[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 14

5 1,191

قارئین کے سوالات کے جوابات کے ساتھ 'گیارہواں کھلاڑی' ایک مرتبہ پھر حاضر ہے۔ اس مرتبہ قارئین کی دلچسپی میں اضافہ دکھائی دیا اور کافی سوالات موصول ہوئے، جو کہ خوش آئند امر ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں بھی کرکٹ کے ریکارڈز، اعدادوشمار اور واقعات کے حوالے سے کوئی سوال ہے تو اس صفحے پر موجود سادہ سا فارم پر کیجیے اور ہمیں بھیجیے۔ ہم اگلی قسط میں اس کا جواب دینے کی پوری کوشش کریں گے۔

سوال: انضمام الحق ڈومیسٹک کرکٹ میں کس ٹیم کی نمائندگی کرتے تھے؟ سجاد احمد ریکی

انضمام الحق نے 245 فرسٹ کلاس میچز میں 15 ٹیموں کی نمائندگی کی (تصویر: AFP)
انضمام الحق نے 245 فرسٹ کلاس میچز میں 15 ٹیموں کی نمائندگی کی (تصویر: AFP)

جواب: انضمام الحق نے اپنے فرسٹ کلاس کیریئر میں کل 245 میچز 15 مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلے، جن میں سب سے زیادہ یعنی 119 میچز پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچز کی صورت میں ہیں۔ 49 میچز پاکستانیز کی طرف سے، 38 یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، 21 ملتان، 5 پاکستان 'اے'، 3 میچز یارکشائر، دو فیصل آباد اور ایک ، ایک فرسٹ کلاس میچ ان ٹیموں کی طرف سے کھیلا ہے: آئی سی سی ورلڈ الیون، نیشنل بینک آف پاکستان، پاکستان 'بی'، پی سی بی الیون، پریزیڈنٹ الیون، پنجاب گورنر الیون، راولپنڈی اور واپڈا۔

انضمام الحق نے 458 لسٹ اے میچز 7 مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلے ہیں جن میں سب سے زیادہ 375 میچز پاکستان کی طرف سے ایک روزہ میچز کی صورت میں ہیں جبکہ 55 میچز یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، 15 پاکستانیز، 6 ملتان، 3،3میچز ایشیا الیون اور یارکشائر اور 1 میچ نیشنل بینک آف پاکستان کی طرف سے کھیل رکھا ہے۔

مندرجہ بالا اعدادوشمار کو سامنے رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انضمام الحق نے سب سے زیادہ پاکستان کی نمائندگی کی اور قومی ٹیم کے مستقل رکن رہے۔

سوال: اب تک کتنے گیندباز دو ون ڈے میچز یا دو ٹیسٹ میچز میں ہیٹ ٹرک کر چکے ہیں؟ حسیب رزاق

جواب: کرکٹ کے قانون کے مطابق ہیٹ ٹرک ایک ہی میچ میں ایک باؤلر کی جانب سے مسلسل تین گیندوں پر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ٹیسٹ اور فرسٹ کلاس میچز میں ایک ٹیم دو اننگز کھیلتی ہے، اس میں ہیٹ ٹرک دو اننگز میں بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن دو میچز پر محیط نہیں ہو سکتی۔ یعنی اگر ایک باؤلر کسی میچ کی آخری دو گیندوں پر وکٹیں حاصل کرے اور اگلے میچ میں پہلی گیند پر بھی وکٹ لے جائے تو وہ ہیٹ ٹرک نہیں کہلا سکتی۔

سوال: کیا محمد عامر کبھی بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آ پائیں گے یا ان کا کیریئر تمام ہو چکا ہے؟ فرحان یونس

محمد عامر اکتوبر 2015ء میں انگلستان کے خلاف سیریز میں پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں (تصویر: Getty Images)
محمد عامر اکتوبر 2015ء میں انگلستان کے خلاف سیریز میں پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں (تصویر: Getty Images)

جواب:محمد عامر پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں، وہ پابندی مکمل ہونے کے بعد اگست 2015ء میں ہر طرح کی کرکٹ کھیلنے کے قابل ہو جائیں گے۔ پہلے وہ کچھ فرسٹ کلاس میچز کھیلیں گے، اور امید ہے کہ اکتوبر 2015ء میں انگلستان نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے، اس میں محمد عامر کوٹیم میں جگہ دی جائے گی۔ 2015ء میں محمد عامر کی عمر 23 سال ہوگی، اور وہ مزید 13 سے 15 سال تک پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ آسٹریلیا اور انگلستان میں عموماً کھلاڑی کا بین الاقوامی کیریئر 22 سے 23 سال کی عمر میں ہی شروع ہوتا ہے اور وہ سب اچھے کرکٹ بنتے ہیں۔ انگلستان کے ایلک اسٹیورٹ نے 27 سال کی عمر میں بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا تھا اور انہوں نے 133 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش نے 25 سال کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا، مائیکل ہسی نے 30 اور میک گرا اور بریٹ لی نے 23 سال کی عمر میں اپنی بین الاقوامی کرکٹ شروع کی۔ اس طرح اور بھی کئی کامیاب کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنا کیریئر 23 سال یا اس سے زیادہ کی عمر میں شروع کیا۔ اتنی ساری تفصیلات بتانے کا مقصد آپ سب کو تسلی دینا ہے کہ محمد عامر میں پابندی ختم ہونے کے بعد کافی کرکٹ باقی ہوگی۔ میں خود محمد عامر کا سپورٹر ہوں، اور مجھے امید ہے کہ وہ پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے بہت محنت کرے گا اور 2019ء کا ورلڈ کپ جتوانے میں پاکستان ٹیم کا اہم کردار ہوگا۔

سوال: مصباح کپتان بننے کے بعد اب تک کتنے رنز بنا سکے ہیں اور انکی اوسط کیا ہے؟ عاصم کیانی

بحیثیت کپتان مصباح الحق کا ٹیسٹ اوسط 54.26، ون ڈے اوسط 43.68 اور ٹی ٹوئنٹی اوسط 43.75 ہے (تصویر: Getty Images)
بحیثیت کپتان مصباح الحق کا ٹیسٹ اوسط 54.26، ون ڈے اوسط 43.68 اور ٹی ٹوئنٹی اوسط 43.75 ہے (تصویر: Getty Images)

جواب: مصباح الحق نے کپتان کے طور پر 20 ٹیسٹ میچز کی 34 اننگز میں 8 بار ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 54.26 کی زبردست اوسط سے 1411 رنز بنائے ہیں۔ جن میں صرف ایک سنچری اور 14 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ کپتان کے طور پر ان کی واحد سنچری ویسٹ انڈیز کے خلاف 102 رنز کی ناقابل شکست باری کی صورت میں 2011ء میں باسیتیرے میں بنی۔

ایک روزہ کی بات کریں تو مصباح نے 42 میچز میں پاکستان کی کپتانی کی اور 40 اننگز میں 11 بار ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 43.68 کے بہترین اوسط سے 1267 رنز بنائے ہیں۔ جن میں 8 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

ٹی ٹوئٹی انٹرنیشنل میں مصباح نے پاکستان کی کپتانی 8 میچز میں کی ہے، ان کی 7 اننگز میں تین بار مصباح الحق ناٹ آؤٹ رہے اور 43.75کے بہترین اوسط سے 175 رنز بنائے۔

مصباح نے کل ملا کر اب تک 70 انٹرنیشنل میچز میں کپتانی کر رکھی ہے جن میں ان کا اوسط 48.35 ہے اور رنز کی تعداد 2853 ہے۔ جن میں ایک سنچری اور 22 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

سوال: پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہمیشہ وہ لوگ رہے ہیں جن کا ماضی میں کرکٹ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا ہوتا۔ کیا یہ عہدہ آپ کی نظر میں کسی حق دار کو ملا یعنی جس نے کبھی بین الاقوامی کرکٹ کھیلی ہو یا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہو؟ وقار عظیم

جواب: پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ بنیادی طور پر ایک انتظامی عہدہ ہے،اس میں کرکٹ کا کیریئر بہت کم اہمیت رکھتا ہے۔ اگر اس عہدے پر کوئی سابق کرکٹر آ جائے تو ممکن ہے وہ اس کے انتظامی امور کو اچھے طریقے سے نہ چلا سکے، جیسا کہ اعجاز بٹ کے دور میں پی سی بی تباہ حال تھا، حالانکہ وہ سابق کرکٹر بھی تھے لیکن سسٹم کو چلانے میں بری طرح ناکام رہے۔ کرکٹ میں کارکردگی پر سب سے بڑا اثر سلیکٹرز کا ہوتا ہے کہ وہ ٹیم کیسی منتخب کرتے ہیں، چیئرمین کا کبھی نہیں۔ ٹیم کی بہتری کے لیے اچھے سلیکٹرز رکھنے چاہئیں جن کا پس منظر خالصتاً کرکٹ سے ہو۔

سوال: پاکستانی کرکٹ تاریخ کے بہترین کپتان کون سے ہیں، جن کی قیادت میں پاکستان نے سب سے زیادہ میچز جیتے ہوں؟ ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بتائیں۔ عبد الحق جویو

پاکستان نے سب سے زیادہ بین الاقوامی میچز عمران خان کی قیادت میں جیتے ہیں، 14 ٹیسٹ اور 75 ون ڈے مقابلے  (تصویر: Getty Images)
پاکستان نے سب سے زیادہ بین الاقوامی میچز عمران خان کی قیادت میں جیتے ہیں، 14 ٹیسٹ اور 75 ون ڈے مقابلے (تصویر: Getty Images)

جواب: پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں عمران خان اور جاوید میانداد سب سے کامیاب کپتان ہیں۔ دونوں نے 14، 14 ٹیسٹ میچز جیتے ہیں۔ ان کے بعد وسیم اکرم کا نام آتا ہے جنہوں نے 12 ٹیسٹ میچز میں کامیابی حاصل کی، انضمام الحق نے 11، وقار یونس نے 10 اور مصباح الحق نے 9 ٹیسٹ میچز جیت رکھے ہیں۔

ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں کی بات کی جائے تو عمران خان نے سب سے زیادہ یعنی 75 میچز جیتے ہیں، وسیم اکرم نے 66، انضمام الحق نے 52، وقار یونس نے 37، جاوید میانداد نے 26 اور مصباح الحق نے 24 ایک روزہ بین الاقوامی فتوحات میں پاکستان کی قیادت کی ہے۔ واضح رہے کہ انضمام الحق نے تین ون ڈے میچز میں ایشیا الیون کی کپتانی بھی کی ہے جس میں ایک میں افریقہ الیون پر فتح پائی۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شعیب ملک نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ یعنی 12 میچز بحیثیت کپتان جیت رکھے ہیں۔ محمد حفیظ اور شاہد آفریدی نے 8،8، یونس خان نے 5 اور انضمام نے ایک میچ جیتا ہے۔

اگر تمام طرز کے بین الاقوامی میچز کی بات کی جائے تو پاکستان کی طرف سے بحیثیت کپتان سب سے زیادہ فتوحات عمران خان نے حاصل کی ہیں جن کی تعداد 89 ہے، وسیم اکرم نے 78، انضمام نے 64، وقار یونس نے 47، جاوید میانداد اور مصباح الحق نے 40،40 میچز جتوا رکھے ہیں۔

سوال: پاکستان کتنی مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل کھیل چکا ہے؟ نعمان علی

جواب: آئی سی سی کے زیر اہتمام ہونے والے ٹورنامنٹس میں پاکستان نے اب تک 4 فائنل مقابلوں تک رسائی حاصل کی ہے – دو بار ورلڈ کپ (1992ء اور 1999ء) اور دو بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی (2007ء اور 2009ء) میں۔ جن میں سے ایک، ایک بار دونوں فارمیٹ میں ٹائٹل جیتا ہے یعنی ورلڈ کپ 1992ء اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء۔ لیکن آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے 6 ٹورنامنٹس میں اب تک پاکستان فائنل تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔

سوال: کرکٹ کی تاریخ میں کتنی بار یہ واقعہ پیش آ چکا ہے کہ جب کسی کھلاڑی کو آؤٹ ہونے کے بعد مخالف کپتان نے دوبارہ بیٹنگ کرنے کی اجازت دے دی ہو؟ حسیب رزاق

جواب: ایسا بین الاقوامی کرکٹ میں بہت بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کپتان نے بلے باز کے آؤٹ ہونے کے باوجود اسے دوبارہ بیٹنگ کال دی ہو۔ آخری بار انگلستان میں 2011ء میں ہونے والے بھارت-انگلستان ٹیسٹ میں این بیل کو امپائر کی جانب سے آؤٹ قرار دیا گیا تھا لیکن مہندر سنگھ دھونی نے انہیں واپس بلا لیا تھا۔

پاکستان کی طرف سے ایک واقعہ مجھے یاد ہے، 22 دسمبر 1989ء کو لاہور میں پاکستان او ربھارت کے درمیان ایک روزہ میچ کھیلا گیا، اس مقابلے میں کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ رات کو بارش کی وجہ سے پچ گیلی تھی اور میچ 37، 37 اوورز تک محدود کر دیا گیا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی، اور پاکستان نے مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں پر 150 رنز بنائے۔ جواب میں جب بھارت کا اسکور 66 رنز پر پہنچا تو وقار یونس کی گیند پر کپتان کرش سری کانت ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ اس وقت ان کا انفرادی اسکور 31 تھا، لیکن سری کانت نے امپائر کو کہا کہ میں آؤٹ نہیں ہوااور غصے میں بپھرے ہوئے پویلین کی طرف جا رہے تھے تو پاکستانی کپتان عمران خان نے انہیں واپس دوبارہ بیٹنگ کے لیے بلا لیا۔ لیکن وہ وقار کی اگلی ہی گیند پر وکٹ کیپر سلیم یوسف کے ہاتھوں کیچ ؤٹ ہو گئے اور بھارت کی پوری ٹیم 30.2 اوورز میں 112 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ پاکستان نے یہ مقابلہ 38 رنز سے اور سیریز 2-0 سے جیتی۔