[یاد ماضی] جنوبی افریقہ کی پاکستان پر یادگار فتح

3 1,062

پاکستان و جنوبی افریقہ کے درمیان آج تک 18 ٹیسٹ میچز کھیلے جا چکے ہیں، جن میں سے جنوبی افریقہ نے 8 میچز میں فتوحات حاصل کیں جبکہ پاکستان صرف تین مقابلے جیت پایا۔ جن مقابلوں میں پاکستان نے شکست کھائی اُن میں سے ایک مقابلہ ایسا بھی ہے جہاں اسے ناقابل یقین طور پر اپنے ہی میدانوں میں اور انتہائی سازگار حالات میں زہر کا یہ گھونٹ پینا پڑا۔

سنہ 1997ء میں جنوبی افریقہ کا دورۂ پاکستان دو ٹیسٹ میچز کے بعد صفر-صفر سے برابر تھا اور دونوں ٹیمیں تیسرا و آخری مقابلہ کھیلنے کے لیے فیصل آباد پہنچیں۔ جی ہاں، اقبال اسٹیڈیم کی وہ پچ جو بلے بازوں کی جنت کہلاتی ہے بلکہ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں، پر ایک اعصاب شکن معرکہ ہوا۔ لیکن فیصل آباد میں ایسا کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر حال میں میچ کا نتیجہ چاہتا تھا تاکہ سیریز برابری کی بنیاد پر ختم نہ ہو اس لیے کیوریٹر کو ہدایت کی گئی کہ پچ پر موجود گھاس کو مکمل طور پر نہ کاٹا جائے اور یوں دوسروں کے لیے کھودا گیا گڑھا اپنے ہی گرنے کا سبب بن گیا۔

پیٹ سمکوکس باؤلنگ کے بجائے دونوں اننگز میں اپنی شاندار بلے بازی کے باعث میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: Getty Images)
پیٹ سمکوکس باؤلنگ کے بجائے دونوں اننگز میں اپنی شاندار بلے بازی کے باعث میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: Getty Images)

جنوبی افریقہ نے ٹاس جیتا اور بلاجھجک پہلے بلے بازی کا ارادہ کیا لیکن پاکستان نے وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت فیصلے کو غلط ثابت کر دکھایا۔ جنوبی افریقہ کی اننگز تہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچی تھی جب کھانے کے وقفے تک اس کی 7 وکٹیں گر چکی تھیں۔ گیری کرسٹن ایک اینڈ سے کھڑے دیکھتے ہی رہ گئے اور دوسرے اینڈ سے ایڈم باقر، برائن میک ملن، ڈیرل کلینن، ہنسی کرونیے، شان پولاک، ڈیو رچرڈسن اور لانس کلوزنر سب کے سب اپنی وکٹیں دے کر چلتے بنے۔ یعنی بلے باز تو درکنار کوئی آل راؤنڈر بھی کرسٹن کا ساتھ دینے کو نہ بچا جبکہ اسکور بورڈ پر محض 98 رنز موجود تھے۔

ایسی صورتحال میں پاکستان کی ابتدائی وکٹیں حاصل کر کے 'ٹھنڈے' پڑجانے کی عادت نے اسے بہت نقصان پہنچایا۔ گیری کرسٹن کو پیٹ سمکوکس کی صورت میں ایک ساتھی میسر آ گیا اور دونوں آٹھویں وکٹ پر 124 رنز کی شراکت داری قائم کر کے جنوبی افریقہ کو مقابلے میں واپس لے آئے۔

مزیدار بات یہ ہے کہ جب دونوں کھلاڑیوں کے درمیان رفاقت 94 رنز کا اضافہ کر چکی تھی تو مشتاق احمد کی ایک گگلی پیٹ سمکوکس کی آف اور مڈل اسٹمپ کے درمیان سے نکل گئی، جی، درمیان سے۔ یعنی دونوں اسٹمپس کے درمیان اتنا فاصلہ موجود تھا کہ گیند ان کے بیچ سے باآسانی گزر گئی، اور بیلز بھی نہیں گریں اور کرکٹ قواعد کے مطابق بیلز کا گرنا ضروری ہے اس لیے سمکوکس بچ گئے اور انہیں اپنی قسمت پر نازاں ہونا چاہیے۔ (اسے آپ تحریر کے آخر میں دی گئی ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں)۔

بہرحال، اس شراکت داری کا خاتمہ اس وقت ہوا جب جنوبی افریقہ ڈبل نیلسن یعنی 222 رنز کے پرسکون پڑاؤ پر پہنچ چکا تھا۔ سمکوکس شاندار 81 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، وہ بھی صرف 94 گیندوں پر 2 چھکوں اور 10 چوکوں کے ساتھ۔ گیری کرسٹن نے اس موقع پر 208 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کی اور جنوبی افریقہ کی اننگز 239 رنز پر تمام ہوئی جو ابتدائی حالات کو دیکھتے ہوئے کہیں اچھا اسکور تھا۔ گیری کرسٹن 90ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ کی عالمی کرکٹ میں واپسی کے بعد 'بیٹ کیری' کرنے والے پہلے جنوبی افریقی بلے باز بنے۔ پاکستان کی جانب سے وسیم اکرم نے 4، مشتاق احمد نے 3، وقار یونس نے 2 اور اظہر محمود نے 1 کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

جواب میں پاکستان کا آغاز ویسا ہی ثابت ہوا جیسا کہ مہمانوں کا تھا۔ ٹاپ آرڈر بلے باز وکٹیں دیتے چلے گئے اور 80 رنز تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کی پانچ وکٹیں گر چکی تھیں۔ اس موقع پر انضمام الحق اور معین خان نے اننگز کو سنبھالا دیا۔ دونوں نے شان پولاک اور ایلن ڈونلڈ سمیت تمام جنوبی افریقی باؤلرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان کو گمبھیر صورتحال سے باہر نکالا۔ 144 رنز کی رفاقت میں انضمام کا حصہ 96 رنز کا تھا اور بدقسمتی سے وہ اپنی سنچری مکمل نہ کر پائے۔ دوسرے اینڈ سے معین خان بھی اس اعزاز سے محروم رہے اور 80 رنز بنا سکے۔ دونوں ہنسی کرونیے کے ایک ہی اسپیل میں اپنی وکٹیں گنوا گئے اور پاکستان کی اننگز آخری لمحات میں زخمی عامر سہیل کے 38 اور وقار یونس کے برق رفتار 34 رنز کی بدولت 308 تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی یعنی 69 رنز کی برتری۔

جنوبی افریقہ نے خسارے کے ساتھ دوسری اننگز کا آغاز کیا اور اور ایک مرتبہ پھر اسے پاکستانی باؤلرز نے سخت امتحان میں ڈال دیا۔ ایک اینڈ سے مشتاق احمد اور دوسرے سے وقار یونس ۔ ان دونوں نے 4 وکٹیں تو 100 تک پہنچنے سے پہلے ہی حاصل کر لیں لیکن نائٹ واچ مین سمکوکس نے ایک مرتبہ پھر 55 رنز کی زبردست اننگز کھیلی جو اننگز میں کسی بھی جنوبی افریقی بلے باز کی سب سے اچھی اننگز تھی۔ البتہ 140 پر ان کے آؤٹ ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر وکٹیں گرنے کی رفتار تیز ہوگئی اور بالآخر 214 رنز پر تمام کھلاڑی آؤٹ ہو گئے اور پاکستان کو جیت کے لیے محض 146 رنز کا ہدف ملا، جو چنداں مشکل نہ تھا۔

پاکستان کی جانب سے مشتاق احمد نے 4، ثقلین مشتاق نے 3، وقار یونس نے 2 اور وسیم اکرم نے ایک وکٹ حاصل کی۔

146 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے ارادے نیک نہ لگتے تھے۔ سب سے پہلے 23 کے مجموعے پر عامر سہیل ایلن ڈونلڈ کو لگاتار دو چوکے لگانے کے بعد ایک انتہائی ناقص شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے اور پھر 'تو چل میں آیا' شروع ہو گیا۔ شان پولاک کے سامنے سعید انور، اعجاز احمد، علی نقوی اور انضمام الحق اپنی وکٹیں دے گئے، پولاک کی صرف 7 گیندیں میچ کا فیصلہ کر گئیں۔ 31 رنز چار کھلاڑی آؤٹ کا اسکور بورڈ بھیانک ضرور تھا لیکن اس مقام پر بھی صرف ایک شراکت پاکستان کو جتوا سکتی تھی، لیکن بجائے احساس ذمہ داری کے غیر ضروری جارحانہ پن اور شاٹس کے ناقص انتخاب نے پاکستان کی یقینی جیت کو ہار میں بدل دیا۔ پاکستان کی دوسری اننگز صرف 92 رنز پر تمام ہوئی اور جنوبی افریقہ نے 53 رنز سے مقابلہ جیت کر ایک تاریخی سیریز اپنے نام کی۔

پیٹ سمکوکس باؤلنگ کے بجائے بلے بازی پر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ گیری کرسٹن سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ویسے سمکوکس کی "پاکستان دشمنی" یہیں ختم نہیں ہوئی تھی 🙂 بعد ازاں انہوں نے فروری 1998ء میں جوہانسبرگ میں پاکستان کے خلاف سنچری بھی بنائي تھی، وہ بھی نمبر 10 بلے باز کی حیثیت سے۔ انہوں نے مارک باؤچر کے ساتھ نویں وکٹ پر 195 رنز کی شراکت قائم کر کے مقابلہ جنوبی افریقہ کی گرفت سے نکلنے سے بچایا۔

یہ تو ہو گیا پاکستان کی ایک شکست کا احوال، کل ہم کریں گے جنوبی افریقہ پر پاکستان کی ایک تاریخی فتح کا ذکر، امید کرتے ہیں کہ وہ زیادہ پسند آئے گا 🙂

اور ہاں! جاتے جاتے اس یادگار مقابلے کی جھلکیاں تو دیکھتے جائیے: