کوچ جان سے گئے، پاکستانی بلے باز نہ سدھرے

0 1,100

تحریر: خورشید آزاد/احمد جٹ/ابوشامل

مدثر نذر، رچرڈ پائی بس، انتخاب عالم، جاوید میانداد، باب وولمر، جیف لاسن، وقار یونس، محسن خان اور اب ڈیو واٹمور سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن پاکستان کے بلے بازوں نے نہ سدھرنا تھا، نہیں سدھرے یہاں تک کہ بیچارے باب وولمر اس کوشش میں اپنی جان سے بھی گئے۔

دوسری ٹیموں کو عالمی چیمپئن بنانے والے پاکستان کرکٹ کے زوال کو نہیں روک پا رہے (تصویر: AP)
دوسری ٹیموں کو عالمی چیمپئن بنانے والے پاکستان کرکٹ کے زوال کو نہیں روک پا رہے (تصویر: AP)

پاکستان چیمپئنز ٹرافی 2013ء سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بن گیا ہے اور اب نزلہ جن افراد پر گرے گا ان میں کوچ سب سے پہلے ہوں گے خصوصاً ہیڈ کوچ ڈیو واٹمور اور حال ہی میں مقرر کیے گئے بیٹنگ کوچ ٹرینٹ ووڈہل۔

یہی واٹمور ہیں، جنہوں نے 1996ء میں سری لنکا کو عالمی چمپئن بنایا، بنگلہ دیش کو عالمی دھارے میں شامل کیا اور لیکن پاکستان کرکٹ کو زوال پذیر ہونے سے نہیں روک پا رہے۔

پاکستان نے گزشتہ سال انگلستان کے خلاف تاریخی کلین سویپ فتح کے باوجود محسن خان کو فارغ کر کے واٹمور کو ذمہ داریاں سونپیں، جن کے ساتھ پہلے جولین فاؤنٹین فیلڈنگ کوچ کی حیثیت سے آئے، پھر محمد اکرم باؤلنگ کوچ اور اب ٹرینٹ ووڈہل عارضی بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے۔ اور ان کا جادو تو چلتا دکھائی نہ دیا، بلکہ جو کارکردگی پہلے تھی پاکستان اس سے بھی کیا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک بیٹنگ کوچ ٹیم پاکستان کی بلے کے مسائل حل کردے گا؟ اور آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں گلی گلی کرکٹ کھیلی جاتی ہے کی بلے بازی کبھی بھی مستند نہیں بن سکی۔ 90ء کی دہائی کے وسط میں جاوید میانداد کے جانے کے بعد نئی نسل میں سے انضمام الحق، محمدیوسف، اور یونس خان ہی قابل ذکر بلے باز ہیں جو بین الاقوامی معیار تک پہنچ سکے۔ حالانکہ پاکستان کے افتتاحی بلے بازوں کی بدترین مسلسل ناکامی نے ان تینوں بلے بازوں پر اتنا شدید دباؤ ڈال دیا کہ یہ بلے باز صلاحیت ہونے کے باوجود ملک سے باہر اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہ کرسکے لیکن پھر بھی کم از کم ان کی ٹیم میں موجودگی سے پاکستان ٹیم کے شائقین کی امید قائم رہتی تھی۔

تو آخر کیوں پاکستان کرکٹ برطانوی فٹ بال کی طرح زوال پذیر ہے؟ جہاں دنیا کی سب سے بڑی فٹ بال لیگ تو کھیلی جاتی ہے، لیکن انگلستان 1966ء سے آج تک عالمی کپ نہیں جیت سکا۔ سابق بھارتی کپتان سارووگنگولی نے اس سوال پر کہ بھارت میں پاکستان کی طرح تیزگیندباز کیوں نہیں پیدا ہوتے؟ کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان میں ہر بچہ پہلے عمران خان اور سرفراز نواز اور اب وسیم اکرم اور وقار یونس بننا چاہتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھارت میں ہر بچہ سنیل گاوسکر اور سچن تنڈولکر بنناچاہتا ہے۔ یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ نوجوانوں کے ہیرو ہوتے ہیں اور اپنے ہیروز کی طرح بننا ہی ان کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن بھارت اور پاکستان دونوں کا بالترتیب بین الاقوامی معیار کے گیندبازاور بلے باز کا مسئلہ وہی ہے جو برطانوی فٹ بال کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہم یہاں بات صرف پاکستان کی کریں گے۔ پاکستان میں آپ کسی گلی محلے میں ہورہے میچ کو دیکھیں ان ٹیموں میں بھی انہی بلے بازوں کی اہمیت ہوتی ہے جو انتہائی تیزرفتاری سےرنز اسکور کرسکیں۔ پاکستان کے گلی محلے میں کھیلنے والے بچوں کے ذہنوں پر اپنے ٹیم کی ساتھیوں کی طرف سےاتنی کم سنی اور چھوٹی عمر سے ہی تیزی سے رنز بنانے کا دباؤ آجاتا ہے۔ یہ بچے جب بڑے ہوکر لڑکپن اور پھر اپنے کلبوں کی طرف سے کھیلتے ہیں اس وقت بھی کوچ اور کپتان سے لے کردوستوں اور تماشائیوں تک ہرطرف سے ان پر شدید دباؤہوتا ہے کہ ان کے رنز کی تعداد ان کے سامنا کیے ہوئے گیندوں سے کم ہو تاکہ ہم جیت سکیں۔

ظاہر ہے تیزی سے رنز بنانے کے لیے چوکوں اور چھکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب گیندباز کا گیند پھینکنے سے پہلے ہی بلے باز فیصلہ کرلیتا ہے کہ میں نے اس گیند پر چوکہ یا چھکا مارنا ہے تو وہاں بلے باز صحیح تکنیک کے چکر میں نہیں پڑتا اور نہ ہی پڑسکتا ہےکیونکہ صحیح تیکنیک ہرگیند کو اس کے معیار کے مطابق کھیلنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن ان کم سن بچوں اور جب یہ بچے بڑے ہوکر اپنے شہر قصبے کی ٹیم میں بھی آجاتے ہیں تو تب بھی گیند کا معیار نہیں دیکھا جاتا۔ کپتان، ساتھی کھلاڑی اور تماشبین صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس پر رنزکتنے بنے ہیں۔ پھر یہی لڑکے آگے جاکر فرسٹ کلاس کرکٹ میں قدم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں لیگ کرکٹ تو موجود نہیں ہے اس لیے فرسٹ کلاس تک تمام کرکٹر صرف اور صرف اپنی کرکٹ کھیلنے کی صلاحیت کے بل بوتے پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں سے ان کی بچپن کی تربیت اور عادات کے فوائد اور نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ فائدہ اس صورت میں کہ ایک دو سیزن میں ہی اگر تیزی سے رنز بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو قومی ٹیم کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف کرکٹ کو سمجھ رکھنے والا کوئی بھی یہ بات جانتا ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں لمبی اننگز کھیلنے کے لیے صحیح تکنیک بنیادی ضروی صلاحیت ہوتی ہے۔ بلے بازی کوئی بھی کر سکتا ہے، لکڑی کا بلّا لے کر گیند کو گلی ڈنڈے کی طرح مارنا ہی تو ہوتا ہے۔ لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ صحیح تکنیک کے بغیر نہیں کھیلی جاسکتی۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں بلے باز کو سارا سارا دن وکٹ پر ٹھہر کر کھیلنا ہوتا ہے جس کا مطلب ہے اسے ہر طرح کی ورائٹی کی گیندوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے صحیح تیکنیک ہی کام آتی ہے۔

جب ایک کرکٹر فرسٹ کلاس کرکٹ سے ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھتا ہے تو کرکٹ کا معیار اس درجے پر پہنچ جاتا ہے جہاں پر یا تو بلے باز قدرتی صلاحیت سے اتنا مال ومال ہے کہ وہ صحیح تکنیک کے بغیر بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیل جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال وریندرسہواگ ہیں۔ لیکن یہ ''قدرتی صلاحیت'' والی لاٹری کسی کسی خوش قسمت کی نکلتی ہے۔ جس کا مطلب ہے ٹیسٹ کرکٹ میں عموماً صحیح تکنیک ہی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ یہاں سے پاکستان کے بلے بازوں پر تیزی سے رنزبنانے کا دباؤ جو ان کے لاشعور میں بیٹھ چکا ہوتا ہے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا عموماً پاکستان کے نوجوان کھلاڑی حریف ٹیم کا رنز روکنے کی جال میں بچکانہ حد تک آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ یہ بات اب سب پر عیاں ہوگئی ہے کہ پاکستان کے بلے بازوں کو رنز بنانے سے روک لو وہ آپ کو اپنی وکٹ پلیٹ میں رکھ کردے دیں گے۔

ایک بلے باز کے لیے تیزی سے رنز بنانے کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اگر دنیائے کرکٹ کی ٹیسٹ کرکٹ پر حکمرانی کرنے کی خواہش ہے تو صحیح تکنیک تیزی سے رنز بنانے سے ہزار گنا زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی ٹیسٹ کرکٹ میں جب بلے باز ٹیسٹ گیندبازوں کا سامنا کرتے ہیں تو وہاں انہیں صحیح تکنیک ہی کام آتی ہے۔ ناسازگار اورمشکل حالات میں گھنٹوں وکٹ پر ٹھہرنا صحیح تکنیک کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سپر اسٹار بلے باز وہ ہوتا ہے جو لمبے لمبے چھکے مارے، چاہے اس کی تکنیک ٹیسٹ میچ میں اس کے لیے ایک اوور سے زیادہ کام نہ آئے۔ اور پھر ایسابھی نہیں ہے کہ صحیح تکنیک والا بلےباز تیزی سے رنز نہیں بناسکتا۔ ہمارے پاس دنیائے کرکٹ میں بے شمار مثالیں ایسی کرکٹرز کی موجود ہیں جن کی تکنیک صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہترین انداز میں تیزی سے رنز بھی بناسکتے ہیں۔ لیکن صحیح تکنیک کے ساتھ بلے بازی کرنے کے لیے ذہنی پختگی کے ساتھ ٹیم کاکوچ اور کپتان کے علاوہ کرکٹ دیکھنے والوں کا کرکٹ کی سمجھ رکھنے کی بھی انتہائی اہمیت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ گیندبازی کے لیے سازگار وکٹ پر آف اور مڈل اسٹمپ پر گیند ٹپکا کھانے کے بعد اگر باہر کی طرف جائے تو عموماً بلے باز وہ گیند چھوڑ دیتا ہے، ایسے میں اگر تماشائی کرکٹ کی سمجھ نہیں رکھتے تو وہ کہے گا ''یہ کیا بکواس بلے باز ہے یار، ایسے ہی خوامخواہ گیندیں ضائع کررہا ہے''۔ لیکن دوسری طرف ایک کرکٹ سمجھ رکھنے والا شائق گیندباز کو تحسین دینے کے بعد بلے باز کی بھی گیند کو معیار کے مطابق کھیلنے پر حوصلہ افزائی کرے گا۔ بلاشبہ ٹیم پاکستان کو بیٹنگ کوچ کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کو مستند بلےباز پیدا کرنے ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو آگے بڑھ کر گھریلو کرکٹ کےعلاوہ نچلی سطح کی کرکٹ میں بھی بلے بازی کی طرف ٹیم کے کوچز، کھلاڑیوں، اور شائقین کرکٹ کا رویہ بدلنے کے ایک جارحانہ مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔ گھریلو فرسٹ کلاس کرکٹ میں لمبی لمبی اننگز کھیلنے والے بلے بازوں کو خاص انعامات سے نوازنا ہوگا۔ تاکہ گھریلوکرکٹ سے بلے باز جب قومی ٹیم میں آئے تو اس کی تکنیک صحیح ہواور ٹیم کا بیٹنگ کوچ صحیح معنوں میں اس کی مدد کرکے اس کو ایک عام سے بلے باز سے بین الاقوامی معیار کا بلے باز بنا سکے۔

جب تک نچلی سطح سے بلے بازی کی تکنیک کو نہیں بدلا جائے، دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا کوچ بھی ٹیم کی کارکردگی میں فرق پیدا نہیں کر سکتا۔