جو دونوں ملکوں کی سیاسی آگ نے لگا رکھی تھی۔

اس پیاس کی شدت کا اندازہ بنگلور میں کھیلے گئے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ شائقین کا ایک سیلا ب تھا جو اسٹیڈیم میں امنڈ پڑا تھا۔ حالانکہ بھارتی ناظرین گزشتہ چند مہینوں سے مسلسل اپنے میدانوں پر بین الاقوامی میچوں کا نظارہ کر رہے ہیں اور وہاں سے انہیں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی ہی دیکھنا پڑی۔ اس کے باوجود بھارت-پاک مقابلوں نے ان میں زبردست جوش و خروش کر رکھا ہے اور یہ جذبہ و جنون پوری سیریز میں برقرار رہے گا۔

درحقیقت اس جنون کا محرّک فتح و شکست کی شکل میں آنے والے نتائج سے زیادہ وہ امید ہے جو اس سیریز نے دونوں ملکوں کے عوام میں جگا دی ہے۔ یعنی پرانی رقابت کو فراموش کر کے نئی رفاقت کا از سر نو آ غاز۔ سیاسی تلخیوں کو کنارے رکھ کر کرکٹ تعلقات کی باضابطہ استواری کے امکانات اب روشن نظر آ رہے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچوں کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، ضرورت و اہمیت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈ اس سلسلے کو برقرار رکھیں۔بھارتی سیاست داں اگر اپنی اوچھی سیاست اس کھیل سے دور رکھتے ہیں اور پاکستانی حکومت اپنی سر زمین پر امن و امان بنائے رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کم از کم دو سالوں کے وقفہ پر دونوں ممالک ایک دوسرے کا دورہ کریں اور باضابطہ سیریز کھیلی جائے۔ تبھی موجودہ سیریز حقیقت میں کامیاب سمجھی جائے گی، اور یہ دونوں ملکوں کی مشترکہ فتح ہوگی۔