برمنگھم میں "پڑوسیوں" سے ملاقات

1 1,091

"یار یہ صرف ایک کھیل ہے، اسے زیادہ سنجیدہ کیوں لیتے ہو؟ اتنا ذہنوں پر سوار نہ کرو"، یہ میرے الفاظ تھے۔ اور میں اپنے دوستوں کو سمجھانے اور ان کی دلجوئی کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو پاک-بھارت میچ کے بعد اپنےجذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جواب تھا "اپنے دل پر ہاتھ رکھو اور پھر فیصلہ کرو کہ تمہارے کہے گئے الفاظ کا مطلب کیا ہے"۔ میں نے چیلنج قبول کیا، اور سوچا، بالکل ابتداء سے اور جواب پایا کہ دوست ٹھیک کہہ رہے تھے۔ ویسے تو کوئی کرکٹ مقابلہ درحقیقت اپنے طے شدہ دن پر شروع ہوتا ہے لیکن میرے لیے یہ کئی ماہ پہلے شروع ہوا۔ سب سے پہلا کام ٹکٹوں کی فروخت شروع ہوتے ہی کسی دوست کی ذمہ داری لگانا تھا کہ بھائی، ٹکٹ خرید لینا۔ یہ پہلی کامیابی تھی، جتنے بھی دوست میچ دیکھنے کے خواہشمند تھے، سب کے ٹکٹ مل گئے،وہ بھی اس حال میں کہ ٹکٹوں کی فروخت شروع ہوئی اور 27 منٹوں کے اندر تمام ٹکٹ ختم ہو گئے تھے۔

کرکٹ کی جنگ عظیم دیکھنے کا ٹکٹ (تصویر: رائے ازلان)
کرکٹ کی جنگ عظیم دیکھنے کا ٹکٹ (تصویر: رائے ازلان)

پھر لندن کی تیز رفتار زندگی میں سے وقت نکالنا اور ویلز میں کارڈف کے قریب واقع نیو پورٹ میں دوستوں کے ساتھ مل کر اگلی صبح ایجبسٹن، برمنگھم پہنچنا۔ یہ اس داستان کی دوسری کامیابی تھی، گزشتہ جمعےکو یہ سفر مجھ پر دوگنا بھاری رہا، وقت اور جیب دونوں کے لحاظ سے۔

تیسری کامیابی 15 جون کی صبح بروقت برمنگھم پہنچنے کی تھی۔ شہر تک کا سفر 90 منٹوں میں اختتام کو پہنچا لیکن میدان سے باہر رش دیکھ کر لگتا تھا کہ پورا شہر ہی امنڈ آیا ہے۔ صرف پارکنگ ڈھونڈنے میں ہمیں پون گھنٹہ لگ گیا، اور وہ بھی اسٹیڈیم سے 3 میل کے فاصلے پر ملی۔

پھر اسٹیڈیم تک کے پیدل سفر کا بھی اپنا ہی لطف تھا، کئی نئے اور مختصر مدتی دوست بنے، جن میں کئی بزعم خود کرکٹ ماہرین اور تجزیہ کار بھی تھے، جو اپنی معلومات اور تجزیے بکھیر رہے تھے۔ ترنگوں اور سبز ہلالی پرچموں، باجوں، ٹوپیوں اور اس طرح کے مقابلوں کے لیے دیگر کئی چیزوں کی فروخت کے لیے عارضی اسٹالز بھی لگے ہوئے تھے۔

جب میدان میں دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجنے شروع ہوئے تو ہم باہر کھڑے اپنے اس دوست کا انتظار کر رہے تھے، جس نے ٹکٹ خریدے تھے۔ میرے لیے قومی ترانوں کا یہ وقت بہت کشش رکھتا تھا، لیکن ہم نے اسے کھو دیا، یقیناً اس روز انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ بعد ازاں اجتماعی سطح پر بھی قسمت خراب ثابت ہوئی۔

میدان کے باہر موجود بے چین، پرجوش، خوش و خرم اور سرگرم شائقین کی طویل قطاریں تھیں، جن کے گرد کئی ٹیلی وژن چینلوں کے نمائندے منڈلا رہے تھے۔ ایک پشتو ٹی وی چینل (خیبر ٹی وی) نے ہمارے گروپ کو گھیر لیا، سوالات پشتو میں پوچھے گئے اور جوابات پنجابی لہجے کی اردو میں دیے گئے۔ جب پاکستان کی پہلی وکٹ گری، اس وقت بھی ہم قطار ہی میں لگے ہوئے تھے، اور جب حفیظ نے پے در پے دو چوکے لگائے تب بھی ہم وہیں منتظر تھے۔

بالآخر ہمیں اپنی نشستیں نظر آ گئیں، اس جگہ پر جہاں سے محض 25 فٹ کے فاصلے پر شیکھر دھاون تھرڈمین پوزیشن کے فیلڈر بنے ہوئے تھے۔ لیکن نشستوں پر بیٹھنے سے پہلے ہمیں سخت سیکورٹی چیک سے گزرا تھا جو عام مقابلوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی تھی، موبائل فونز جام کر دیے گئے تھے، ہمارے پلے کارڈز، کولڈ ڈرنکس کے کین اور باجے بھی بحق سرکار ضبط کر لیے گئے، لیکن پراٹھے اور بریانی کے ڈبوں کو چھوڑ دیا گیا، شاید ان کی بھینی خوشبوؤں کے باعث۔

مقابلہ تو میدان میں موجود 22 کھلاڑیوں کے درمیان تھا لیکن ان کے گرد موجود 22 ہزار افراد ہر گیند میں شامل تھے، گرنے والی ہر وکٹ اور لگنے والے ہر شاٹ پر خوشیاں بھی منائی جاتیں اور آوازے بھی کسے جاتے۔ باؤنڈری پر موجود ٹیم انڈیا کے فیلڈرزبھی تماشائیوں کو اشارے کر رہے تھے۔ "گجر گجر" اور "ہیرو ہیرو" کے نعروں کا جواب دھاون نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر دیا، اور جب بادل ایک مرتبہ پھر برسنے لگے تو انہوں نے آسمان کی طرف ایسے اشارہ کیا جیسے وہ بادلوں کو ہٹا کر دھوپ واپس لانا چاہ رہے ہیں۔

جذباتی نعروں کا خاتمہ "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے" سے ہوا (تصویر: رائے ازلان)
جذباتی نعروں کا خاتمہ "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے" سے ہوا (تصویر: رائے ازلان)

جس طرح کا کھیل ٹیم پاکستان نے پیش کیا، وہ مضحکہ خیز کرکٹ تو اندھوں کو بھی نظر آ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوست نے اسے پاک-بھارت مقابلے کے بجائے بھارت بمقابلہ بارش میچ قرار دیا، کیونکہ یہ بارش ہی تھی جو بھارتی کھلاڑیوں اور ان کے تماشائیوں کے لیے پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ پریشان کن تھی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف نعرے اور آوازے لگا رہے تھے بارش کے دوران ایک ہی چھتری تلے دکھائی دیے۔ لیکن جذباتی تماشائیوں کی موجودگی الفاظ اور نعروں کے تبادلے کا باعث بنی رہی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ زبانی کلامی جنگ بڑھتی جا رہی تھی، اور اس کا خاتمہ مشترکہ طور پر "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے" کرگا کر ہوا۔ جب شعیب ملک کھیلنے کے لیے آئے تو پاکستانی صفوں سے "جیجو جیجو" کے نعرے فضاؤں میں بلند ہوئے؛ جبکہ دوسری جانب خاموشی تھی یا جواب دینے کی ناکام کوششیں۔

جب دھاون کے آؤٹ ہونے کے بعد بارش نے کھیل روک دیا ، تو ہمارے گروپ نے واپس چلنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اگر بارش نہ رکی تو مقابلہ نہیں ہوگا اور اگر رک بھی گئی تو کھیل میں دیکھنے کے قابل کوئی چیز بچی نہ تھی۔ جب ہم کار پارکنگ کی جانب واپس جانے لگے تو میں نے اندازہ لگایا کہ میری طرح پاکستانی تماشائیوں کی اکثریت افسردہ اور دل شکستہ تھی۔

میں ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ جب لوگوں کی پسندیدہ ٹیم ہارنے لگتی ہے تو وہ میدان کیوں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس دن میں نے اس سوال کا جواب پایا، کم از کم یہ مفروضہ پاک-بھارت مقابلوں تک تو درست ہی ہے، وجہ ہے آخر میں تند و تیز الفاظ کا تبادلہ اور تماشائیوں کے جھگڑے، جب جذبات اس جگہ پر پہنچ جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک کھیل نہیں۔

یہ تھا میرا ایجبسٹن کرکٹ گراؤنڈ تک کا سفر اور تاحیات یاد رہنے والا تجربہ۔ ہم مقابلہ ہار گئے لیکن میں نے جو وقت وہاں گزارا اس کا کوئی ثانی نہیں اور کوئی مول نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ میں کرکٹ کی اس جنگ عظیم یعنی پاکستان بمقابلہ بھارت میچ کو دوبارہ کبھی دیکھ بھی پاؤں گا یا نہیں۔

یوں اس مقابلے کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی میں پاک بھارت مقابلوں کے سلسلے کا خاتمہ ہوا۔ گو کہ بھارت نے آخری مقابلہ جیت لیا لیکن ماضی بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی 2004ء اور 2009ء کی فتوحات کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا اور نہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایک برا دن اور ایک بری کارکردگی حقیقت کو نہیں بدل سکتی کیونکہ سر ویوین رچرڈز نے کہا تھا کہ "ایک برا دن پورا سیزن نہیں ہے"۔


Pakistani and Indian Fans at Edgbaston from Rai M Azlan Shahid on Vimeo.