ایک بار پھر فیصلہ کن مقابلے میں شکست، جنوبی افریقہ سیریز لے اڑا

2 1,061

پاکستان نے 2002ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا فیصلہ کن مقابلہ جیتا تھا اور اس کے بعد سےان تمام مقابلوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا جب میچ کے نتیجے کا انحصار سیریز پر ہو اورتین مرتبہ تو اسے یہ شکست جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اٹھانی پڑی اور اب چوتھی بار بھی ایسا ہی ہوا۔ بینونی میں پاکستان نے ٹاس بھی جیت لیا لیکن مڈل آرڈر کی ناکامی نے ایک بڑے مجموعے کی جانب سفر کی راہ مسدود کر دی۔ ایک وقت میں جہاں پاکستان کے 97 رنز پر محض دو کھلاڑی آؤٹ تھے ، آنے والی وکٹیں اسکور میں صرف 108 رنز کا اضافہ کر پائیں اور سیریز کے اہم ترین مقابلے میں پاکستان اسکور بورڈ پر صرف 205 رنز اکٹھے کر پایا۔

قسمت ساتھ دے تو فائدہ کیسے اٹھاتے ہیں، یہ سبق آج ڈی ولیئرز نے پاکستانی باؤلرز کو دیا (تصویر: AFP)
قسمت ساتھ دے تو فائدہ کیسے اٹھاتے ہیں، یہ سبق آج ڈی ولیئرز نے پاکستانی باؤلرز کو دیا (تصویر: AFP)

اس کے بعد بھی اگر پاکستان فیلڈنگ میں کچھ بہتری دکھاتا تو سخت مقابلہ ممکن تھا لیکن دن کا سب سے آسان اور سب سے قیمتی کیچ اس وقت چھوڑ دیا جب جنوبی افریقی کپتان ابراہم ڈی ولیئرز صرف 1 رن پر کھیل رہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے بعد ازاں 111 گیندوں پر 95 رنز کی فیصلہ کن و فتح گر اننگز کھیل ڈالی اور جنوبی افریقہ44 ویں اوور میں صرف 4 وکٹوں کے نقصان پر ہدف تک جا پہنچا۔

پاکستان کو مقابلے سے باہر کرنے میں اہم کردار راین میک لارن کے اس اوور نے بھی ادا کیا جس میں سیٹ ہو جانے والے شعیب ملک اور پھر حتمی اوورز کے لیے ضروری سمجھے جانے والے شاہد آفریدی کی وکٹیں گریں۔ یہ اننگز کا 34 واں اور پاور پلے سے عین قبل والا اوور تھا جس نے پاکستانی باری کو پٹری سے اتار دیا اور آخری 6 وکٹیں 14 اوورز میں صرف 54 رنز کا اضافہ کر سکیں، جس میں 25 رنز جنید خان کے تھے جن کی بدولت پاکستان 200 کے ہندسے کو عبور کر پایا۔

پاکستانی اننگز میں دو بلے باز بہت اچھے موڈ میں دکھائی دیے، ایک کامران اکمل اور دوسرے شعیب ملک۔ کامران عین اس وقت آؤٹ ہوئے جب وہ نصف سنچری سے محض دو قدم کے فاصلے پر تھے لیکن اس سنگ میل تک پہنچنے کی جلدی نے انہیں اپنی وکٹ سے محروم کر دیا جبکہ شعیب ملک بہت عمدگی سے جنوبی افریقی باؤلرز کا مقابلہ کر رہے تھے کہ میک لارن کی ایک دھیمی گیند کو نہ سمجھ پائے اور کیچ دے بیٹھے۔ دونوں بلے بازوں نے بالترتیب 48 اور 28 رنز بنائے۔ غالباً اسی اوور کی آخری گیند پر میچ کا فیصلہ ہو گیا، جب شاہد خان آفریدی نے ایک شارٹ گیند کو دیکھتے ہی "سہواگانہ" شاٹ کھیلا اور گیند سیدھا ڈیپ اسکوائر لیگ پر کھڑے کولن انگرام کے ہاتھوں میں گئی، جنہیں ایک انچ ہلنے کی بھی زحمت نہ کرنی پڑی۔ یوں شاہد آفریدی ایک مرتبہ پھر "صفر" کے ساتھ پویلین لوٹے اور یہ "ڈک" اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس کے نتیجے میں وہ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ صفر پر آؤٹ ہونے والے بلے باز بن گئے۔ انہوں نے سابق کپتان وسیم اکرم کا 28 بار صفر پر آؤٹ ہونے کا ریکارڈ توڑا۔ اس حوالے سے مکمل فہرست اس خصوصی تحریر میں دیکھیں۔

شاہد آفریدی نے پاور پلے سے قبل آخری گیند کو دیکھا اور آنکھیں بند کر کے بلا گھما دیا، نتیجہ ایک مرتبہ پھر صفر پر آؤٹ (تصویر: AFP)
شاہد آفریدی نے پاور پلے سے قبل آخری گیند کو دیکھا اور آنکھیں بند کر کے بلا گھما دیا، نتیجہ ایک مرتبہ پھر صفر پر آؤٹ (تصویر: AFP)

جنوبی افریقہ کی جانب سے میک لارن سب سے کامیاب باؤلر رہے جنہوں نے 10 اوورز میں صرف 32 رنز دیے اور 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو وکٹیں مورنے مورکل نے اور ایک، ایک وکٹ ڈیل اسٹین، سوٹسوبے، رابن پیٹرسن اور فرحان بہاردین نے حاصل کیں۔

جواب میں جنوبی افریقہ کا آغاز بھی بہت عمدہ نہیں تھا۔ انتہائی سست روی اور محتاط رویے کے باوجود وہ ابتدائی گیارہ اوورز میں صرف 34 رنز ہی بنا پایا اور اس پر بھی دو وکٹیں سے محروم ہو گیا۔ لیکن اس موقع پر ابراہم ڈی ولیئرز کا کیچ چھوڑنا گویا میچ کا فیصلہ کر گیا۔ جنید خان کی گیند پر بلے کا باہری کنارہ لیتا ہوا یہ کیچ سیدھا یونس خان کے ہاتھوں میں گیا لیکن وہ گیند پر قابو نہ پا سکے اور پھر پاکستان کو میچ اور سیریز گنوانا پڑی۔

اس کے بعد پاکستان صرف دو کامیابیاں ہی سمیٹ سکا، ایک سخت جدوجہد کرتے ہاشم آملہ اور دوسری فرحان بہاردین کی وکٹ کی صورت میں۔ جب 23 ویں اوور میں ہاشم آملہ 65 گیندوں پر 22 رنز کی اپنی ریکارڈ سست ترین اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اس وقت بھی پاکستان کے میچ میں واپس آنے کا موقع تھا لیکن چوتھی وکٹ پر ڈی ولیئرز اور فرحان بہاردین کی 87 رنز کی شراکت داری نے گویا میچ کا فیصلہ کر دیا۔ فرحان نے صرف 36 گیندوں پر 35 رنز بنا کر کپتان کا بھرپور ساتھ دیا، جو دوسرے اینڈ سے پاکستانی بلے بازوں کو، ایک مرتبہ پھر، خوب سبق پڑھا رہے تھے۔ جب 37 ویں اوور میں فرحان محمد عرفان کی دوسری وکٹ بن گئے تو جنوبی افریقہ فتح سے محض 36 رنز کے فاصلے پر تھا اور ابھی 13 اوورز بھی باقی تھے یعنی پاکستان کے واپس آنے کی کوئی امید باقی نہ تھی۔

اس کے علاوہ میچ کے فیصلے میں اہم کردار فیلڈنگ نے بھی ادا کیا، جنوبی افریقہ نے چند بہت ہی شاندار کیچ لیے جیسا کہ محمد حفیظ کا سلپ میں اور کامران اکمل کا بیک وارڈ اسکوائر لیگ پر پکڑا گیا کیچ اور پھر یونس خان کے بلے سے نکلنے والے تیز شاٹ پر ہاشم آملہ کا دلکش کیچ، تین اہم ترین بلے بازوں کو "ہاف چانسز" پر آؤٹ کرنا پاکستان کے لیے کاری ضرب ثابت ہوا اور جواب میں پاکستان نے کیا کیا؟ انہوں نے ایک رن کے انفرادی اسکور پر ڈی ولیئرز کا آسان کیچ چھوڑا، ہاشم آملہ کا اسٹمپ ضایع کیا اور رن آؤٹ کے مواقع بھی گنوائے۔ نتیجہ جو ہونا چاہیے تھا، وہی نکلا۔

علاوہ ازیں پاکستان کا کسی ون ڈے سیریز میں جنوبی افریقہ کو زیر کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ مصباح الحق 2010ء کے اواخر میں بھی اس ہدف کو حاصل کر سکتے تھے لیکن متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں فیصلہ کن مقابلے میں پاکستان کو شکست ہوئی تھی اور آج جنوبی افریقی سرزمین پر بھی یہی ہوا۔

بہرحال، ابراہم ڈی ولیئرز کو فتح گر اننگز پر میچ اور سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔ انہوں نے ٹیسٹ کی طرح ون ڈے سیریز میں بھی سب سے زیادہ رنز بنائے۔ 5 ون ڈے مقابلوں میں انہوں نے 91.75 کے اوسط سے 367 رنز بنائے جن میں ایک سنچری اور تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔