چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا بھارت پر غلبہ – قسط 2

1 1,127

"میں نے اتنے کٹ شاٹس کبھی کسی ٹیسٹ میچ میں نہیں دیکھے تھے جتنے کہ گزشتہ چند گھنٹوں میں دیکھ چکا ہوں" دھونی نے کہا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے اس بیان کا سبب محمد یوسف اور شعیب ملک کی بلے بازی اور تاریخی شراکت داری تھی۔ ان دونوں نے اس وقت میدان سنبھالا جب سبزپوش پاکستان کی اننگز روایتی انداز میں ڈھیر ہو رہی تھی۔ میچ تب شروع ہوا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان یونس خان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ انڈین کرکٹ لیگ کے باعث دھتکارے گئے کھلاڑی معافی کے بعد ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپس آچکے تھے۔ اس لیگ کے اسٹار کھلاڑیوں عمران نذیر اور کامران اکمل نے پاکستان کی باری کا آغاز کیا اور ابتدائی چار اوورز میں سات رنز فی اوور کے اوسط سے 28 رنز داغ کر بھارتی باؤلنگ لائن اپ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ عمران نذیر نے اس مجموعے میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا اور ان کے پچھلے قدموں پر ڈرائیوز اور ہائی ایلبو اسٹریٹ ڈرائیو ٹورنامنٹ کے بہترین شاٹس تھے۔ ان شاٹس نے عمران نذیر کے اعتماد میں اضافہ کیا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کی سطح تک پہنچ گئے، نتیجہ؟ ایک بے وقوفانہ شاٹ، جس کے نتیجے میں گیند ہوا کو چیرتی ہوئی بلند ہوئی اور ہربھجن سنگھ نے کسی غبارے کی مانند اسے تھام لیا۔

مرد میدان شعیب ملک کے 128 رنز فیصلہ کن ثابت ہوئے (تصویر: Getty Images)
مرد میدان شعیب ملک کے 128 رنز فیصلہ کن ثابت ہوئے (تصویر: Getty Images)

اب کپتان خان میدان میں آئے اور اسکور بنانے کی رفتار کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں جت گئے۔ دوسرے اینڈ پر اشیش نہرا کی عمدہ باؤلنگ نے اکمل کو پریشان کر رکھا تھا، کامی نے بغیر کسی فٹ ورک کے ایک گیند کو کٹ کرنے کی کوشش کی جو بلے سے لگ کر سیدھا وکٹوں میں جا گھسی۔ اب سابق کپتان شعیب ملک میدان میں اترے اور اگلے چھ اوورز تک اسکور کارڈ نے آگے بڑھنے کا نام نہ لیا۔ لیکن تبصرہ کار سنجے مانجریکر نے جیسے ہی یہ کہا کہ گزشتہ سات اوورز میں بار بھی گیند باؤنڈری تک نہیں پہنچی یونس خان نے پچھلے قدموں پر جا کر ایک خوبصورت کٹ کھیلا جس کی بدولت ایک باؤنڈری اسکور میں شامل ہو گئی۔ بارہ رنز کی یہ 'طویل شراکت داری' رودراپرتاب سنگھ کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔ یونس نے ڈرائیو کرنے کی کوشش کی لیکن گیند بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی براہ راست دھونی کے دستانوں میں جاپہنچی۔

اب میدان میں اترنے والے اگلے بلے باز محمد یوسف تھے اور یہ یہی ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کی دسویں طویل ترین شراکت داری کا نقطہ آغاز تھا۔ یوسف اور شعیب دونوں نے وکٹ کے چاروں طرف شاٹس کھیلے اور دھونی کے متعارف کردہ ہر باؤلر کی تسلی بخش کٹ لگائی۔ اس شراکت داری کی اہم خصوصیت دونوں بلے بازوں کی جانب سے کھیلے گئے کٹ شاٹس کی تعداد تھی۔ 65 رنز تین کھلاڑی آؤٹ پر جدوجہد کرنے والا پاکستان اب 271 رنز کی مستحکم پوزیشن پر تھا۔ محمد یوسف کے 87 اور شعیب ملک کے 110 رنز نے ریکارڈ 206 رنز کی رفاقت بنائی۔

46 ویں اوور کا اختتام نہرا نے ایک دھیمی گیند کی صورت میں کیا، جس کو محمد یوسف نے وقت سے پہلے کٹ کرنے کی کوشش کی اور اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ آنے والے دو بلے باز شاہد آفریدی اور عمر اکمل نے اسکور میں محض چار رنز کا اضافہ کیا۔ 49 ویں اوور کے اختتام پر شعیب ملک بھی اپنی وکٹ دے کر چلتے بنے جب انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے شاٹ کو سیدھا ہوا میں اٹھا دیا، گیند کی منزل یوسف پٹھان کے ہاتھوں میں جا ٹھہرنا قرار پائی۔ بہرحال پاکستان اس وقت تک 300 رنز کی نفسیاتی حد کو پہنچ چکا تھا۔

آحری اوور میں پاکستان نے صرف ایک رن کا اضافہ کیا اور عمر گل اور محمد عامر کی وکٹیں گنوائیں۔ پاکستان نے بھارت کے لیے 302 رنز کا ہدف مقرر کیا اور بھارت کی بیٹنگ لائن اپ کو دیکھتے ہوئے یہ آسانی سے دفاع کرنے کے قابل ہدف نہ تھا۔ اشیش نہرا بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر رہے، جنہوں نے چار وکٹیں حاصل کیں۔

بھارت کے اوپنرز گوتم گمبھیر اور سچن تنڈولکر نے دھیان سے باری کا آغاز کیا اور چار اوورز تک ذمہ داری کے ساتھ کھیلتے رہے۔ لیکن پاکستان کے نوجوان ترین تیز باؤلر کی جانب سے پھینکی گئی پانچویں اوور کی پہلی گیند نے 'کرکٹ کے ڈان' پر عیاں کردیا کہ وہ دیکھیں کہ کرکٹ کے افق پر اک نیا ستارہ کیسے طلوع ہو رہا ہے۔ سچن کے پاس محمد عامر کی خوبصورت آؤٹ کٹر کا کوئی جواب نہ تھا، اس کے علاوہ کہ وہ اپنی وکٹ دے کر چلتے بنیں۔ اس ابتدائی کامیابی نے پاکستان کے باؤلرز کو زبردست اعتماد بخشا۔

محمد عامر نے 'عظیم' سچن تنڈولکر کی وکٹ حاصل کی (تصویر: Getty Images)
محمد عامر نے 'عظیم' سچن تنڈولکر کی وکٹ حاصل کی (تصویر: Getty Images)

'دیوار ہند' ڈریوڈ اگلے کھلاڑی تھے، جبکہ گوتم اپنے جارحانہ اسٹروکس کے ذریعے بہترین دکھائی دے رہے ہیں، ڈریوڈ نے ان کی بھرپور سپورٹ کی اور انہوں نے مجموعے میں 67 رنز کا اضافہ کیا۔ چودہویں اوور کی آخری گیند کو ڈریوڈ نے مڈ آف کی جانب دھکیلا جہاں یونس خان نے گیند پکڑ کر براہ راست وکٹوں کو نشانہ بنا دیا۔ تیسرے امپائر نے سرخ بٹن دبا کر گمبھیر کو واپس جانے کا اشارہ دے دیا۔ گمبھیر بہت جارحانہ موڈ میں تھے اور صرف 35 گیندوں پر چھ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے اپنی نصف سنچری مکمل کی، اور ان کا آؤٹ ہونا پاکستانی شائقین کے لیے خوشی کا پروانہ ثابت ہوا۔

بھارت دو وکٹوں کے نقصان پر 90 رنز پر تھا جب ویراٹ کوہلی آئے جس کے بعد رن اوسط میں تیزی سے کمی آئی اور بھارت نے 100 رنز کا سنگ میل پندرہویں اوور کے اختتام پر حاصل کیا۔ ڈریوڈ اور کوہلی نے وکٹیں گرنے سے روکنے اور مستقل شرح کے ساتھ رنز میں اضافے کی حکمت عملی اپنائی۔ تجربہ کار عمر گل اس جوڑی کے خلاف سخت جدوجہد کرتے دکھائی دیے اور ان کی جگہ شاہد آفریدی کو لایا گیا جو کوہلی کے خلاف حالیہ فارم کے باعث ساتویں آسمان پر تھے۔ کوہلی ان کے خلاف جارح مزاجی دکھاتے ہوئے آگے بڑھے اور گیند کو لانگ آف کی جانب اچھال دیا جہاں عمر گل نے ڈرامائی انداز میں ان کا کیچ تھاما۔ دھونی اگلے کھلاڑی تھے لیکن وہ زیادہ دیر قیام نہ کر سکے اور شاہد آفریدی کا ایک فلپر ان کے پیڈ سے ٹکرایا اور امپائر سائمن ٹوفل نے انگشت شہادت فضا میں بلند کر دی۔

جب معاملہ پاکستان کے حق میں دکھائی دے رہے تھے تو سریش رینا ڈریوڈ کا ساتھ دینے کے لیے آئے اور پانچویں وکٹ پر وہی کچھ کیا جو پاکستان نے اپنی اننگز میں کیا تھا۔ رینا اپنی بیٹنگ اور اسٹروکس کھیلنے کی صلاحیت کے باعث ہر ڈھیلی گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھاتی اور ڈریوڈ اپنے روایتی ٹھنڈے مزاج اور رویے کے ساتھ ان کی مدد کرتے رہے۔32 ویں اوور میں ڈریوڈ نے اپنی نصف سںچری مکمل کی اور دوسرے اینڈ پر رینا کی گولہ باری جاری تھی وہ بھی ایک اوور میں کم از کم ایک باؤنڈری کی اوسط سے۔ 33 ویں اوور میں رینا نے دو مسلسل چوکے کے بعد شعیب ملک کو ایک بلند و بالا چھکا رسید کیا۔ اس موقع پر کپتان یونس خان نے اپنا ترپ کا پتہ پھینکا یعنی سعید اجمل۔ دو مسلسل گیندوں پر ناکامی کا منہ دیکھنے اور باؤنڈری لگانے میں ناکامی کے بعد انہوں نے جھلا کرسعید کی ایک تیز گیند کو عجیب و غریب انداز سےکھیلا، تقریباً یارکر پڑنے والی اس گیند کے بعدپاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے فلک شگاف اپیل بلند ہوئی اور خطرناک موڈ میں نظر آنے والے رینا امپائر کے فیصلے سے ناخوش میدان بدر ہوئے۔

بھارتی ٹیم میں آخری بلے باز کی حیثیت سے عرفان پٹھان اپنی ٹیم کو بچانے کے لیے آئے جب پاکستان میچ میں واپس آتا دکھائی دے رہا تھا۔ یونس خان دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے گیند محمد عامر کو تھمائی اور جارحانہ فیلڈنگ اپناتے ہوئے سلپ بھی کھڑی کر ڈالی۔ اس منصوبہ بندی میں خوب کام دکھایا۔ محمد عامر کی رفتار، گیند پھینکنے کا زاویہ اور سوئنگ تینوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرفان پٹھان سلپ میں مصباح الحق کو کیچ تھما گئے۔

دوسرے اینڈ پر راہول ڈریوڈ رن اوسط کے متحرک رکھنے کے لیے اپنے خوبصورت شاٹس کھیلتے رہے۔ درکار رن اوسط بھارتی شائقین کے فشار خون کی طرح تیزی سے بڑھ رہا تھا اور اسی کے دباؤ تلے ڈریوڈ تیزی سے رن دوڑنے کی کوشش میں عمر گل کی تھرو کا شکار ہو گئے۔ ڈریوڈ کا آؤٹ ہونا بلاشبہ بھارتی تابوت میں آخری کیل تھا۔ بھارت اب 238 رنز پر سات وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا اور اسے بقیہ 48 گیندوں پر 65 رنز کی ضرورت تھی۔

آر پی سنگھ نے بلا گھمایا اور رانا نوید کی ایک اور دھیمی گیند کو ہوا میں اچھال دیا، محمد یوسف جو عموماً اچھے فیلڈر نہیں سمجھے جاتے نے مڈوکٹ پر ایک عمدہ کیچ لیا۔ ایک گیند ہی کے بعد ایشانت شرما رانا نوید کی تیز یارکر کا شکار ہو گئے جس نے ان کی آف اسٹمپ اکھاڑ پھینکی۔ 44 ویں اوور کے اختتام پر پاکستان فتح سے محض ایک وکٹ کی دوری پر تھا اور ساتھ ہی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں اپنی نشست پکی کرنے سے بھی۔

سعید اجمل نے 45 ویں اوور کا آغاز اپنے ہم منصب ہربھجن سنگھ کے خلاف گیند بازی سے کیا، پہلی گیند ان کے پیڈ پر لگی، دوسری کو وہ سمجھ ہی نہ پائے لیکن پھر بھی سوئپ کھیلنے کی کوشش کی۔ تیسری بال آف اسٹمپ سے باہر تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھجی نے پوائنٹ کی جانب باؤنڈری حاصل کی۔ چوتھی گیند بھارت کی داستان کے خاتمے اور پاکستان کی کامیابی کا اعلان بنی۔ حد سے زیادہ اعتماد دکھانے والے ہربھجن نے سعید اجمل کو ریورس سوئپ کھیلنے کی کوشش کی، اور اجّو کی جادوئی گیند ان کی وکٹوں میں جا گھسی، اور یوں سنچورین پارک نے بھارت پر پاکستان کی پہلی فتح کا نظارہ دیکھا۔

26 ستمبر 2009ء آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں روایتی حریف پر پاکستان کی دوسری فتح کا گواہ تھا، اور اس نے پاکستان کے ناقابل شکست رہنے کے سلسلے کو مزید دراز کیا۔ شعیب ملک کو سنچری پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا لیکن یہ فتح بلاشبہ ٹیم کی مشترکہ کوششوں اور یونس خان کی جارحانہ کپتانی کا سبب تھی۔

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان و بھارت کے اس سفر کا خاتمہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا؛ اور دلچسپ بات یہ کہ برمنگھم کے اسی میدان میں اختتام کو پہنچے گا جہاں سے یہ شروع ہوا تھا۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان اس روایت کو برقرار رکھتا ہے یا بھارت بدلہ لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ایک چیز یقینی ہے کہ ان پڑوسی ممالک کے درمیان ٹکراؤ میں کچھ جادو ہے جس کی بدولت اس میچ کی ٹکٹیں دستیابی کے بعد صرف 26منٹوں او ر48 سیکنڈز میں فروخت ہو گئیں۔