کیا پاکستانی ٹیم واقعی انگلش کنڈیشنز سے مانوس نہیں؟

2 1,138

تقریباً دو ماہ کے طویل آرام کے بعد اب پاکستانی ٹیم انگلستان کے لیے پر تول رہی ہے جہاں اگلے ماہ سال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف چند ایک روزہ مقابلے اور پھر ٹورنامنٹ کے وارم اپ میچز کھیلے جائیں گے جن کے ذریعے پاکستانی کھلاڑی انگلش کنڈیشنز سے مانوس ہونے کی کوشش کریں گے۔

انگلستان میں مقیم پاکستانی شائقین کو تلخ یادوں سے گزرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ٹیم کی حمایت کا موقع ملے گا (تصویر: PA Photos)
انگلستان میں مقیم پاکستانی شائقین کو تلخ یادوں سے گزرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ٹیم کی حمایت کا موقع ملے گا (تصویر: PA Photos)

یہ 2010ء کے اس تباہ کن دورے کے بعد پاکستان کی انگلستان میں پہلی آمد ہے، جس نے قومی کرکٹ کی چولیں ہلا دی تھیں۔ مذکورہ دورے میں پاکستانی کرکٹ کے تین کھلاڑیوں پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگا، جو بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے درست قرار دیا گیا، اور سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر طویل پابندیاں عائد ہوئیں۔ یہ تمام معاملات اپنی جگہ لیکن اس تنازع کے ابھرتے ہی انگلش میڈیا نے پاکستان کی جو درگت بنائی تھی، اس سے پاکستان کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی کچھ خوف ضرور محسوس ہو رہا ہوگا کہ وہ ایک مرتبہ پھر برٹش میڈیا کی توپوں کی زد میں جا رہے ہیں۔ اس لیے چیمپئنز ٹرافی پاکستان کے لیے دوہری تلوار ہوگی، ایک طرف انتہائی مشکل گروپ جس میں پاکستان کا مقابلہ روایتی حریف بھارت، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز سے ہوگا اور دوسری جانب میڈیا کا سامنا۔

بہرحال، اس سے ہٹ کر تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا، ایک جانب نامانوس حالات اور دوسری جانب کھلاڑیوں کی ناتجربہ کاری۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، پورے پاکستانی دستے میں صرف ایک کھلاڑی احسان عادل ہی ایسے ہیں جنہوں نے آج تک انگلستان میں کرکٹ نہیں کھیلی جبکہ نوجوان تیز گیندباز اسد علی، جنہوں نے ابھی تک پاکستان کی نمائندگی بھی نہیں کی، انگلستان میں لیگ کرکٹ کے چھ سیزن کھیل چکے ہیں۔

اسد علی نے آخری سیزن اسٹاک کلب کی جانب سے کھیلا ہے جبکہ اس سے قبل وہ ناٹنگھم، ڈربی اور بریڈفرڈ کے لیے کھیل چکے ہیں۔

ان کے علاوہ آل راؤنڈر عمر امین انگلش لیگ کرکٹ کا کافی تجربہ رکھتے ہیں جبکہ عبد الرحمٰن اور جنید خان کاؤنٹی کرکٹ کا وسیع تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ اسد شفیق نے انگلستان میں ڈومیسٹک سیزن کھیل رکھا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی ٹیم کے کھلاڑی انگلستان میں اپنے تجربے کا کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کے لیے بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔