[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 2

14 1,028

کرک نامہ کے قارئین کے سوالات اور ان کے جوابات کے ساتھ شفقت ندیم ایک مرتبہ پھر حاضر ہے۔ گو کہ میرے لیے یہ بات زیادہ پسندیدہ ہوگی کہ قارئین اعدادوشمار اور ریکارڈز کے بارے میں پوچھیں، لیکن ابھی تک اس معاملے پر لوگوں کی بہت زیادہ نظر نہیں ہے۔ غالباً قارئین کرکٹ کے عام قوانین کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔ بہرحال، میں سوالات کے سلسلے کی دوسری قسط حاضر ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ قسط بھی آپ کو پسند آئے گی اور سوالات کرنے والے افراد کی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔

سوال 1: فیلڈنگ کی پابندیوں کا قانون کب عمل میں آیا، اور اس کی وجوہات کیا تھیں۔ شعیب سعید شوبی

جواب: ایک روزہ کرکٹ میں فیلڈنگ کی پابندیوں کا قانون، جسے اب پاور پلے قانون کہا جاتا ہے، 1991-92ء میں لایا گیا تھا جس میں اننگز کے ابتدائی15 اوورز میں صرف 2 فیلڈرز 30 گز کے دائرے سے باہر رکھنا لازمی تھے۔

2005ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے اس قانون میں ترمیم کر دی اور پاور پلے کی تعداد کو بڑھا کر 3 کر دیا۔ اننگز کے پہلے 10 اوورز، اور پھر پانچ پانچ اوور کے دو پاور پلے (ایک بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی مرضی سے اور ایک باؤلنگ کرنے والی ٹیم کی)۔

2008ء سے 2011ء تک اس میں مزید تھوڑی تھوڑی ترامیم کی گئیں، جیسے باؤلنگ/بیٹنگ پاور پلے کو 40 اوورز سے پہلے پہلے مکمل کرنا وغیرہ۔

اکتوبر 2012ء میں اس میں مزید تبدیلی کی گئی، جس میں 3 پاور پلے کے بجائے دوبارہ گھٹا کر دو کر دیے گئے۔ پہلے 10 اوورز بالکل اسی طرح (یعنی 30 گز کے دائرے سے باہر صرف 2 فیلڈرز) اور ایک 5 اوور کا بیٹنگ پاور پلے جس میں 3 فیلڈرز دائرے سے باہر رہیں، جسے 40 ویں اوور سے پہلے مکمل کرنا ضروری ہے۔ بغیر پاور پلے کے باقی اوورز میں 4 سے زیادہ فیلڈر دائرے سے باہر نہیں رہ سکتے۔

سوال 2: کرکٹ میں ایک کھلاڑی کتنے طریقوں سے آؤٹ ہو سکتا ہے؟ کیا ان کے نام بتا سکتے ہیں؟ خرم ابن شبیر

انگلستان کے کیون پیٹرسن ایک مرتبہ باؤنسر پر اپنا ہیلمٹ کھو بیٹھے، جو اڑ کر وکٹوں کو جا لگا اور وہ آؤٹ قرار پائے (تصویر: Getty Images)
انگلستان کے کیون پیٹرسن ایک مرتبہ باؤنسر پر اپنا ہیلمٹ کھو بیٹھے، جو اڑ کر وکٹوں کو جا لگا اور وہ آؤٹ قرار پائے (تصویر: Getty Images)

جواب: کرکٹ میں 10 مختلف طریقوں سے بیٹسمین کو آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ جو تفصیل کے متقاضی ہیں، ان کی تھوڑا سا خلاصہ بھی بتا رہا ہوں۔

1- کیچ آؤٹ

2- کلین بولڈ

3- ایل بی ڈبلیو

4- رن آؤٹ

5- اسٹمپڈ

6- ہٹ وکٹ : جب بیٹسمین کا بلّا یا اس کا جسم وکٹ یا بیلز کو لگ جائے اور بیلز اپنی پوزیشن پر نہ رہیں، یعنی نیچے گر جائیں تو بیٹسمین آؤٹ ہو جاتا ہے۔

7۔ ہینڈلڈ دی بال: جب بیٹسمین فیلڈنگ سائیڈ کی منظوری کے بغیر گیند ہاتھ سے پکڑ لے تو وہ آؤٹ ہو جاتا ہے۔ ایسا فرسٹ کلاس کرکٹ میں 56 مرتبہ ہو چکا ہے۔ پہلی بار انگلستان کے گراہم گوچ 1993ء میں آسٹریلیا کے خلاف اس طرح آؤٹ ہوئےجبکہ آخری بار جنوبی افریقہ کے شہر بلوم فاؤنٹین میں 2007-08ء میں فری اسٹیٹ بمقابلہ لمپوپو کے درمیان مقابلے میں ایل این موسینائی ہینڈلڈ دی بال آؤٹ کہلائے۔

8- آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ: جب بیٹسمین فیلڈر کے راستے میں رکاوٹ بن جائے، تو وہ آؤٹ کہلاتا ہے۔ ایسا فرسٹ کلاس کرکٹ میں 23 مرتبہ ہو چکا ہے۔ آخری مرتبہ کینیڈا کے زوبین سرکاری 2011ء میں افغانستان کے خلاف میچ کے دوران آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ آؤٹ کہلائے تھے۔

9- ہٹ دی بال ٹوائس: اگر بلے باز گیند کو دو مرتبہ ہٹ کرے تو بھی وہ آؤٹ ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر گیند ایک بار ہٹ کرنے کے بعد وکٹوں کی جانب جا رہی ہو تو اسے دوسری ہٹ سے روکنے سے وہ آؤٹ نہیں ہوگا۔ یعنی شاٹ کھیلنے کے بعد گیند وکٹوں کی طرف جا رہی ہو تو اسے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک انٹرنیشنل میچز میں اس طرح سے کوئی کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوا۔ جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 21 ایسے مواقع پیش آ چکے ہیں۔ آخری مرتبہ 2005-06ء میں جموں و کشمیر اور بہار کے درمیان کھیلے گئے میچ میں دھیرو مہاجن اس طرح آؤٹ ہوئے تھے۔

10- ٹائم آؤٹ: ایک بیٹسمین کے آؤٹ ہونے کے بعد اگلے بیٹسمین کا 3 منٹ کے اندر گارڈ لینا ضروری ہوتا ہے۔ آکر اس سے زیادہ تاخیر کی تو اسے ٹائم آؤٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا فرسٹ کلاس میں 4 مرتبہ ہو چکا ہے۔ آخری مرتبہ 2003ء میں ناٹنگھم شائر اور ڈرہم کے درمیان ہونے والے میچ میں اے جے ہیرس ٹائم آؤٹ ہو چکے ہیں۔

سوال 3: ٹیسٹ اور ایک روزہ میں پاکستان کی طرف سے کس بلے باز نے جیتے ہوئے مقابلوں میں سب سے زیادہ سنچریاں بنائی ہیں؟ اور پاکستان نے جیتے ہوئے میچز میں کس میدان پر سب سے زیادہ سنچریاں کی ہیں؟ ساجد الرحمٰن

جواب:پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ میں 126 سنچریاں کامیاب مقابلوں میں بنائی گئیں۔ انضمام الحق نے سب سے زیادہ 17 مرتبہ جیتنے والے میچز میں سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ اس کےبعد جاوید میانداد کا نمبر آتا ہے جن کی فتح گر سنچریوں کی تعداد 10 ہے۔یونس خان نے 9 اور محمد یوسف اور سعید انور نے ایسی 8،8 سنچریاں بنا رکھی ہیں۔

ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان نے جیتنے والے میچز میں 128 سنچریاں بنائی ہیں۔سعیدانور کی سب سے زیادہ 16 سنچریاں ہیں، محمد یوسف نے 14 اور اعجاز احمد اور رمیز راجہ نے 8، 8 سنچریاں بنائی ہیں۔

پاکستان نے نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں جیتے ہوئے ٹیسٹ میچز میں 23 سنچریاں بنائی ہیں، جبکہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایسی سنچریوں کی تعداد 17 ہے۔ اسی طرح ایک روزہ میں جیتےگئے مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شارجہ اسٹیڈیم میں سب سے زیادہ یعنی 25 سنچریاں ہیں اور قذافی اسٹیڈیم میں 10 ایسی سنچریاں بنائی گئی ہیں۔

سوال 4: ڈک ورتھ لوئس طریق کار کیا ہے؟ اور یہ کیسے اور کس نے بنایا؟ محمد بلال خان

جواب: کرکٹ کا کھیل کھلے آسمان تلے میدانوں میں کھیلا جاتا ہے۔ ایسے میں کئی مقابلے بارش کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ٹیسٹ میں تو پھر بھی کافی دن ہوتے ہیں، اگر ایک دن بارش ہو بھی جائے تو باقی دنوں میں کرکٹ کھیلی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک روزہ میں اس کا کوئی حل نکالنا ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں چند اعلیٰ تعلیم یافتہ حساب دان اور انجینئرز سر جوڑ کر بیٹھے اور بہرحال انہوں نے 1992ء کے عالمی کپ کے لیے بیسٹ-اسکورنگ اوورز میتھڈ بنایا، جس میں بے شمار خامیاں تھیں، خاص طور پر جب انگلستان و جنوبی افریقہ کے درمیان عالمی کپ سیمی فائنل میں سڈنی میں بارش ہو گئی تو جنوبی افریقہ کا 13 گیندوں پر 22 رنز کا ہدف نظرثانی کر کے ایک گیند پر 22 رنز کر دیا گیا۔ اس ناانصافی کے ساتھ اس طریق کار کی خامی کھل کر سامنے آ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی کپ کے بعد انگلستان کے ماہر شماریات فرینک کارٹر ڈک ورتھ اور ریاضی دان ٹونی لوئس نے اس کا حل نکالا، جسے دونوں سے موسوم کر کے ڈک ورتھ-لوئس طریق کار کا نام دیا گیا۔

1996-97ء میں انگلستان کے دورۂ زمبابوے میں اس قانون کو پہلی بار باضابطہ طور پر استعمال کیا گیا۔ ہرارے اسپورٹس کلب میں یکم جنوری 1997ء کو سیریز کے پہلے میچ میں ڈی/ایل طریق کار کا استعمال ہوا اور انگلستان کو 42 اوورز میں 186 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف ملا۔ انگلستان مذکورہ اوورز میں 7 وکٹوں پر 179 رنز ہی بنا پایا اور یوں زمبابوے نے مقابلہ 7 رنز سے جیت لیا۔ بر سبیل تذکرہ اس سیریز میں زمبابوے نے اگلے دونوں میچز بھی جیتے اور انگلستان کے خلاف کلین سویپ کیا۔

بہرحال، بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 2000-01ء میں ڈک ورتھ-لوئس طریق کار کو باضابطہ طور پر آئی سی سی کے معیارات کا حصہ بنایا اور یہ طریقہ اس وقت سے اب تک استعمال ہوتا آ رہاہے۔

یہ طریقہ کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں کرک نامہ کی یہ خصوصی تحریر دیکھئے۔