لارڈز نیوزی لینڈ کے لیے ڈراؤنا خواب، انگلستان کی شاندار فتح

0 1,059

تین دن تک نیوزی لینڈ کی گرفت میں رہنے والا مقابلہ یوں ایک سیشن میں ہاتھ سے نکلے گا، یہ بلیک کیپس باؤلرز کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ جب چوتھے روز نیوزی لینڈ کے بلے باز 239 رنز کے ہدف کے تعاقب کے لیے میدان میں اترے تو لارڈز کی تاریخی گیلری میں مسکراتے ہوئے چہرے نظر آ رہے تھے، لیکن کچھ ہی دیر بعد مایوسی نے ڈیرے ڈال لیے۔ صرف 68 رنز پر پوری بیٹنگ لائن اپ ڈھیر ہو گئی، اور 170 رنز کی بھاری شکست اس کا مقدر بنی۔

اسٹورٹ براڈ نے میچ میں 8 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا (تصویر: PA Photos)
اسٹورٹ براڈ نے میچ میں 8 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا (تصویر: PA Photos)

اسٹورٹ براڈ اور جمی اینڈرسن کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے نیوزی لینڈ کا کوئی نہ ٹک پایا۔ براڈ نے اپنے کیریئر کی بہترین باؤلنگ کی اور 44 رنز دے کر7 وکٹیں حاصل کیں جبکہ بقیہ تین وکٹیں اینڈرسن کو ملیں۔ ان دونوں گیندبازوں نے حریف باؤلر ٹم ساؤتھی کی میچ میں دس وکٹوں کی شاندار کارکردگی کو گہنا دیا۔

نیوزی لینڈ پہلی اننگز کی ناقص کارکردگی کے بعد دوسری اننگز میں بھی اپنے باؤلرز کی ہی بدولت میچ میں واپس آیا جنہوں نے دوسری اننگز میں انگلستا ن کی آخری 8 وکٹیں محض 54 رنز پر گرائیں۔ لیکن اس کے بعد کہانی کے اس ڈراؤنے حصے کا آغاز ہوا جس نے میچ کا فیصلہ کر ڈالا۔

نیوزی لینڈ کے ابتدائی 6 بلے بازوں کی باری تو دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہو سکی اور صرف دو کھلاڑیوں وکٹ کیپر بریڈلے-جان واٹلنگ اور نائیل ویگنر ہی ایسے تھے جنہوں نے بالترتیب 13 اور 17 رنز کی اننگز کھیل کر یہ "شرف" حاصل کیا، جبکہ بقیہ تمام بلے باز اس "سعادت" سے محروم رہے۔ پوری ٹیم 23 ویں اوور میں 68 رنز پر آؤٹ ہوئی اور ایک بھاری شکست کے ساتھ سیریز میں جیتنے کا موقع بھی ہاتھ سے گیا کیونکہ سیریز ہی دو مقابلوں پر مشتمل ہے اور اگلے مقابلے میں فتح بھی نیوزی لینڈ کو سیریز نہیں جتوا سکتی۔

بہرحال، لارڈز میں انگلستان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور نیوزی لینڈ کے تیز باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کے سامنے بہت بڑا مجموعہ اکٹھا نہ کر پایا۔ پہلے روز تو بہرحال صورتحال انگلستان کے لیے اس قدر بری نہ تھی کہ دن کے اختتام پر اس کے 160 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ تھے، لیکن اگلے روز صبح بقیہ چھ بلے باز اسکور میں محض 72 رنز ہی کا اضافہ کر پائے۔ جو روٹ اور جانی بیئرسٹو بالترتیب 40 اور 41 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ جبکہ 232 رنز کی اننگز میں کوئی انگلش بلے باز نصف سنچری کو نہ پہنچ پایا۔ مرد بحران میٹ پرائیر، جو حال ہی میں نیوزی لینڈ کے خلاف یادگار اننگز کھیل کر ٹیم کو شکست سے بچا چکے ہیں، پہلی ہی گیند پر ٹم ساؤتھی کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ ساؤتھی نے اننگز میں 58 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ تین وکٹیں نائیل ویگنر، دو ٹرینٹ بولٹ اور ایک بروس مارٹن کو ملی۔

دوسرے روز کھانے کے وقفے کے بعد والے سیشن میں نیوزی لینڈ خوش خوش بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں آیا۔ لیکن ابتدائی اوورز ہی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ جہاں میزبانوں کی نہیں چل رہی، ان کے بلے بازوں کی دال گلنا بھی مشکل ہوگی۔ کین ردرفرڈ 4 اور پیٹر فلٹن 2 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جب نیوزی لینڈ کا مجموعی اسکور 7 رنز تھا۔ اس موقع پر تجربہ کار روز ٹیلر اور کین ولیم سن نے اننگز سنبھالی اور تیسری وکٹ پر 93 رنز کی قیمتی شراکت داری قائم کی۔ ٹیلر 72 گیندوں پر66 رنز کی خوبصورت اننگز کھیل گئے۔ اگر دن کے آخری لمحات میں ڈین براؤنلی کی وکٹ نہ گرتی تو بلاشبہ اسے نیوزی لینڈ کا دن کہا جا سکتا تھا جس نے پہلے گیند اور پھر بلے سے اپنے کارنامہ دکھائے۔ بہرحال دوسرے روز کا اختتام 153 رنز کے ساتھ ہوا جبکہ نیوزی لینڈ کی چار وکٹیں گری تھیں۔ صرف 78 رنز کا فرق باقی تھا اور چھ وکٹیں بھی باقی تھیں۔

لیکن تیسرے دن کی صبح نے وہی داستان دہرائی، جو گزشتہ اننگز میں انگلستان کے ساتھ ہو چکی تھی، آنے والے بلے باز صرف 54 رنز کا اضافہ کر پائے اور اننگز 207 پر ہی تمام ہوئی یعنی 25 رنز کا خسارہ۔ ٹیلر کے 66 رنز کے علاوہ سب سے اچھی بیٹنگ ولیم سن نے کی جنہوں نے 60 رنز بنائے جبکہ انگلستان کی جانب سے جمی اینڈرسن سب سے نمایاں گیندباز رہے، جنہوں نے اپنے کیریئر کی 300 وکٹیں بھی مکمل کیں اور 47 رنز دے کر 5 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ چار وکٹیں اسٹیون فن کو جبکہ ایک اسٹورٹ براڈ کو ملی۔

پہلی اننگز میں کم اسکور کے باوجود برتری حاصل کرنے کے بعد انگلستان دوسری اننگز کا آغاز کرنے اترا تو اسے ابتداء ہی میں دوہرا جھٹکا لگا جبکہ پے در پے دو اوورز میں دونوں اوپنرز ایلسٹر کک اور نک کامپٹن پویلین سدھار گئے۔ اس موقع پر جو روٹ اور جوناتھن ٹراٹ نے میچ کی فیصلہ کن ترین اننگز کھیلی۔ انہوں نے تیسری وکٹ پر 123 رنز جوڑے، جو بعد ازاں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ ٹراٹ نے 137 گیندوں پر 56 جبکہ روٹ نے 120 گیندوں پر 71 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔

جارحانہ گیندبازی اور فیلڈنگ بھی نیوزی لینڈ کے کام نہ آئی (تصویر: Getty Images)
جارحانہ گیندبازی اور فیلڈنگ بھی نیوزی لینڈ کے کام نہ آئی (تصویر: Getty Images)

لیکن اس صورتحال میں کہ انگلستان مقابلے پر مکمل طور پر حاوی ہو چکا تھا، نیوزی لینڈ نے اس وقت سنسنی پھیلا دی جب انہوں نے کچھ ہی دیر میں روٹ، بیئرسٹو، پرائیر اور ٹراٹ کی وکٹیں نکال لیں۔ یہ کارنامہ انجام دیا ساؤتھی نے۔ جنہوں نے سب سے پہلے جو روٹ کو بولڈ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ان کی گیند بیئرسٹو کی وکٹیں اکھاڑ گئی۔ پرائیر ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئے اور صفر کے ساتھ پیئر کی ہزیمت لیے میدان بدر ہوئے جبکہ حتمی لمحات میں ولیم سن کے ہاتھوں ٹراٹ کی وکٹ گرنے نے گویا انگلستان کو بھی پریشان کر ڈالا۔ 180 رنز چھ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ تیسرے روز کھیل کا اختتام ہوا۔

چوتھے دن آخری چار وکٹیں اسکور میں 33 رنز کا اضافہ ہی کر پائیں۔ اسٹورٹ براڈ 26 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹم ساؤتھی نے ایک مرتبہ پھر بہترین گیندبازی کا مظاہرہ کیا اور 6 وکٹوں کے ساتھ میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔ دو وکٹیں ولیم سن، اور ایک، ایک ٹرینٹ بولٹ اور نائیل ویگنر کو ملیں۔

اس کے بعد چوتھی اننگز میں نیوزی لینڈ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ناقابل یقین تھا۔ براڈ نے فلٹن، ردرفرڈ، ٹیلر، ولیم سن اور میک کولم کو آؤٹ کیا جبکہ دوسرے اینڈ سے اینڈرسن نے ڈین براؤنلی کو سلپ میں آؤٹ کروا کر نیوزی لینڈ کو چاروں شانے چت کر دیا۔ 29 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ کا اسکور بورڈ اس حالت کو بیان کر دینے کے لیے کافی تھا جوبعد ازاں 68 رنز تمام کھلاڑی آؤٹ تک پہنچا۔

براڈ کو شاندار گیندبازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ یہ 78 سال بعد پہلا موقع تھا کہ کسی اننگز میں صرف دو انگلش گیندبازوں نے تمام وکٹیں حاصل کی ہوں۔

اب دونوں ٹیمیں 24 مئی سے ہیڈنگلے، لیڈز میں دوسرا ٹیسٹ کھیلیں گی جس کے بعد چیمپئنز ٹرافی سے قبل تین ایک روزہ مقابلے کھیلے جائیں گے۔