[باؤنسرز] کوچ نے رنز کرنے سے منع کیا ہے!!

1 1,033

کل بھارت نے ویسٹ انڈیز کو زیر کیا تو پاکستانی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی کی امیدیں مکمل طور پر دم توڑ گئیں جنہیں ویسٹ انڈیز اور پھر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پے درپے شکستوں کے بعد واپسی کا سامان باندھنا پڑ رہا ہے۔چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کے پہلے میچ سے قبل میں نے ’’کرک نامہ‘‘ پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ دل کہہ رہا ہے کہ پاکستانی ٹیم اس مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی مگر گرین شرٹس کی شرمناک کارکردگی کے بعد مجھے طنز کے تیر برداشت کرنا پڑ رہے ہیں کہ جس ٹیم کو میں نے میگا ایونٹ جیتنے کیلئے فیورٹ قرار دیا تھا وہی ٹیم سب سے پہلے ایونٹ سے باہر ہوگئی ۔پاکستان کی ٹائٹل جیتنے کی امیدوں کو میں نے بیٹنگ لائن کے رنز کرنے سے مشروط کیا تھا کہ اگر بیٹسمینوں نے ذمہ داری دکھائی تو پاکستان کا مہلک باؤلنگ اٹیک کسی بھی ٹیم کو ٹھکانے لگا دے گا مگر 170 اور167رنز بنا کر میچز نہیں جیتے جاسکتے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔

170 اور167رنز بنا کر میچز نہیں جیتے جاسکتے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے (تصویر: AFP)
170 اور167رنز بنا کر میچز نہیں جیتے جاسکتے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے (تصویر: AFP)

بہت سے تجزیہ نگار اپنی ’’ماہرانہ‘‘رائے کے مطابق ان دونوں میچز میں ناکامی کا ذمہ دار چند ایک کھلاڑیوں کو قرار دے رہے ہیں ان سینئر بیٹسمینوں کو ٹیم سے باہر نکالنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے جو اب ٹیم پر بوجھ بن چکے ہیں مگر بڑے ایونٹس میں پاکستان کی مسلسل ناکامیوں کا حل کھلاڑیوں کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ سوچ کو تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ انہی وکٹوں پر انہی ٹیموں کے خلاف جو بیٹسمین وارم اَپ میچز میں اچھی بھلی کارکردگی دکھاتے ہیں انہیں چند دن بھی اسی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا ہوجاتا ہے کہ وہ رنز کرنا ہی بھول جاتے ہیں ،بیٹنگ کی تکنیک انہیں یاد نہیں رہتی کہ کس طرح اپنی آف اسٹمپ کی حفاظت کرنا ہے ۔یہ بڑے ایونٹ کا دباؤ نہیں تو اور کیا ہے کہ عمران فرحت پریکٹس میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے ٹیم کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے مگر ’’اصلی‘‘میچ میں وہ ایک نوآموز باؤلر کے ہاتھوں اس طرح بولڈ ہوتا ہے کہ جیسے اس کا سامنا کسی ورلڈ کلاس فاسٹ باؤلر سے ہو۔اسپن بالنگ پر بیٹنگ کے ماہر شعیب ملک اگر اوسط درجے کے اسپنر کے ہاتھوں زچ ہوجائے تو اس پر کیا جائے کہ پاکستان کا سب سے سینئر کھلاڑی راین میک لارین کے دو اوورز میڈن کھیل جائے تو کیا سابق کپتان کی اہلیت پر شک کرنا جائز نہیں ہے۔ مخالف باؤلرز کو سبق پڑھانے کی بجائے اگر ’’پروفیسر‘‘ خود ہی بیٹنگ کا نصاب بھول جائے تو اس پر صرف افسوس کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اب یہ پی سی بی کا کام ہے کہ وہ سخت گیر رویہ اپناتے ہوئے ایسے کھلاڑیوں کو سبق سکھائے جو ٹیم پر بوجھ بنتے جارہے ہیں اور ایسے مفلوج ذہنوں کے علاج کی بھی ضرورت ہے جو ہر مرتبہ بڑے ٹورنامنٹ کا آسیب خود پر سوار کرکے ٹیم کیلئے مشکلات کھڑی کردیتے ہیں۔

ان شکستوں کے بعد قدرتی طور پر اگلی سیریز میں ٹیم کا انتخاب کرتے وقت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں گی ۔جن کھلاڑیوں کو چیمپئنز ٹرافی سے ڈراپ کیا گیا تھا وہ ہیرو بن کر واپس آجائیں گے اور قومی ٹیم دوبارہ ملی جلی کارکردگی دکھانا شروع ہوجائے گی جبکہ فی الحال غصے کے مارے شائقین بھی آہستہ آہستہ سب بھول جائیں گے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگلی سیریز بھی دور کی بات ہے اگر بھارت کے خلاف چیمپئنز ٹرافی کے آخری میچ میں پاکستانی ٹیم کو کامیابی مل گئی اور پہلے دو میچز میں ناکام ہونے والے بیٹسمینوں میں سے کسی ایک نے بڑی اننگز کھیل دی تو پاکستانی قوم نہ میگا ایونٹ سے باہر ہونے کا غم بھلا کر نا صرف خوشی سے ناچ رہی ہوگی بلکہ بھارت کے خلاف ہیرو بننے والا کھلاڑی اس ایک کارکردگی کی بنیاد پر مزید ایک یا دوسال نکال جائے گا لیکن اگلے برس ورلڈ ٹی20 یا 2015ء کے عالمی کپ میں دوبارہ ایسے نتائج ملے تو ایک مرتبہ پھر لعن طعن کا بازار گرم ہوجائے گا ۔کھلاڑیوں کو تبدیل کردینے سے پاکستانی ٹیم خاص طور پر بیٹنگ لائن کی مشکلات ختم نہیں ہونگی کیونکہ پچھلے دس بارہ برسوں سے یہی بیٹسمین ٹیم سے ان اور آؤٹ ہورہے ہیں مگر اتنی زیادہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے باوجود ان بیٹسمینوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آیا ۔اس لیے بیٹنگ لائن میں میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع کرنے کی بجائے بیٹسمینوں کے دماغوں سے اس خوف سے نکالنا ہوگا جو بڑے ایونٹس میں ان کے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ بیٹسمینوں کے ذہنوں سے یہ خوف نکالنا کوچ کا کام ہے اور کوچ کے نام کے ساتھ اگر’’سند یافتہ‘‘ لکھا ہو تو پھر اس کی ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے جس کیلئے اسے بھاری معاوضہ ادا کیا جارہا ہے۔

2010ء کے دورہ انگلینڈ کے برعکس اس مرتبہ انگلش سرزمین پر پاکستانی ٹیم کے حوالے سے کوئی تنازع سامنے نہیں آیا ۔ہوسکتا ہے کہ ایک سافٹ ڈرنک کی تشہیر کیلئے بنائے گئے اشتہار کے مطابق بالرز سے پرفارمنس لینے کا یہ فارمولا بنایاگیا ہوکہ ’’کوچ نے باہر جانے سے منع کیا ہے‘‘ مگر لگتاہے کہ بیٹسمینوں کو تو کوچ نے رنز بنانے سے بھی منع کردیا تھا جو میدان کے وسط میں اس طرح کھیل رہے تھے جیسے ان کے ہاتھ میں بیٹ میں بلکہ ’’سفید چھڑی‘‘ ہو جس کی مدد سے وہ گیند کو تلاش کرکے ہٹ لگانے کی کوشش کررہے تھے!

ڈیو واٹمور ایک ہائی پروفائل کوچ ہیں جن کے کریڈٹ پر کئی کامیابیاں ہیں مگر پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرتے ہوئے انہوں نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا ۔ اس بحث کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم کیلئے ملکی کوچ موزوں ہے یا غیر ملکی مگر تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے بیرون ملک سے آنے والے کوچز کی بات سننے کی بجائے انہیں اپنی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور کیا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آسکے۔باب وولمر نے جنوبی افریقہ کو ناقابل تسخیر ٹیم بنایا مگر پاکستانی ٹیم کے ساتھ وہ کئی کارنامہ انجام نہیں دے سکا بلکہ ورلڈ کپ کی شرمناک شکست سے اس کی جان ہی لے لی۔جیف لاسن نے بھی سینئر کھلاڑیوں کا ’’اسسٹنٹ‘‘ بن کر اپنا وقت پورا کیاجبکہ پاکستانی کوچز کے ساتھ کیا ہوا اس سے بھی پوری دنیا واقف ہے۔ ڈیو واٹمور پاکستانی ٹیم کی کوچنگ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور ان کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم وہ نتائج نہیں دے سکی جو ان کی آمد سے قبل ’’جز وقتی‘‘ کوچ کی کوچنگ میں دے رہی تھی مگر اس کے باوجود ڈیو واٹمور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں ۔

واٹمور نے انٹرنیشنل ٹیموں کے ساتھ ساتھ انگلش کاؤنٹی ٹیم کی بھی کوچنگ کی ہے اور اس حوالے سے ان کے پاس تجربے کی کمی نہیں ہے مگر پاکستانی ٹیم کی کوچنگ سنبھالنے کے بعد واٹمور تن آسانی میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ کرکٹ بورڈ کو ان پر اعتماد ہے جبکہ کھلاڑیوں کو بھی واٹمور کی شکل میں ’’آسان‘‘ کوچ مل گیا ہے جو اپنی تمام تر سخت گیری آسٹریلیا رکھ کر پاکستان آیا تھا ۔ پاکستانی ٹیم کو ایسے کوچ کی ضرورت نہیں ہے جو کھلاڑیوں کو صرف ٹریننگ کروادے یا نیٹ پر ان کی باری کا حساب رکھے یہ کام کوئی ٹرینر بھی کرسکتا ہے ۔ایک ایسا کوچ وقت کی ضرورت ہے جو ان کھلاڑیوں کو بڑی کارکردگی پر اکسائے اور پاکستانی ٹیم کو ایک ٹاپ کلاس ٹیم بنائے تو ہر قسم کی کنڈیشنز میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھائے مگر واٹمور کی کوچنگ کو دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ پی سی بی نے واٹمور کو ’’کوچنگ‘‘ کرنے سے منع کیا ہے اور کوچ نے بیٹسمینوں کو رنز بنانے سے منع کردیا ہے!!