[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 5

6 1,216

سوال: ابھی پاک-جنوبی افریقہ پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی اننگز بہت ہی لو اسکورنگ رہی، اس اننگز میں بننے والے 49 اسکورز میں 8 چوکے اور 4 ایکسٹراز شامل تھے۔ اور باقی کے 13 رنز دوڑ کے بنائے گئے ۔ ایسا کونسا میچ ہے جس میں دوڑ کر بنایا جانے والا اسکور سب سے کم ہو؟ رانا محمد عثمان

جواب: آپ نے بہت ہی زبردست پہلو ہی طرف توجہ دلائی ہے، آپ بالکل بجا فرما رہے ہیں کہ 13 رنز دوڑ کر بنائے جانے والے کم ترین رنز ہیں (ٹیم کے آل آؤٹ ہونے کی صورت میں)۔ اس طرح کے ریکارڈ جانچنے کی کوئی خاص ایپلی کیشن موجود نہیں لیکن میں نے کافی سارے اسکور کارڈ ایک ایک کر کے چیک کیے ہیں جن میں اس جیسے اسکور کارڈ کی کوئی مثال نہیں۔ فی الحال اس کو ریکارڈ ہی سمجھیں،اگر مجھے مزید کوئی ایسا اسکور کارڈ ملا تو ضرور آپ کے کرک نامہ کے ذریعے آپ کو مطلع کر دوں گا۔

سوال: سچن رمیش ٹنڈولکر کی 100 بین الاقوامی سنچریوں میں سے بھارت کو کتنے میچز میں فتح ملی؟اور کون سا کھلاڑی ایسا ہے جس کی ون ڈے یا ٹیسٹ میں سنچریوں نے اس کی ٹیم کو سب سے زیادہ نفع پہنچایا ہو؟ وقار عظیم

 

سچن تندولکر کی 100 سنچریوں میں سے 53 سنچریاں بھارت کے لیے فتح گر ثابت ہوئیں
سچن تندولکر کی 100 سنچریوں میں سے 53 سنچریاں بھارت کے لیے فتح گر ثابت ہوئیں

جواب: سچن تنڈولکر نے تمام طرز کی بین الاقوامی کرکٹ میں 100 سنچریاں بنا رکھی ہیں جن میں سے 53 سنچریاں ان میچز میں ہیں جن میں فتوحات حاصل ہوئی، 25 ہارے گئے میچز میں، 20 ایسے مقابلوں میں جو کسی نتیجےتک نہیں پہنچے، 1 برابر میں اور ایک بے نتیجہ میں۔

ٹنڈولکر کی آخری فتح گر سنچری آسٹریلیا کے خلاف اکتوبر 2010ء میں بنگلور میں بنائی گئی جب انہوں نے 214 رنز بنائے تھے، ایک روزہ میں ان کی آخری فتح گر سنچری بھی وہ تاریخی ڈبل سنچری اننگز تھی جب انہوں نے فروری 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف گوالیار میں 200 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی تھی۔

مجموعی طور پر تمام طرز کی بین الاقوامی کرکٹ میں رکی پونٹنگ نے سب سے زیادہ فاتحانہ سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ یعنی 52 میچز میں 55 سنچریاں۔

اب ہم الگ الگ طرز کی کرکٹ میں جائزہ لیتے ہیں۔ ٹیسٹ میں آسٹریلوی بلے بازوں کا پلڑا بھاری ہے۔ رکی پونٹنگ کی 30 سنچریاں جیتے ہوئے میچز میں بنائی گئیں(27 ٹیسٹ مقابلوں میں)۔ اسٹیو واہ نے 24 ٹیسٹ میں 25 سنچریاں اور سر ڈان بریڈمین اور میتھیو ہیڈن نے 22 ٹیسٹ مقابلوں میں 23 سنچریاں بنائیں۔ جنوبی افریقہ کے ژاک کیلس نے 20 ٹیسٹ مقابلوں میں 21 سنچریاں اور ٹنڈولکر نے 20 ٹیسٹ میچز میں 20 سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ اس کے بعد تین بیٹسمین ایک ہی پوزیشن پر آتے ہیں۔ انضمام الحق، کمار سنگاکارا اور گریم اسمتھ، جنہوں نے 17، 17 فتح گر سنچریاں بنا رکھی ہیں (17، 17 ٹیسٹ مقابلوں ہی میں)۔

ایک روزہ میں تنڈولکر نے 33 فاتحانہ سنچریاں بنائی ہیں۔ پونٹنگ نے 25، سنتھ جے سوریا نے 24 اور سارو گانگلی نے 18 سنچریاں ان مقابلوں میں بنائیں جن میں ان کی ٹیم کو جیت نصیب ہوئی۔ ایڈم گلکرسٹ، ڈیسمنڈ ہینز، برائن لارا اور سعید انور کی ایک روزہ میں 16، 16 فتح گر سنچریاں ہیں۔

سوال: مجھے یہ جاننا ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں ٹیموں کی رینکنگ کس فارمولے کے تحت کی جاتی ہے، اور ان کے پوائنٹس کا معیار گذشتہ کے کتنے میچوں پر منحصر ہوتا ہے؟ عزیز الرحمٰن شاہ

جواب: عزیز الرحمٰن صاحب، آپ کے اس سوال کا جواب میں اس سلسلے کی تیسری قسط میں دے چکا ہے لیکن ایک بات یہاں شامل کرنا چاہوں گا کہ ٹیسٹ درجہ بندی میں سابقہ 3 سال کا ریکارڈ شامل ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

کیا کرکٹ میدان میں پچ، باؤنڈری، وکٹ اور بیلز کا مخصوص سائز ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا؟ راشد علی

جواب: کرکٹ دنیا کا واحد فیلڈ گیم ہے جس کے گراؤنڈ کی لمبائی/چوڑائی تبدیل ہوتی رہتی ہے اور اس کی باؤنڈری کا قطر 137 سے 150 میٹر تک ہوتا ہے۔ آئی سی سی کے قانون 19.1 کے مطابق پچ کے دونوں سروں سے اسٹریٹ باؤنڈری کا فاصلہ کم از کم 64 میٹر ہونا ضروری ہے اور اسکوائر باؤنڈریز کم از کم 59.43 میٹر ہونی چاہئیں۔ اور پچ کے مرکز سے زیادہ سے زیادہ باؤنڈری 82.29 میٹر تک ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

پچ کی لمبائی مخصوص ہے، جو کہ 22 گز ہے (20.12 میٹر) اور اس کی چوڑائی 10 فٹ (3.05 میٹر) ہو۔

وکٹ کی لمبائی 28 انچ ہونا ضروری ہے (زمین سے باہر کی لمبائی، یعنی اسٹمپ لگانے کے بعد 28 انچ باہر ہونا)، موٹائی کے لیے اسٹمپ کا قطر 3.81 سینٹی میٹر تا 3.49 سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔

بیلز کا جو حصہ لیگ یا آف اسٹمپ پر ہوتا ہے اس کی لمبائی 3.49 سینٹی میٹر ہونی چاہیے، جو مڈل اسٹمپ پر ہوگا اس کی لمبائی 2.06 سینٹی میٹر ہونی چاہیے، اور مرکزی حصہ ہے وہ 5.40 سینٹی میٹر۔ بیلز کی موٹائی اتنی ہو کہ جب ہم اس کو وکٹ کے اوپر رکھیں تو آدھا انچ سے زیادہ وکٹ کے اوپر نہ ہو۔ بیلز کی پیمائش سمجھانے کے لیے یہ تصویر دیکھیں:

cricket-bails

انگلستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ سیریز کو "ایشیز" کیوں کہا جاتا ہے؟ امین صادق

جواب: یہ 1882ء کی بات ہے جب آسٹریلیا کی ٹیم دوسری مرتبہ دورۂ انگلستان پر پہنچی اور اس دورے میں اوول میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے 7 رنز سے فتح حاصل کی، یہ انگلستان میں آسٹریلیا کی پہلی جیت تھی، جس پر انگلستان کے ذرائع ابلاغ نے اپنی ٹیم پر بہت چڑھائی کی اور کام غم و غصے کا اظہار کیا۔ انگلستان کے مشہور اخبار "دی اسپورٹنگ ٹائمز" نے ایک آرٹیکل لکھا کہ "انگلستان کرکٹ فوت ہو گئی ہے، اس کو نذر آتش کر کے اس کی راکھ (Ash) کو آسٹریلیا لے جایا جائے گا" پھر اس کے بعد انگلش میڈیا نے کہا کہ ہم جوابی دورے میں اس راکھ کو آسٹریلیا سے واپس لے آئیں گے۔ 1882-83ء کے دورۂ آسٹریلیا میں انگلستان کو 2-1 سے کامیابی ملی، جس پر ملبورن کی چند لڑکیوں نے انگلش کپتان کو ایک مرتبان پیش کیا جس میں بیلز اور وکٹ کی راکھ بند تھی، اور اس مرتبان سے یہ سیریز ایشیز کے طور پر مشہور ہو گئی۔ تب سے آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان ٹیسٹ سیریز "دی ایشیز" کہلاتی ہے۔ لیکن جو مرتبان اس وقت انگلستان کے کپتان کو دیا گیا تھا وہ میریلبون کرکٹ کلب کے صدر دفاتر یعنی لارڈز کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ 1998ء میں پلاسٹک کا ایک مرتبان بنایا گیا جس کو "دی ایشیز ٹرافی" کا نام دیا گیا، جو جیتنے والی ٹیم کو پیش کیا جاتا ہے۔

ون ڈے کرکٹ میں کسی بھی وکٹ پر سب سے طویل پارٹنر شپ کا ریکارڈ کیا ہے؟ فہیم شاہ

جواب: ایک روزہ تاریخ کی سب سے بڑی شراکت 331 رنز کی ہے جو بھارت کے سچن تنڈولکر اور راہول ڈریوڈ نے 8 نومبر 1999ء کو حیدرآباد (دکن) میں نیوزی لینڈ کے خلاف بنائی تھی۔ ان رفاقت کے دوران دونوں بلے بازوں نے 278 گیندوں کا سامنا کیا جو گیندوں کے حساب سے بھی ایک روزہ تاریخ کی سب سے بڑی شراکت داری ہے۔