آئی پی ایل، کیا شائقین کا جنون برقرار رہے گا؟

3 1,084

آئی پی ایل(انڈین پریمئر لیگ) کا چھٹا سیزن بس شروع ہونے ہی والا ہے۔2008ء میں جب آئی پی ایل کے بانی اور اس کے سابق چیئر مین للت مودی نے اس کی بنیاد رکھی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ فلمی دنیا کی رمق اور کرکٹ خصوصاً ٹی ٹوئنٹی کی سنسنی خیزی کا یہ انضمام اس قدر کامیاب ہوگا۔

گوتم گمبھیر کی زیر قیادت کیا کولکتہ نائٹ رائیڈرز اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کر پائے گا (تصویر: AFP)
گوتم گمبھیر کی زیر قیادت کیا کولکتہ نائٹ رائیڈرز اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کر پائے گا (تصویر: AFP)

گزشتہ پانچ برسوں میں اس لیگ نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ ابتدائی تین سال جہاں اس کی کامیابی کا عروج رہا، وہیں گزشتہ دو برسوں میں اسے اپنی برانڈ ویلیو اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً 2009ء میں ٹیموں کی نیلامی کے سلسلے میں پیدا شدہ تنازع، ٹیموں کے مالکان کی حصہ داری میں ہونے والی بدعنوانی اور پھر چیئر مین للت مودی کی برخاستگی کے بعد آئی پی ایل پر سخت تنقید کی گئی۔ چند سابق کھلاڑیوں، صحافیوں اور اور ماہرین کی ایک معتدبہ جماعت نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹس قومی کرکٹ کے معیار کو رفتہ رفتہ زوال کی طرف لے جائیں گے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے ارکان خصوصاً نوجوان کھلاڑیوں کو ملنے والی دولت و شہرت انہیں قومی کرکٹ سے غیر ذمہ دار بنا دے گی۔ ساتھ ہی ٹی ٹوئنٹی کی یہ غیر ضروری فضا شائقین کو ٹیسٹ کرکٹ سے بیزار کر دے گی۔

ان تمام خطرات کے باوجود آئی پی ایل کی شہرت اور اس کی چکا چوند دن بہ دن بڑھتی گئی۔ ساتھ ہی اس کے خطرات نمایاں طور پر نہ صرف بھارتی کرکٹ پر اثر انداز ہوئے بلکہ دیگر ممالک کی قومی کرکٹ پر بھی اس کے منفی اثرات واضح طور پر نظر آئے۔ عالمی کپ 2011ء کے عین بعد منعقد ہونے والے آئی پی ایل میں بھارت سمیت کئی ممالک کے کھلاڑیوں نے اپنے قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر حصہ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قومی ٹیمیں سخت ہزیمت سے دوچار ہوئیں۔ بلکہ گھریلو میدانوں پر بھی کئی ٹیمیں ٹیسٹ میچوں میں سخت جدو جہد کرتی ہوئی نظر آئیں۔

چند ایسے کھلاڑی جو اپنی خدمات قومی ٹیم کو مزید کچھ عرصہ پیش کر سکتے تھے انہوں نے قبل از وقت بین الاقوامی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ جس کے نتیجہ میں قومی ٹیم کا استحکام شدید طور پر متزلزل ہوا۔ اس کی تازہ ترین مثال آسٹریلیا ہے۔

بہر حال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی پی ایل کی وجہ سے نہ صرف ٹی ٹوئنٹی بلکہ ایک روزہ طرز کی کرکٹ میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ آئی پی ایل نے کئی گمنام کھلاڑیوں کو بین الاقوامی منظر نامے پر پیش کرنے کا بھی کام کیا۔ جن میں کئی نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے قومی ٹیم میں بھی اپنی منفرد شناخت قائم کی۔

آئی پی ایل نے نہ صرف بھارت میں بلکہ بھارت سے باہر بھی کرکٹ کی روایت میں تبدیلیاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں پریمیئر لیگ شروع ہو چکی ہے۔پاکستان اور ویسٹ انڈیز بھی اس سال لیگ شروع کرنے والے تھے۔ پاکستان میں اسے ایک سال کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ویسٹ انڈیز میں اس کی شروعات جولائی سے ہو رہی ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ نے بھارت میں علاقائی تعصب کو کم کرنے کا بھی کام کیا ہے۔ مہندر سنگھ دھونی کو جھاڑکھنڈ اور گوتم گمبھیر کو دہلی سے شاید اس قدر جذباتی وابستگی نہ ہوئی ہوگی جتنی آئی پی ایل کے میچوں کے دوران انہیں چنئی اور کولکتہ سے رہی ہے۔ حتیٰ کہ آئی پی ایل نے ملکی سرحد کو توڑ کر مختلف ممالک کے کھلاڑیوں کے باہمی فرق کو بھی ختم کر دیا۔ ساتھ ہی ریاستی سطح کے نو آموز کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح کے تجربہ کار اور سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ شین وارن، میتھیو ہیڈن، کرس گیل، ایڈم گلکرسٹ اور مرلی دھرن جیسے مایہ ناز کھلاڑی جس ٹیم کا بھی حصہ رہے اس ٹیم کے جونیئر کھلاڑیوں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

رواں سال آئی پی ایل کے سیزن کے لیے کھلاڑیوں کی نیلامی 3 فروری کو کی گئی تھی۔ جس میں حیرت انگیز طور پرآسٹریلیا کے گلین میکس ویل مہنگے ترین کھلاڑی ثابت ہوئے۔ گلین میکس ویل نے اب تک محض 1 ٹیسٹ اور 11 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی ہے۔ مزے کی بات یہ رہی کہ رکی پونٹنگ ان کے مقابلے آدھی قیمت پر فروخت ہوئے ۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آئی پی ایل کی نیلامی میں کھلاڑیوں کا تجربہ کام نہیں آتا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جس نے سب سے زیادہ قیمت وصول کی وہی سب سے کامیاب کھلاڑی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

آسٹریلیا کے گلین میکس ویل سب سے مہنگے کھلاڑی ثابت ہوئے (تصویر: Getty Images)
آسٹریلیا کے گلین میکس ویل سب سے مہنگے کھلاڑی ثابت ہوئے (تصویر: Getty Images)

ابتدا میں آئی پی ایل میں 8 ٹیمیں کھیل رہی تھیں۔3 سال بعد پونے اور کوچی دو مزید ٹیمیں اس میں شامل ہوئیں۔ سہارا گروپ370 ملین ڈالر میں پونے واریئرز کا خریدار بنا جبکہ کوچی کی ٹیم 333.30 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ بعد میں بورڈ کے ساتھ معاہدے کی شرائط پوری نہ کرنے کے سبب کوچی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کی ٹیم دکن چارجرز از سر نو فروخت ہوئی۔ اسے چنئی کے سن گروپز نے خریدا اور اسے سن رائزرز حیدرآباد کا نام دیا گیا۔ اس طرح آئی پی ایل2013ء میں 9 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں ۔

گزشتہ دو برسوں سے آئی پی ایل کی مقبولیت اور اس کی بقا کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لئے بھارتی کرکٹ بورڈ کے سامنے ابھی سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ شائقین میں آئی پی ایل کا پرانا جنون کس طرح بحال کرتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بورڈ کے سامنے قومی ٹیم سے زیادہ آئی پی ایل کا مفاد مقدم ہے۔ کیونکہ دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کے لئے آئی پی ایل 'سونے کا انڈا دینے والی مرغی' بن چکا ہے جس کو وہ کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہونے دے گا۔

آئی پی ایل 2013ء میں کون ٹیم کس پر حاوی رہے گی؟ اس سلسلے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ 2010ء اور 2011ء کے علاوہ 2008ء، 2009ء اور2012ء کے سیزن میں الگ الگ فاتحین سامنے آئے ہیں۔ 2008ء کا پہلا آئی پی ایل راجستھان رائلز،،2009ء کا دکن چارجرز، 2010ء اور 2011ء کا چنئی سپر کنگز اور2012ء کا کولکتہ نائٹ رائڈرز کے نام رہا تھا۔ نیز ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کو کمزور نہیں سمجھا جا سکتا اس میں ایک روزہ کرکٹ سے کہیں زیادہ غیر یقینی صورتحال بنی رہتی ہے۔

آئی پی ایل سیزن 6 کی ایک خاص بات یہ بھی ہوگی کہ اس میں کئی ایسے چہرے کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے جو بین الاقوامی کرکٹ سے الگ ہو چکے ہیں۔ سارو گانگلی اور ایڈم گلکرسٹ جیسے سینئر کھلاڑیوں کے علاوہ اس دفعہ آئی پی ایل میں وہ چہرے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو ابھی مزید کچھ عرصہ قومی ٹیم کو اپنی خدمات پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہیں دیکھ کر یقینی طور پر یہ تشویش لاحق ہونی چاہئے کہ اگر اسی طرح یہ اعضاء ٹوٹ ٹوٹ کر آئی پی ایل کے ساتھ جڑتے رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب قومی کرکٹ کا جسم نیم مردہ ہو جائے گا۔