ایک مرتبہ پھر گپٹل، نیوزی لینڈ جیت گیا!

2 1,060

مضبوط دستے اور مانوس موسم و حالات کے باعث چیمپئنز ٹرافی کے لیے فیورٹ شمار ہونے والے انگلستان کی تیاریوں کو سخت دھچکا پہنچا ہے، کیونکہ اسے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پہلے ون ڈے میں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ 228 رنز کے ہدف کے تعاقب میں مرد بحران مارٹن گپٹل کی سنچری نیوزی لینڈ کو ایک مرتبہ پھر فتح سے ہمکنار کر گئی۔

گپٹل نے ایک ہی گیند پر اپنی سنچری اور نیوزی لینڈ کا ہدف مکمل کیا (تصویر: Getty Images)
گپٹل نے ایک ہی گیند پر اپنی سنچری اور نیوزی لینڈ کا ہدف مکمل کیا (تصویر: Getty Images)

گپٹل نے گزشتہ چھ ماہ میں تیسری بار کوئی مقابلہ ناقابل یقین انداز میں جتوایا۔ ایک گزشتہ سال دسمبر میں جنوبی افریقہ کے خلاف، دوسرا رواں سال فروری میں انگلستان ہی کے خلاف اور اب لارڈز کے تاریخی میدان میں۔ جہاں گپٹل نے ایک مرتبہ پھر 103 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر انگلش باؤلرز کا بھرکس نکال دیا۔آخری مرتبہ انہوں نے فروری میں ہملٹن میں انگلستان کا سامنا کیا تھا اور زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے نیوزی لینڈ کو زبردست فتح دلائی۔ گپٹل نے آخر میں چوکے کے ساتھ نہ صرف اپنی سنچری مکمل کی بلکہ نیوزی لینڈ کو منزل پر بھی پہنچایا۔ تین ایک روزہ مقابلوں کی سیریز میں اب نیوزی لینڈ کو 1-0 کی برتری مل چکی ہے۔

مارٹن کی یہ سنچری کتنی اہمیت کی حامل ہے، اس کا اندازہ ریکارڈ بک سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انگلش سرزمین پر نیوزی لینڈ کے دوسرے بلے باز تھے، جنہیں تہرے ہندسے میں پہنچنے کا شرف حاصل ہوا، وہ بھی کوئی 23 سال کے بعد۔ آخری مرتبہ 1990ء میں مارک گریٹ بیچ نے دو سنچریاں جڑی تھیں۔ پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیوزی لینڈ 228 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پہلے ہی اوور میں اپنے دو کھلاڑیوں سے محروم ہو گیا تھا جب جمی اینڈرسن نے لیوک رونچی اور کین ولیم سن کو ٹھکانے لگایا۔ لیکن اس کے بعد گپٹل اور تجربہ کار روز ٹیلر کے درمیان 119 رنز کی میچ بچاؤ شراکت داری قائم ہوئی۔ ٹیلر نے 77 گیندوں پر 54 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی اور گپٹل کا بھرپور ساتھ دیا۔

انگلستان کو اس جگہ اسٹورٹ براڈ اور اسٹیون فن کی شدت سے کمی محسوس ہوئی جو انجریز کی وجہ سے نیوزی لینڈ کے خلاف مقابلوں میں شرکت نہیں کر پا رہے۔ ان دونوں کی عدم موجودگی کا نیوزی لینڈ کے بلے بازوں نے کس قدر فائدہ اٹھایا، ذرا اعدادوشمار سے اندازہ لگالیں، کرس ووکس کو 6 اوورز میں 45 رنز پڑے جبکہ جیڈ ڈرنباخ سے 10 اوورز 55 رنز لوٹے گئے، جن میں پہلے اوور میں لگائے گئے دو چوکے بھی شامل تھے۔ البتہ جمی اینڈرسن، ٹم بریسنن اور گریم سوان نے بہت عمدہ باؤلنگ کروائی دونوں کے تقریباً 29 اوورز میں نیوزی لینڈ صرف 100 رنز بنا پایا۔ لیکن کیونکہ ہدف بہت غیر متاثر کن تھا، اس لیے وہ بھی بے بس دکھائی دیے اور نیوزی لینڈ کو 5 وکٹوں کی فتح سے نہ روک سکے۔

مارٹن گپٹل 123 گیندوں پر 8 چوکوں اور 4 چھکوں کے ساتھ ناقابل شکست بھی رہے اور میچ کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے جبکہ ٹیلر کی نصف سنچری کے علاوہ نمایاں بلے باز گرانٹ ایلیٹ رہے جنہوں نے27 رنز بنا کر مارٹن کا ساتھ دیا۔ حیران کن طور پر تیسرا سب سے بڑا حصہ فاضل رنز تھا یعنی 26 رنز، جس میں 10 وائیڈ گیندیں بھی شامل تھیں۔

قبل ازیں ٹرینٹ بولٹ کے بغیر میدان میں اترنے کے باوجود نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر بہت عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا ، خصوصاً ٹم ساؤتھی جنہوں نے ایلسٹر کک، این بیل اور ٹم بریسنن کی وکٹیں حاصل کیں۔ انگلش اننگز کس قدر بے حال تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی بہترین ون ڈے بیٹنگ لائن اپ میں سے ایک میں بہترین انفرادی اسکور 37 تھا جو جوناتھن ٹراٹ نے بنایا۔

آخری لمحات میں کرس ووکس کی 36 اور ٹم بریسنن کی 25 رنز کی اننگز نے اسکور کو 200 سے آگے لےجانے میں مدد فراہم کی البتہ 227 رنز کا مجموعہ بالکل متاثر کن نہ تھا، اور بعد ازاں یہ ثابت بھی ہوا کہ یہ ہدف دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے ساؤتھی نے 3، مچل میک کلیناہن اور ناتھن میک کولم نے 2،2 جبکہ کائل ملز اور کین ولیم سن نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اب دونوں ٹیمیں 2 جون کو ساؤتھمپٹن میں کھیلا جائے گا، جہاں فتح نیوزی لینڈ کو سیریز جتوا دے گی جبکہ انگلستان کو سیریز بچانے کے لیے جیتنا ضروری ہے۔