چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا بھارت پرغلبہ – قسط 1

2 1,086

کپتان بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے باؤلنگ کے نشان تک پہنچا، یہ کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل تو نہ تھا لیکن فائنل سے کسی طرح کم مقابلہ بھی نہیں تھا۔ سنچورین پارک کا میدان اور یکم مارچ 2003ء کی تاریخ، پاکستان نے 272 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا، لیکن بھارت کا جوابی حملہ کاری ثابت ہوا اور 46 ویں اوورکی پانچویں گیند پر ہی بھارت اور فتح کے درمیان صرف دو رنز کا فالہ تھا۔ وقار یونس امپائر کے پاس سے گزرے اور گیند پھینکی جسے ڈریوڈ نے پلک جھپکتے میں باؤنڈری لائن تک پہنچا دیا۔ بھارت نے چھ وکٹوں سے میدان مار لیا اور دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے تک پاکستان کی رسائی کے امکانات کو تقریباً ختم کر دیا۔

میچ کے دوران شعیب اختر اور راہول ڈریوڈ کے درمیان بارہا گرما گرمی ہوئی (تصویر: Getty Images)
میچ کے دوران شعیب اختر اور راہول ڈریوڈ کے درمیان بارہا گرما گرمی ہوئی (تصویر: Getty Images)

19 ستمبر 2004ء کو جب برمنگھم کے میدان میں پاکستانی کھلاڑی اترے تو ان کے ذہنوں پر غالباً یہی مناظر گردش کر رہے تھے۔ یہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2004ء کا 12 واں مقابلہ تھا۔ سنچورین پارک کے بھیانک خواب کے بعد یہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان آئی سی سی کے کسی ٹورنامنٹ میں پہلا مقابلہ تھا۔

پاکستان نے ٹاس جیتا اور باؤلرز کے لیے مددگار حالات کو سمجھتے ہوئے کپتان انضمام الحق نے پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ بالکل درست ہوا جب تیز باؤلر محمد سمیع نے تیسری ہی گیند پر سارو گانگلی کو پویلین واپس بھیج دیا۔ تین اوورز کے بعد رانا نوید الحسن نے وی وی ایس لکشمن کی وکٹ حاصل کی جب بھارت کا مجموعہ صرف نو رنز تھا۔ وریندر سہواگ اور محمد کیف نے رنز کے آگے بڑھانے کی کوشش کی اور جب اسکور 28 رنز پر پہنچا تو ایک فل لینتھ گیند پر فلک کرنے کی کوشش میں سہواگ شعیب ملک کے ہاتھوں دھر لیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی "دیوار" یعنی راہول ڈریوڈ میدان میں آئے اور ایسی باری کھیلی جس کے لیے وہ مشہور تھے۔ بھارت کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں کیف نے ڈریوڈ کا ساتھ دیا اور 10 اوورز میں دونوں نے 45 رنز جوڑ ڈالے۔

دونوں بلے بازوں کی جوڑی پاکستانی باؤلرز کے خلاف باآسانی کھیلتی نظر آ رہی تھی، لیکن برق رفتار شعیب اختر کی آمد ان کے لیے نیک شگون ثابت نہ ہوئی کیونکہ وہ اس سیزن میں بہترین فٹ تھے۔

20 ویں اوور میں شعیب اختر نے پہلے کیف اور محض تین گیندوں کے بعد یوورا جسنگھ کو ڈریسنگ روم کی راہ دکھائی دی۔ نصف بھارتی بیٹنگ لائن اپ اسکور کے تہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے ہی میدان سے باہر تھی۔ بعد ازاں روہن گاوسکر اپنے والد کی طرح گھونگھا چال اننگز کھیل کر عبد الرزاق کی وکٹ بن گئے۔

اس بدترین حالت میں اجیت آگرکر نے 'دیوار' کا ساتھ دیا اور ویسا ہی کردار ادا کیا جو ڈریوڈ کو درکار تھا۔ وہ رنز جوڑتے گئے، اور 42 ویں اوور کی پانچویں گیند تک نسبتاً سست روی سے رنز شامل کرتے گئے، جب ڈریوڈ نے اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ یہ نصف سنچری دونوں کے حوصلوں میں اضافے کا باعث بنی اور اس کے بعد آنے والے ہر اوور میں دونوں نے کم ا زکم دو مرتبہ گیند کو باؤنڈری تک ضرور پہنچایا۔ 46 ویں اوور کے اختتام پر مجموعہ 182 رنز تک پہنچ چکا تھا۔

47 ویں اوور میں آہستہ گیند پھینکنے کے ماہر رانا نوید الحسن نے پہلی پانچ گیندوں تک ڈریوڈ کو باندھ کر رکھا لیکن ٹھنڈے مزاج کے راہول آخری گیند پر اپنی وکٹ دے بیٹھے۔ دیوار میں پڑنے والی دراڑ نے آگرکر کو بھی متاثر کیا اور محض آٹھ گیندوں کے بعد وہ بھی پویلین سدھار گئے، نصف سنچری سے محض تین رنز کے فاصلے پر۔ آگرکر کی وکٹ رانا نوید کا چوتھا شکار تھا۔ آخری اوور میں شعیب اختر نے ٹیل اینڈرز پر اپنا ہاتھ صاف کیا اور عرفان پٹھان اور اشیش نہرا کی وکٹ لے کر بھارت کو صرف 200 رنز پر آل آؤٹ کر دیا۔

جواب میں پاکستان کا آغاز بھیانک تھا، کیونکہ اوپنر عمران فرحت اپنا کھاتہ کھولے بغیر پہلے ہی اوور میں آؤٹ ہو گئے۔ نئے آنے والے بلے باز شعیب ملک عرفان پٹھان کو چوکا رسید کر کے اپنے اسکور کو دہرے ہندسے میں پہنچاتے ہی آؤٹ ہو گئے۔ مسئلے کو گمبھیر ہوتا دیکھ کر کپتان خود میدان میں آئے اور یاسر حمید کے ساتھ مل کر انہوں نے اسکور بور ڈکو متحرک کیا لیکن عرفان پٹھان کے سامنے دال گلتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ 11 ویں اوور میں جب اسکور محض 27 رنز تھا اور یاسر حمید ان کا اگلا شکار ہو گئے۔ اب جو بلے باز میدان میں آیا وہ "دیوار" کا پاکستانی ورژن تھا، محمد یوسف (جو اس وقت یوسف یوحنا تھے)۔ انضمام اور یوسف نے بتایا کہ تجربہ کیوں اہمیت رکھتا ہے، دونوں نے ذمہ دارانہ کرکٹ کھیلی اور گانگلی کی جانب سے آزمائے گئے ہر باؤلر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پاکستان جو 27 رنز پر لڑکھڑا رہا تھا، اعتماد کے ساتھ 100 رنز کاہندسہ عبور کیا۔ انضمام اور یوسف کے درمیان 75 رنز اس وقت تمام ہوئی جب ڈریوڈ نے آگرکر کی گیند پر انضمام کا کیچ لیا، جب وہ 41 رنز پر کھیل رہےتھے۔

پھر عبد الرزاق یوسف کا ساتھ دینے کے لیے کریز پر آئے اور انہیں بھارت کے خلاف اپنی پانچویں ایک روزہ نصف سنچری مکمل کرنے میں مدد دی۔ البتہ یہ شراکت داری محض 25 گیندوں تک موجود رہی اور عبد الرزاق کو وریندر سہواگ کی گیند کو پچھلے قدمو ں پر کھیلنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا، گیند ان کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی وکٹوں میں جا گھسی۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر مسئلے سے دوچار تھا۔ اس کی پانچ وکٹیں 128 رنز پر گر چکی تھیں اور 84 گیندوں پر 73 رنز کی اب بھی ضرورت تھی۔ معین خان اور یوسف نے مجموعے میں 25 رنز کا اضافہ کیا اور پھر یووراج سنگھ نے اپنی فیلڈنگ مہارت دکھائی اور معین کا ایک ناقابل یقین کیچ لیا۔ شاہد آفریدی ٹیل اینڈرز سے قبل آخری بلے باز کی حیثیت سے آئے۔ پاکستان کو 59 گیندوں پر 50 رنز کی ضرورت تھی۔ تیز رفتار سنگل نے شاہد کی اننگز کا آغاز کیا، اس بے وقوفانہ رنز کا آغاز ظاہر کررہا تھا کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں، آفریدی نے ایسے ہی کھیلناہے۔

یوسف کے لیکچر سے بھی آفریدی کی اننگز گیارہ گیندوں سے آگے نہ بڑھ سکی اور اپنے ایک روزہ کیریئر کا 167 واں چھکا لگانے کے بعد اگلی ہی گیند پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر گیند کو مڈوکٹ سے باہر پھینک دیا۔ دو مسلسل چھکوں نے پاکستانی اننگز کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کو آکسیجن فراہم کیا اور درکار رن اوسط تیزی سے نیچے آ گیا۔ آفریدی نے یووراج سنگھ کے ہاتھوں آؤٹ ہونے سے پہلے ایک چوکا مزید لگایا۔ دوسری جانب یوسف ایک، دو رنز کے ساتھ مجموعے میں اضافہ کرتے رہے۔ 11 گیندوں پر شاہد آفریدی کے بنائے گئے 25 رنز کی بدولت جب 46 واں اوور شروع ہوا تو پاکستان کو مزید 13 رنز کی ضرورت تھی۔

رانا نوید اور یوسف یوحنا ایک، دو رنز کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور میچ دیکھنے والے شائقین کے اعصاب کا امتحان لیتے رہے۔ 49 ویں اوور کی پانچویں گیند پر یوسف نے اشیش نہرا کی گیند پر ایک رن دوڑ کر اسکور برابر کر دیا۔ آخری اوور کی دوسری گیند پر یوسف نے ویسا ہی شاٹ کھیلا، جسے کھیلتے ہوئے رزاق آؤٹ ہو گئے تھے، بھارتی کھلاڑیوں کی فلک شگاف اپیل بلند ہوئی لیکن یہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ جی ہاں! پاکستان میچ جیت چکا تھا، آئی سی سی کے منعقدہ کسی بھی ٹورنامنٹ میں بھارت پر پاکستان کی پہلی فتح۔ چیمپئنز ٹرافی کا دفاعی چیمپئن مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو چکا تھا اور ایجبسٹن کا ماحول جشن سے معمور تھا۔ یوسف کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ سنچورین پارک کا بدلہ لے لیا گیا، اور یوں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کے ناقابل شکست رہنے کا آغاز ہوا۔