[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 11

0 1,100

گیارہویں کھلاڑی کی جانب سے شائقین کرکٹ کے سوالات کے جوابات کی گیارہویں قسط حاضر خدمت ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے باوجود اس مرتبہ کرکٹ پرستاروں نے بہت اچھے سوالات کیے اور میں نے کوشش کی ہے کہ ان کے تفصیلی اور تسلی بخش جواب دوں۔ سوالات کرنے والے افراد سے گزارش ہے کہ اعدادوشمار کے حوالے سے سوالات میں فارمیٹ ضرور واضح کریں کہ آپ یہ سوال ٹیسٹ، ایک روزہ، ٹی ٹوئنٹی یا فرسٹ کلاس میں سے کس طرزکی کرکٹ کے بارے میں ہے۔اور اگر آپ بھی کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس صفحے پر موجود ایک سادہ سا فارم پر کریں اور اس ہفتہ وار سلسلے میں جواب پائیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ہفتے کرک نامہ کے قارئین نے کیا سوالات پوچھے ہیں۔

سوال: کیا کرکٹ تاریخ میں کوئی بلے باز میچ کے دوران ہلاک ہوا ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ میچ پورا کھیلا گیا؟ محمد لطیف بلوچ

قائد اعظم ٹرافی 1959ء کے فائنل میں ایک بلے باز سینے پر گیند لگنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا
قائد اعظم ٹرافی 1959ء کے فائنل میں ایک بلے باز سینے پر گیند لگنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا

جواب: میں نے اس موضوع پر کافی تحقیق کر رکھی ہے لیکن ایسے صرف تین واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں کوئی کھلاڑی میچ کے دوران یا میچ مکمل ہونے سے پہلے انتقال کر گیا ہو، اور یہ تمام میچز فرسٹ کلاس تھے اور مکمل بھی ہوئے تھے، لیکن بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

سب سے پہلے واقعہ 1934ء کی کاؤنٹی چیمپئن شپ میں وارسسٹرشائر کے بلے باز مورس نکل کا ہے۔ 19 تا 22 مئی کو کاؤنٹی گراؤنڈ چیلمسفرڈ میں ایسکس کے خلاف ہونے والے مقابلے کا تیسرا دن یعنی 21 مئی آرام کا تھا اور جب صبح ہوئی تو مورس نکل اپنے بستر پر مردہ پائے گئے۔ بوقت انتقال ان کا کیریئر 136 مقابلوں پر مشتمل تھا اور ان کی عمر 29 سال تھی۔

دوسرا واقعہ کاؤنٹی چیمپئن شپ 1939ء میں وارسسٹرشائر ہی کے بلے باز چارلی بل کا ہے۔ اس وقت بھی وارسسٹرشائر کے مدمقابل ایسکس ہی کا میدان تھا اور میدان تک وہی تھا یعنی کاؤنٹی گراؤنڈ چیلمسفرڈ۔ 27 تا 30 مئی کھیلے گئے اس میچ کے دوران آرام کے دن چارلی بل اپنی ٹیم کے ساتھی جان سڈنی بلر کے ساتھ کار پر سوار تھے کہ ان کو حادثہ پیش آ گیا جس میں چارلی بل دم توڑ گئے اور سڈنی بلر زخمی ہوئے۔ بوقت انتقال ان کا فرسٹ کلاس کیریئر 175 مقابلوں پر مشتمل تھا اور ان کی عمر 30 سال تھی۔

تیسرا واقعہ 1959ء میں کراچی کے وکٹ کیپر بیٹسمین عبد العزیز کا ہے جب وہ قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کمبائنڈ سروسز کے خلاف کھیل رہے تھے۔ کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ گراؤنڈ میں ہونے والے اس مقابلے کے دوران 17 جنوری 1959ء کو میچ کے دوسرے روز آغاز ہی میں حریف اسپنر دلدار اعوان کی ایک گیند عبد العزیز کے سینے پر جا لگی، اور وہ میدان ہی میں گر پڑے۔ اس وقت کراچی کا پہلی اننگز کا اسکور 270 رنز 7 کھلاڑی آؤٹ تھا۔ عبد العزیز کو فوری طور پر مقامی ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ عبد العزیز اس وقت ایس ایم لاء کالج کے طالب علم تھے اور ان کا فرسٹ کلاس کیریئر محض 8 مقابلوں پر مشتمل تھا اور عمر صرف 18 سال۔

اس طرح 1870ء میں ناٹنگھم شائر کے بلے باز جارج سمرز بھی میچ کے دوران سر میں چوٹ لگنے سے زحمی ہوئے تھے لیکن وہ اس چوٹ کے لگنے کے بعد 4 دن بعد فوت ہوئے۔ 13 تا 15 جون کو لارڈز کے مقام پر ایم سی سی کے خلاف کھیلے گئے مقابلے کے آخری روز حریف تیز باؤلرز جان پلاٹس کی گیند جارج کے سر پر جا لگی جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ چوٹ کی شدت کی وجہ سے وہ 4 روز بعد یعنی 19 جون کو چل بسے۔ وقت وفات ان کے کیریئر پر 32 مقابلے تھے اور عمر صرف 25 سال تھی۔ جارج سمرز کی وفات کے بعد جان پلاٹس، جو اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے، بہت دلبرداشتہ ہوئے اور پنے بقیہ پورے کیریئر میں تیز باؤلنگ نہیں کروائی بلکہ اسپن گیندباز بن گئے۔

سوال: پاکستان میں ایسے میدانوں کی تعداد کتنی ہے جہاں ایک سے زیادہ بار بین الاقوامی کرکٹ کھیلی گئی؟ محمد جنید

پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیسٹ مقابلوں کی میزبانی کا شرف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو حاصل ہے (تصویر: Getty Images)
پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیسٹ مقابلوں کی میزبانی کا شرف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو حاصل ہے (تصویر: Getty Images)

جواب: پاکستان میں 17 ایسے میدان ہیں جن پر ٹیسٹ مقابلے کھیلے گئے ہیں جن میں بنگابندھو نیشنل اسٹیڈیم، ڈھاکہ بھی شامل ہے جہاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل 1955ء سے 1969ء کے درمیان 7 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے۔ ان 17 میدانوں میں سے 6 ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا گیا یعنی بہاول اسٹیڈیم، بہاولپور (1955ء)، پشاور کلب گراؤنڈ، پشاور (1955ء)، پنڈی کلب گراؤنڈ، راولپنڈی (1965ء)، باغ ابن قاسم، ملتان (1981ء)، جناح اسٹیڈیم، گوجرانوالہ (1991ء) اور ساؤتھ اینڈ کرکٹ اسٹیڈیم، کراچی (1993ء) شامل ہیں۔ اب تک سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز کی میزبانی کرنے والا پاکستانی میدان کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم ہے جہاں 41 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ہیں۔ اس کے بعد لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کا نمبر آتا ہے جہاں 40 ٹیسٹ کھیلے گئے ہیں۔

پاکستان میں 16 میدانوں ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے گئے ہیں جن میں دو میدان ایسے ہیں جہاں صرف ایک، ایک میچ کھیلا گیا، بگٹی اسٹیڈیم، کوئٹہ 1996ء) اور اسپورٹس اسٹیڈیم، سرگودھا (1992ء)۔ سب سے زیادہ ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے ہیں جن کی تعداد 58 ہے۔

ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کا صرف ایک مقابلہ آج تک پاکستان میں منعقد ہو سکا ہے جو 2008ء میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔

مجموعی طور پر پاکستان میں 21 ایسے میدان ہیں جہاں بین الاقوامی مقابلے کھیلے گئے ہیں، جن میں ڈھاکہ کا بنگابندھو اسٹیڈیم بھی شامل ہے۔ سب سے زیادہ 98 مقابلوں کی میزبانی قذافی اسٹیڈیم، لاہور نے کی ہے۔

سوال: پاکستان کے اوپنر احمد شہزاد نے اپنی دونوں ایک روزہ سنچریاں کس ملک کے خلاف بنائی ہیں؟ اور اب تک کتنے مین آف دی میچ ایوارڈز حاصل کیے ہیں؟ طیب بنگش

دوسرا آف اسپن گیند کے روایتی ٹرن کے بجائے دوسری جانب نکل جاتی ہے (تصویر: WICB)
دوسرا آف اسپن گیند کے روایتی ٹرن کے بجائے دوسری جانب نکل جاتی ہے (تصویر: WICB)

پاکستان کے اوپنر احمد شہزاد نے 19 ایک روزہ مقابلوں میں 26.50 کے اوسط سے 477 رنز بنا رکھے ہیں جن میں دو سنچریاں بھی شامل ہیں۔ پہلی سنچری 3 فروری 2011ء کو ہملٹن میں نیوزی لینڈ کے خلاف 115 رنز کی صورت میں بنائی جس میں 12 چوکے اور 3 چھکے بھی شامل تھے جبکہ دوسری سنچری اسی سال 25 اپریل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف گروس آئی لیٹ میں 102 کے ساتھ اسکور کی، جس میں 7 چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ یہ دونوں مقابلے پاکستان نے جیتے اور ان دونوں میچز میں بہترین کھلاڑی کے اعزازات بھی احمد شہزاد نے حاصل کیے۔ احمد شہزاد کے کیریئر کا تیسرا بڑا اسکور 43 ہے جو اس نے 2009ء میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی میں بنایا تھا۔

سوال: یہ پہلا، دوسرا اور تیسرا کیا ہے؟ محمد طاہر

جواب: پہلا بال باضابطہ طور پر تو اس نام سے نہیں جانا جاتا، لیکن یہ وہ قدرتی اسپن بال ہوتی ہے جسے آپ پہلا کہہ سکتے ہیں۔ ابھی تک بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی کرکٹ اصطلاحات میں اس طرح کی کوئی گیند موجود نہیں۔

دوسرا درحقیقت گوگلی کا آف اسپنر انداز ہے جو کہ ہاتھ کے پیچھے سے کرتے ہیں گیند ٹپہ پڑ کر دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز سے دور کی طرف نکل جاتی ہے۔ اس گیند کے موجد پاکستان کے ثقلین مشتاق تھے اور یہ نام بھی انہی کا رکھا ہوا تھا۔

تیسرا درحقیقت دوسرا کا اپگریڈڈ ورژن ہے، اور اس کو بھی ثقلین مشتاق نے 2004ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد دریافت کیا تھا۔ ثقلین نے اسے 'جلیبی' کا نام بھی دیا اور انڈین کرکٹ لیگ کے میچز میں اسے کافی استعمال بھی کیا۔ 2011ء میں سعید اجمل نے عالمی کپ کے دوران بعض مواقع پر تیسرا گیند کا استعمال کیا لیکن 2012ء میں متحدہ عرب امارات میں انگلستان کے خلاف سیریز میں سعید اجمل نے اس گیند کا بھرپور استعمال کیا اور پاکستان نے انگلستان کے خلاف تاریخی کلین سویپ کیا۔

سوال: ڈبل وکٹ کرکٹ کیا ہوتی ہے؟ اس کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ حسیب رزاق

ڈبل وکٹ کرکٹ میں ایک ٹیم دو کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن اس کے مختلف قواعد و ضوابط ہیں۔ کوئی بھی ملک جب اس طرح کا ٹورنامنٹ کرواتا ہے تو اپنے قواعد سے کرواتا ہے۔ یہ عمومی طور پر 6،6 اوورز کا میچ ہوتا ہے لیکن سیمی فائنل 8 یا 10 اوورز تک کا بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ اگر 6 اوورز فی اننگز کا مقابلہ ہو تو باؤلنگ ٹیم کو یہ اوور 25 منٹوں میں مکمل کروانے ہوتے ہیں اور سیمی فائنل اور فائنل 32 تا 40 منٹ میں۔ ہر کھلاڑی کے آؤٹ ہونے کے بعد ٹیم کے مجموعی اسکور میں سے 6 رنز کاٹ لیے جاتے ہیں، اگر میچ ٹائی ہو جاتا ہے تو فاتح ٹیم وہ کہلاتی ہے جس کی وکٹیں کم گری ہوں۔ اگر نتیجہ نکالنے میں مسئلہ ہو تو میچ دوبارہ بھی کھیلا جا سکتا ہے۔

ڈبل وکٹ کرکٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کب شروع ہوئی کافی مشکل ہے، لیکن اسے عالمی سطح پر پہلی بار 1960ء کی دہائی میں متعارف کروایا گیا جب 1968-69ء میں آسٹریلیا نے پہلی بار ورلڈ ڈبل وکٹ چیمپئن شپ کا انعقاد کروایا تھا جس میں دنیا کی نامور جوڑیوں نے حصہ لیا تھا جیسا کہ انگلستان کے کین بیرنگٹن اور کولن ملبرن، انگلستان ہی کے فریڈ ٹرومین اور باسل ڈی اولیویئرا، ویسٹ انڈیز سے دو بھی ٹیمیں تھیں جو گیری سوبرز اور ویزلے ہال، اور چارلی گریفتھ اور روہن کنہائی پر مشتمل تھی۔ آسٹریلیا کی دو ٹیمیں بابی سمپسن اور گارتھ میکنزی اور بل لاری اور ڈوگ والٹرز کی تھی۔ جنوبی افریقہ نے پیٹر پولاک اور گریم پولاک اور ٹریول گوڈارڈ اور ڈینس لنڈسے پر مشتمل دو ٹیمیں بھیجی تھیں۔ فائنل جنوبی افریقہ کے دونوں بھائیوں کی جوڑی اور انگلستان کے کولن ملبرن اور فریڈ ٹرومین کے درمیان ہوا ۔ ٹرومین اس لیے اس ٹیم میں شامل ہوئے ایک روز قبل کین بیرنگٹن زخمی ہو گئے تھے۔ فائنل میں انگلش جوڑی نے ایک رن سے فتح حاصل کی اور ایک ہزار ڈالرز کا انعام بھی حاصل کیا۔ اس پہلی ورلڈ ڈبل وکٹ چیمپئن شپ میں کل 8 میچز کھیلے گئے، 564 رنز بنے جن میں 39 چوکے اور صرف 4 چھکے شامل تھے۔

سوال: چیمپئنز ٹرافی میں 8 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں؟ ون ڈے انٹرنیشنل مقابلے کھیلنے والی ٹیمیں تو آٹھ سے کہیں زیادہ ہیں تو ان ٹیموں کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟ محمد نعیم

جواب: آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے مختلف ایڈیشنز میں ٹیموں کی تعداد بھی مختلف رہی ہے۔ جون 2013ء میں انگلستان میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی آئی سی سی کے مطابق اس سلسلے کی آخری کڑی ہوگي اور آئندہ سے یہ ٹورنامنٹ نہیں کھیلا جائے گا۔ یہ صرف دوسرا موقع ہوگا کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 8 ٹیموں پر مشتمل ہوگی، آخری مرتبہ 2009ء میں یہ ہوا تھا کہ یہ ٹورنامنٹ 8 ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ دراصل 2006ء کے بعد آئی سی سی نے حکم صادر کیا تھا کہ اب سے یہ ٹورنامنٹ ایک روزہ کی سرفہرست 8 ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا اور ٹورنامنٹ کے آغاز سے چھ ماہ قبل ان ٹیموں کا تعین کیا جائے گا۔ جیسا کہ جون 2013ء میں ہونے والی ٹرافی کے لیے اکتوبر 2012ء میں جو ٹیمیں ایک روزہ عالمی درجہ بندی میں سرفہرست تھیں وہ حصہ لیں گی۔ اس سلسلے کا پہلا ٹورنامنٹ 1998ء میں بنگلہ دیش میں کھیلا گیا تھا جس میں آئی سی سی کے تمام فل ممبرز شامل تھے، جن کی تعداد 9 تھی۔ فل ممبر کا مطلب ہے وہ ٹیمیں جنہیں ٹیسٹ درجہ حاصل ہے۔

سر جیک ہوبس نے 46 سال 82 دنوں کی عمر میں سنچری بنائی (تصویر: Getty Images)
سر جیک ہوبس نے 46 سال 82 دنوں کی عمر میں سنچری بنائی (تصویر: Getty Images)

دوسرا ایڈیشن 2000ء میں کینیا میں کھیلا گیا تھا، جس میں 10 فل ممبرز (نئی ٹیم بنگلہ دیش) اور ایسوسی ایٹ ممبرز میں سرفہرست کینیا بھی شامل تھی۔ پہلے اور دوسر ایڈیشن کا نام آئی سی سی ناک آؤٹ ٹورنامنٹ تھا۔ تیسرے ایڈیشن کا انعقاد 2002ء میں سری لنکا میں ہوا جس کا نام آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی رکھا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں کل 12 ٹیموں نے حصہ لیا تھا، یعنی تمام 10 فل ممبرز اور دو سرفہرست ایسوسی ایٹ ٹیمیں، کینیا اور نیدرلینڈز۔ اس طرح 2004ء کے ایڈیشن میں نیدرلینڈز کے بجائے امریکہ کی ٹیم نے جگہ بنائی اور 2006ء کے ایڈیشن میں آئی سی سی نے صرف فل ممبرز کو جگہ دی۔

سوال: سب سے زیادہ عمر میں کس کھلاڑی نے سنچری بنائی ہے؟ ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں میں بتائیں۔ مبشر حسن

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ عمر میں سنچری بنانے کا اعزاز انگلستان کے لیجنڈری سر جیک ہوبس کو حاصل ہے جنہوں نے مارچ 1929ء میں 46 سال اور 82 دنوں کی عمر میں آسٹریلیا کے خلاف ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 142 رنز کی باری کھیلی۔ آسٹریلیا یہ مقابلہ جیت گیا تھا۔

ایک روزہ کرکٹ میں یہ اعزاز سری لنکا کے مشہور زمانہ بلے باز سنتھ جے سوریا کو حاصل ہے جنہوں نے 28 جنوری 2009ء کو 39 سال 212دنوں کی عمر میں بھارت کے خلاف دمبولا میں سنچری اسکور کی۔ جے سوریا کی 107 رنز کی اس باری کے باوجود بھارت یہ مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوا۔