[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 13

1 1,226

تقریباً دو ماہ کے آرام کے بعد پاکستان بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آ چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی کرک نامہ کے قارئین، جن کی بہت بڑی تعداد پاکستان سے تعلق رکھتی ہے، ایک مرتبہ پھر کرکٹ سے جڑ گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران بھارت میں ہمارے قارئین نے انڈین پریمیئر لیگ کے مزے لیے، گو کہ اسپاٹ فکسنگ کے باعث یہ مزا کرکرا ہو گیا، لیکن پھر بھی دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنا ایک قابل دید نظارہ تھا۔بہرحال، ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کے آغاز کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگا اور بہترین سوالات کرک نامہ تک پہنچیں گے تاکہ ان کے جوابات دیے جائیں۔ یہ گیارہواں کھلاڑی کے سلسلہ سوال جواب کی 13 ویں قسط ہے، جس میں چند سوالات بہت اچھے تھے اور کوشش کی گئی ہے کہ ان کے بہترین جواب بھی دیے جائیں۔ اگر آپ کے ذہن میں بھی کرکٹ کے حوالے سے کوئی سوال ہے تو اس لنک پر موجود سادہ سا فارم پر کیجیے اور اگلے ہفتے مجھ سے یعنی شفقت ندیم سے اس سوال کا جواب پائیے۔

آئیے، آج کے سوالات اور ان کے جواب دیکھتے ہیں:

سوال: کرک نامہ کی ایک حالیہ تحریر میں معلوم ہوا کہ محمد یوسف کو تمغہ حسن کارکردگی مل چکا ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کتنے کھلاڑیوں کو اب تک قومی تمغہ حسن کارکردگی یا دیگر اعلیٰ اعزازات مل چکے ہیں؟ مبین اختر

جواب: میری تحقیق کے مطابق درج ذیل پاکستانی کرکٹرز کو حکومت پاکستان نے سویلین اعزازت سے نوازا ہے۔ اگر آپ میں سے کسی کو مزید کھلاڑیوں کے متعلق کوئی معلومات ہو تو مجھے ضرور آگاہ کیجیے۔

عمران خان کو پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہلال امتیاز مل چکا ہے
عمران خان کو پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہلال امتیاز مل چکا ہے

عمران خان کو 1992ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا جو کہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے اب تک 19 کھلاڑیوں کو تمغہ حسن کارکردگی دیے ہیں۔ ظہیر عباس کو یہ اعزاز دو مرتبہ ملا، ایک 1971ء میں اور دوسرا 1986ء میں۔ ایوارڈ یافتہ کھلاڑیوں کے نام اور سال یہ ہیں۔ عبد الحفیظ کاردار 1958ء، فضل محمود 1958ء، حنیف محمد 1959ء، سعید احمد 1962ء، مشتاق محمد 1963ء، امتیاز احمد 1966ء، آصف اقبال 1968ء، ظہیر عباس 1971ء، عمران خان 1983ء، جاوید میانداد 1986ء، ظہیر عباس 1986ء، انتخاب عالم 1988ء، عبد القادر 1988ء، مدثر نذر 1989ء، وسیم اکرم 1992ء، وقار یونس 1995ء، سعید انور 2000ء، شاہد آفریدی 2010ء، یونس خان 2010ء اور محمد یوسف 2012ء۔

اس کے علاوہ افتخار احمد کو 2003ء اور چشتی مجاہد کو 2004ء میں کرکٹ کمنٹری اور علیم ڈار کو 2011ء میں کرکٹ امپائرنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کےکوچ باب وولمر کو 2007ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا تھا ۔

سوال: آئرلینڈ پاکستان کے خلاف سیریز جیتتے جیتتے ہار گیا، کیا ٹیسٹ درجہ نہ رکھنے والے کسی ملک نے ٹیسٹ اسٹیٹس والے ملک کو سیریز ہرائی ہے؟ اسد زمان

جواب: نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آئی سی سی کی ایسوسی ایٹ یا ایفیلی ایٹڈ ٹیم نے ٹیسٹ کھیلنے والے کسی ملک کے خلاف ون ڈے سیریز جیتی ہو، ہاں البتہ کینیا نے زمبابوے کے خلاف 2006ء میں 4 میچز کی سیریز 2-2 سے اور آئرلینڈ نے 2010ء میں بنگلہ دیش کے خلاف 2 میچز کی سیریز 1-1 سے برابر کھیلی تھی۔

سوال: کیا آئرلینڈ نے ٹیسٹ درجہ حاصل کرنے کے لیے آئی سی سی میں درخواست دے رکھی ہے؟ طارق رفیق

جنوبی افریقہ واحد ٹیم ہے جس کی نسل پرستانہ حکومت کی وجہ سے آئی سی سی نے اس سے ٹیسٹ اسٹیٹس واپس لے لیا، یوں گریم پولاک جیسے کھلاڑی کا کیریئر 23 ٹیسٹ سے آگے نہ جا سکا (تصویر: Getty Images)
جنوبی افریقہ واحد ٹیم ہے جس کی نسل پرستانہ حکومت کی وجہ سے آئی سی سی نے اس سے ٹیسٹ اسٹیٹس واپس لے لیا، یوں گریم پولاک جیسے کھلاڑی کا کیریئر 23 ٹیسٹ سے آگے نہ جا سکا (تصویر: Getty Images)

جواب: 2012ء میں کرکٹ آئرلینڈ کے چیف ایگزیکٹو ویرن ڈیوٹرم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کرکٹ آئرلینڈ ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے کے لیے آئی سی سی کو درخواست بھیج رہا ہے اور امید ہے کہ 2020ء تک ہم آئی سی سی کے فل ممبر بن جائیں گے۔ اس کے لیے ہم ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار کو بھی بہتر بنا رہے ہیں۔

سوال: جس طرح آئی سی سی کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو ٹیسٹ اسٹیٹس دیتی ہے، اس طرح کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک نے ٹیسٹ کھیلنے کا درجہ واپس لیا گیا ہو؟ محمد طاہر

جواب: ایسا صرف ایک بار ہوا ہے کہ ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم سے اسٹیٹس مخصوص عرصے کے لیے واپس لے لیا گیا ہو۔ آئی سی سی نے 1971ء سے 1991ء تک جنوبی افریقہ پر بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگی رہی جب جنوبی افریقہ پر نسل پرست حکومت تھی۔ 2006ء میں زمبابوے کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم پر 5 سال کے لیے ٹیسٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کی وجہ ان کی خراب کارکردگی تھی لیکن آئی سی سی کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔

سوال: کیا امپائرز اپنے آبائی ملک کے بورڈ کے دائرۂ کار میں نہیں آتے؟ عبدالحق جویو

جواب: کرکٹ میں امپائر اپنے ملک کے بورڈز اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل دونوں کے تحت آتے ہیں۔ جو امپائر آئی سی سی پینل کے تحت کام کرتے ہیں ان کی زیادہ تر پوچھ گچھ آئی سی سی نے کرنی ہوتی ہے۔ تمام بین الاقوامی کرکٹ آئی سی سی کے ماتحت ہوتی ہے اور ان تمام میچز کے آفیشلز/امپائرز مکمل طور پر آئی سی سی ہی کے تابع ہوتے ہیں۔ باقی ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرز پر متعلقہ بورڈ کا زیادہ زور ہوتا ہے۔

سوال: کیا نیوزی لینڈ نے کبھی انگلستان کے خلاف اسی کے ملک میں ٹیسٹ سیریز جیتی ہے؟ میری یادداشت میں تو ایسی کوئی سیریز نہیں 🙂 عبد الرشید سومرو

سعید انور نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے سنچریاں بنا رکھی ہیں (تصویر: AFP)
سعید انور نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے سنچریاں بنا رکھی ہیں (تصویر: AFP)

جواب: نیوزی لینڈ نے انگلستان کے خلاف اب تک 33 ٹیسٹ سیریز کھیلی ہیں جن میں سے صرف 3 سیریز جیتیں جبکہ 23 انگلستان کے نام رہیں، بقیہ 7 سیریز ڈرا ہوئیں۔ انگلستان میں دونوں ملکوں نے آپس میں 16 سیریو کھیلی ہیں جن میں نے نیوزی لینڈ کو صرف 2 میں فتح نصیب ہوئی، ایک 1986ء میں اور دوسری 1999ء میں۔ جبکہ نیوزی لینڈ میں دونوں ملکوں نے آپس میں 17 سیریز کھیل رہی ہیں جن میں سے نیوزی لینڈ نے صرف ایک جیتی ہے وہ بھی تقریباً 30 سال پہلے 1984ء میں۔ ان اعدادوشمار میں موجودہ سیریز بھی شامل ہے۔

سوال: پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے سنچریاں کس بلے باز نے بنائی ہیں؟ اور موجودہ کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ سنچریاں کس کی ہیں؟ ظہیر احمد

جواب: پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ون ڈے سنچریاں سعید انور نے بنا رکھی ہیں جن کی تعداد 20 ہے۔ اس کے بعد محمد یوسف کا نمبر آتا ہے جن کی اس فارمیٹ میں 15 سنچریاں ہیں۔ اگر موجودہ کھلاڑیوں کی بات کریں تو شعیب ملک نے سب سے زیادہ سنچریاں بنائی ہیں جن کی تعداد 7 ہے۔ شاہد آفریدی اور یونس خان کی 6،6 اور کامران اکمل اور محمد حفیظ کی 5،5 سنچریاں ہیں۔