آل راؤنڈ انگلینڈ، بھارت آؤٹ کلاس ہو گیا!

0 1,036

پاکستان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد بھارتی باؤلرز کی کمزوری ایک مرتبہ پھر بری طرح عیاں ہو گئی، جب راجکوٹ کے نئے نویلے اسٹیڈیم میں انگلش بلے بازوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور 50 اوورز میں محض 4 وکٹوں پر 325 رنز کا پہاڑ جیسا مجموعہ اکٹھا کر ڈالا اور پھر بھارت کو 316 رنز پر محدود کر کے مقابلہ 9 رنز سے جیت لیا۔

سمیت پٹیل کی طوفانی بلے بازی کی بدولت انگلستان نے آخری دو اوورز میں 38 رنز لوٹے (تصویر: BCCI)
سمیت پٹیل کی طوفانی بلے بازی کی بدولت انگلستان نے آخری دو اوورز میں 38 رنز لوٹے (تصویر: BCCI)

انگلستان کی فتح میں کلیدی کردار ایلسٹر کک اور این بیل کے درمیان پہلی وکٹ پر 158 رنز کی شراکت، سمیت پٹیل کی 20 گیندوں پر44 رنز کی آخری ضرب اور پھر گریم سوان کی جگہ کھیلنے والے جیمز ٹریڈویل کی شاندار باؤلنگ نے ادا کیا۔

یوں انگلستان، جو سال 2011ء بھارت میں تمام پانچ ایک روزہ مقابلے ہار کر شرمناک شکست سے دوچار ہوا تھا، اس بار 'مرے ہوئے کو سو درّے'مارنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس فتح کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ انگلستان بھارت میں گزشتہ 18 ایک روزہ مقابلوں میں سے 16 میں شکست سے دوچار ہوا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی سرزمین پر انگلستان کس بری طرح ناکام ہوتا رہا ہے۔

انگلستان نے پہلے جان لیا تھا کہ وکٹ "بلے بازوں کی جنت" ہے اور ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ ہی کا فیصلہ کیا۔ کپتان ایلسٹر کک اور ان فارم این بیل پر مشتمل اوپننگ جوڑی نے جلد ہی اس فیصلے کو درست بھی ثابت کر دکھایا۔ دونوں نے بھارتی باؤلرز کو قابل رحم حال پر پہنچا دیا، جو 28 ویں اوور تک وکٹ سے محروم رہے۔ انگلستان کا اسکور جب 158 رنز پر پہنچا تو بھارت کو پہلی وکٹ ملی، وہ بھی رن آؤٹ کی صورت میں۔ اجنکیا راہانے کی براہ راست تھرو پر رن لینے کی کوشش میں دوڑنے والے این بیل کے کریز میں پہنچنے سے پہلے ہی وکٹیں اکھاڑ گئی۔ اگر بیل جست لگاتے تو شاید پہنچ جاتے، لیکن ناکامی انفرادی اننگز کو 85 رنز پر ہی ختم کر گئی۔ 96 گیندوں پر مشتمل اس اننگز میں ایک چھکا اور 9 چوکے شامل تھے۔ این بیل کو 15 رنز پر اس وقت زندگی بھی ملی تھی، جب بھوونیشور کمار کی گیند ان کے بلے کا کنارہ لیتی ہوئی وکٹوں کے پیچھے مہندر سنگھ دھونی اور روی چندر آشون کے درمیان سے ہوتی ہوئی نکل گئی اور کسی نے بھی اس کو تھامنے کی کوشش نہ کی۔ دوسرے اینڈ پر کک بھی پھر زیادہ دیر کھڑے نہ رہ سکے اور 75 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے کے بعد پارٹ ٹائم باؤلر سریش رینا کی وکٹ بن گئے۔ انہوں نے 83 گیندیں کھیلیں اور ایک چھکے اور 8 چوکوں کی مدد سے اک خوبصورت اننگز تراشی۔

اس کے بعد انگلش بلے باز رکے نہیں، تھمے نہیں۔ انہوں نے اوپنرز کی رکھی گئی بنیاد پر اسکور کی عمارت تندہی سے بنانا شروع کی۔ کیون پیٹرسن کے 44 اور ایون مورگن کے 41 رنز نے انگلستان کو اس مقا م پر پہنچادیا کہ وہ با آسانی 300 رنز کا مجموعہ عبور کر سکتا تھا۔ پے در پے دونوں کی وکٹیں گرنے سے ایسا ہونا مشکل نظر آنے لگا تو سمیت پٹیل اپنا جادو دکھا گئے۔ محض 20 گیندوں پر 44 رنز بنا کر انہوں نے انگلستان کا اسکور صرف 4 وکٹوں پر 325 پر جا پہنچایا۔ انگلستان نے آخری دو اوورز میں 38 رنز بنائے، جس میں ایشانت شرما کی جانب سے کرائے گئے آخری اوور میں بننے والے 20 رنز بھی شامل تھے۔

ایشانت شرما بدترین باؤلر رہے، جنہوں نے 86 رنز کھائے اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس میں دو میڈن اوورز بھی شامل تھے۔ یوں وہ تاریخ کے محض دوسرے باؤلر بنے، جنہوں نے دو میڈن اوور پھینکنے کے باوجود 80 سے زائد رنز کھائے۔ ان سے قبل یہ "کارنامہ" ویسٹ انڈیز کے ڈیوین براوو نے 2004ء میں انگلستان ہی کے خلاف انجام دیا تھا۔ دوسری جانب اشوک ڈنڈا کو گو کہ دو وکٹیں حاصل ہوئیں، لیکن ان کے 8 اوورز میں 53 رنز بھی لوٹے گئے۔ پاکستان کے خلاف شاندار ڈیبو کرنے والے بھوونیشور کمار بھی ناکام رہے، انہوں نے 7 اوورز میں 52 رنز دیے۔ صرف سریش رینا کو کامیاب باؤلر کہا جا سکتا ہے جنہوں نے 5 اوورز میں محض 18 رنز دیے اور کک کی قیمتی ترین وکٹ حاصل کی۔

بھارت نے ہدف کے تعاقب کی شروعات تو اچھے انداز میں کی، جب اوپنرز اجنکیا راہانے اور گوتم گمبھیر نے 17 ویں اوور تک اسکور بورڈ پر 96 رنز جمع کر لیے۔ لیکن بھارت کو پہلا دھچکا ٹریڈویل کے ہاتھوں پے در پے راہانے اور گمبھیر کی وکٹیں گرنے اور پھر ویراٹ کوہلی کے آؤٹ ہونے سے پہنچا۔ راہانے 57 گیندوں پر 47، گمبھیر 52 گیندوں پر 52 اور کوہلی 22 گیندوں پر 15 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔

اس موقع پر یووراج سنگھ اور سریش رینا نے برق رفتاری سے 60 رنز کا اضافہ کیا اور بھارت کی امیدوں کے چراغ ایک مرتبہ پھر روشن کر دیا۔ اگر یووراج آؤٹ نہ ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ بھارت کی فتح کی بنیاد رکھ جاتے لیکن ٹریڈویل نے ان کی وکٹ حاصل کر کے تمام تر دباؤ دھونی کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ یووراج نے خاص طور پر بہت عمدہ اننگز کھیلی اور اپنے ناقدین کو خاموش کیا، جو پاکستان کے خلاف، سوائے ایک ٹی ٹوئنٹی کے، ان کی بجھی بجھی کارکردگی پر انگلی اٹھا رہے تھے۔ یووراج نے 45 گیندوں پر ایک چوکے اور 8 چوکوں کی مدد سے 61 رنز بنائے اور ٹریڈویل کی تیسری وکٹ بنے۔ ٹریڈویل نے اس وقت بھارت کو سخت دھچکا پہنچایا جب 42 ویں اوور میں رینا کو آؤٹ کر دیا جب وہ اپنی نصف سنچری پرپہنچے ہی تھے۔ اسکور بورڈ پر 243 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا اور اس نازک ترین موقع پر رینا کا آؤٹ ہونا بھارت کے لیے سخت نقصان کا باعث بنا۔ گو کہ کچھ ہی دیر قبل تیسرے امپائر نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے رینا کو بچا لیا تھا، جن کا کیچ ٹم بریسنن نے تھام لیا تھا، لیکن یہ موقع ملنے کے باوجود وہ بھارت کو زیادہ آگے نہ لے جا سکے اور 49 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 50 رنز بنا کر پویلین سدھار گئے۔

اب دھونی کو ایک مرتبہ پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور اننگز کا سب سے 45 واں اوور میزبانوں کے لیے بہت مایوس کن ثابت ہوا۔ اب تک مکمل طور پر حریف بلے بازوں کے رحم و کرم پر نظر آنے والے جیڈ ڈرنباخ نے پہلے مہندر سنگھ دھونی اور پھر رویندر جدیجا کو آؤٹ کر کے بھارت کی ہدف کی جانب پیش قدمی کے تمام امکانات کا خاتمہ کر دیا۔

دھونی 25 گیندوں پر 4 چھکوں کی مدد سے 32 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ جدیجا نے 7 رنز بنائے۔ اس کے بعد بھارت 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 316 تک ہی پہنچ پایا۔ یوں انگلستان کو سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل ہو گئی۔

بلاشبہ انگلش باؤلنگ کے ہیرو جیمز ٹریڈویل تھے، جنہوں نے چاروں قیمتی ترین وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو، دو وکٹیں ٹم بریسنن اور جیڈ ڈرنباخ کو ملیں۔ ایک وکٹ اسٹیون فن نے بھی حاصل کی۔

جیمز ٹریڈویل کو شاندار باؤلنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا، جنہوں نے انگلستان کو گریم سوان کی کمی محسوس تک نہ ہونے دی۔

اب دونوں ٹیمیں 15 جنوری کو کوچی میں دوسرے مقابلے میں آمنے سامنے ہوں گی۔