[یاد ماضی] کولکتہ سے وابستہ پاکستان کی یادیں

3 1,201

بھارت کے میدانوں میں کولکتہ کے ایڈن گارڈنز کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ کسی زمانے میں ایک لاکھ تماشائیوں کی گنجائش کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم تھا لیکن اب تعمیر نو کے بعد گنجائش توکچھ کم ضرور ہوئی ہے لیکن یہاں کے تماشائیوں کی حب الوطنی اور جوش بالکل کم نہیں ہوا۔ جب ایک لاکھ کے قریب تماشائی میدان میں بھارت کے حق میں نعرے لگاتے تھے تو بڑے بڑے حریفوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا اور بقول شعیب اختر، مقابلہ 11 حریف کھلاڑیوں سے نہیں بلکہ ایک لاکھ 11 لوگوں سے ہوتا تھا۔

یہی وہ میدان ہے جہاں کل یعنی جمعرات کو پاکستان روایتی حریف بھارت کے خلاف اپنا دوسرا ایک روزہ کھیلے گا۔ایڈن گارڈنز سے پاکستان کی بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں جیسا کہ 1999ء کا کولکتہ ٹیسٹ جہاں شعیب اختر نے پہلی ہی گیند پر سچن تنڈولکر کو بولڈ کر کے تہلکہ مچایا تھا۔

لیکن کیونکہ پاکستان نے یہاں ایک روزہ مقابلہ کھیلنا ہے، اس لیے ہم بھی اپنی تحریر کو ایک روزہ مقابلوں تک ہی محدود رکھیں گے اور اس میں میزبان ٹیم کے لیے بری خبر یہ ہے کہ پاکستان اس میدان پر تین مرتبہ بھارت کے مدمقابل آیا اور تینوں ہی مرتبہ فتح نے اُس کے قدم چومے ہیں اور سیریز میں 1-0 کے خسارے کے بعد ماضی کا یہ ریکارڈ بھارت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔

ایڈن گارڈنز پر پہلا پاک-بھارت ایک روزہ مقابلہ 18 فروری 1987ء کو کھیلا گیا جس میں بھارت نے کرش سری کانت کی سنچری کی بدولت 238 رنز کا بڑا مجموعہ حاصل کیا لیکن جواب میں سلیم ملک کی 72 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد دو وکٹوں سے جتوا دیا۔ یوں نہ صرف سری کانت کی سنچری اکارت گئی بلکہ روی شاستری کی 38 رنز دے کر چار وکٹیں بھی ضایع ہو گئیں، جنہوں نے پے در پے رمیز راجہ، یونس احمد، عبد القادر اور منظور الٰہی کی وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کے لیے سخت مشکلات پیدا کر دی تھیں لیکن پھر بھی وہ پاکستان کو جیتنے سے نہ روک سکے۔

بہرحال، دونوں حریف ڈھائی سال کے عرصے کے بعد 28 اکتوبر 1989ء کو ایک مرتبہ پھر کولکتہ میں آمنے سامنے ہوئے اور اس مرتبہ سلسلہ نہرو کپ کا تھا۔ جس میں پاکستان نے رمیز راجہ کے 77، عامر ملک کے 51 اور کپتان عمران خان کے ناقابل شکست 47 رنز کی بدولت 279 رنز کا بھاری مجموعہ بنایا، جو اس زمانے میں بہت بڑا ہدف سمجھا جاتا تھا۔

جواب میں 120 رنز کی اوپننگ شراکت داری ملنے کے باوجود بھارت مشتاق احمد، وسیم اکرم اور دیگر پاکستانی باؤلرز کے تابڑتوڑ حملوں کی تاب نہ لا سکا اور 202 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ عمران خان نے اس مقابلے میں سرے سےباؤلنگ ہی نہیں کروائی اور تمام تر بوجھ وسیم اکرم، عاقب جاوید، مشتاق احمد، عبد القادر اور اکرم رضا کے کاندھوں نے سنبھالا تھا۔ویسے یہی وہ سیریز تھی جس کے فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف وسیم اکرم نے چھکا لگا کر پاکستان کو  جتوایا تھا۔

یونس خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ اپنے تجربے کو بروئے کار لائيں۔ وہ یہاں کھیلے گئے دو ٹیسٹ مقابلوں میں سنچریاں بنا چکے ہیں البتہ ایک روزہ میں صفر پر آؤٹ ہوئے (تصویر: BCCI)
یونس خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ اپنے تجربے کو بروئے کار لائيں۔ وہ یہاں کھیلے گئے دو ٹیسٹ مقابلوں میں سنچریاں بنا چکے ہیں البتہ ایک روزہ میں صفر پر آؤٹ ہوئے (تصویر: BCCI)

کولکتہ میں پاکستان کا آخری ایک روزہ مقابلہ نومبر 2004ء میں ہوا جب پاکستان نے سلمان بٹ کی ناقابل شکست سنچری اننگز اور شعیب ملک اور انضمام الحق کی شاندار بلے بازی کی بدولت 293 رنز کا ہدف محض 4 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا تھا۔

بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے وریندر سہواگ کے 53، وی وی ایس لکشمن کے 43، کپتان سارو گانگلی کے 48 اور آخری لمحات میں یووراج سنگھ کے شاندار 78 رنز کی بدولت 292 رنز بنائے لیکن بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ کے باعث اس مجموعے کا دفاع کرنا آسان نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونس خان کے صفر پر آؤٹ ہونے کے باوجود پاکستان کو ایک دو اچھی شراکت داریاں فتح سے ہمکنار کر گئیں۔ شعیب ملک اور سلمان بٹ کے درمیان دوسری وکٹ پر 113 رنز کی رفاقت قائم ہوئی ۔

جبکہ آخری لمحات میں انضمام الحق نے سلمان بٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو فتح کے کنارے تک پہنچایا اور جس وقت کپتان آؤٹ ہوئے تب پاکستان کو جیت کے لیے صرف 9 رنز کی ضرورت تھی۔ انضمام نے 75 گیندوں پر ایک چھکے اور 5 چوکوں کی مدد سے 75 رنز بنائے۔ جبکہ سلمان بٹ 130 گیندوں پر محیط 13 چوکوں سے مزین تھی، جس میں انہوں نے ناقابل شکست 108 رنز بنائے۔

یہ میچ دراصل بھارتی کرکٹ بورڈ کی پلاٹینم جوبلی کے سلسلے میں کھیلا گیا واحد ایک روزہ مقابلہ تھا۔ پاکستان نے اس مقابلے کے چند ماہ بعد بھارت کا تاریخی دورہ بھی کیا تھا جس میں کامران اکمل اور عبد الرزاق کی شاندار بلے بازی نے پاکستان کو موہالی میں شکست کے دہانے سے میچ بچایا تھا اور بعد ازاں 1-0 سے خسارے میں جانے کے باوجود بنگلور میں فتح سمیٹتے ہوئے نہ صرف ٹیسٹ سیریز برابر کی بلکہ بعد ازاں 4-2 سے ایک روزہ سیریز بھی جیتی۔ بلاشبہ یہ انضمام الحق کی قیادت میں پاکستان کا نقطہ عروج تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مصباح الحق انضمام الحق کی کارکردگی دہرا پائیں گے؟ وہ بھی اس حال میں کولکتہ کے میدان پر اتر رہے ہیں کہ پاکستان کو سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل ہے اور ایڈن گارڈنز میں فتح اس کی سیریز جیت پر مہر ثبت کر دے گی۔

ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی شدید خواہش ہوگی کہ وہ سیریز کے نتیجے کو آخری مقابلے تک کے لیے نہ لٹکائیں، بلکہ فیصلہ کولکتہ ہی میں کر دیں۔