محمد عامر پر پابندی میں کوئی کمی نہیں ہونے والی

2 1,207

پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینل گو کہ میدان عمل میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت گزار چکے ہیں، جو اداروں کےلیے کافی بڑی عمر ہے لیکن ایسا لگتا ہے وہ ذہنی بلوغت کے اعتبار سے اب بھی نیم پختہ ہیں۔ ذرا محمد عامر والے معاملے کو لیجیے، بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے بارہا سزا میں تخفیف نہ کرنے کے اعلان کے باوجود آئے روز ایسا کوئی شوشہ ان ٹی وی چینلوں سے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ گویا پاکستان کرکٹ کا 'نجات دہندہ' میدا ن میں کل ہی قدم رکھ دے گا۔

ذرائع ابلاغ پر محمد عامر کی سزا میں متوقع کمی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے (تصویر: AFP)
ذرائع ابلاغ پر محمد عامر کی سزا میں متوقع کمی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے (تصویر: AFP)

بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے حال ہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے کرنے کا کام تو کچھ اور ہے لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس کمیٹی پر یہ الزام تھوپ دیا کہ وہ انسداد بدعنوانی قوانین میں تبدیلی کرے گی، اور کم از کم سزا کے قانون میں تو ضرور تبدیلی لائے گی اور یوں محمد عامر پاکستان کی نمائندگی کو موجود ہوں گے۔ یا للعجب!

حقیقت یہ ہے کہ انسداد بدعنوانی یعنی اینٹی کرپشن کے قوانین میں چنداں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہونے جا رہی بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ایک 'بے ضرر' سا مطالبہ کیا گیا ہے کہ محمد عامر کو پابندی کے خاتمے سے سات، آٹھ ماہ قبل تربیت شروع کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ جب ستمبر 2015ء میں ان پر عائد پابندی مکمل ہو تو وہ بین الاقوامی کرکٹ میں اترنے کو تیار ہوں۔

محمد عامر اس وقت کسی بھی سطح کی کرکٹ نہیں کھیل سکتے یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اکیڈمی میں بھی داخل نہیں ہو سکتے اور پی سی بی کا مطالبہ محض اتنا ہے کہ اسے فروری یا مارچ 2015ء میں پی سی بی اکیڈمی میں پیشہ ور ماہرین کی زیر نگرانی تربیت کے آغاز کی اجازت دی جائے تاکہ وقت آنے پر وہ مکمل فٹ ہو اور ایسا نہ ہو کہ پابندی کے خاتمے کے بعد اسے میدان عمل میں لانے میں مزید 8 سے 10 مہینے لگ جائیں۔ اب پانچ رکنی کمیٹی صرف اس امر پر غور کرے گی کہ سزا میں یہ نرمی کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

محمد عامر اگست 2010ء میں اس وقت اسپاٹ فکسنگ تنازع کی زد میں آ گئے تھے جب برطانیہ کے مصالحہ اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' نے بھانڈا پھوڑا کہ نوجوان تیز باؤلر اور اس وقت کے کپتان سلمان بٹ اور دوسرے باؤلر محمد آصف نے جان بوجھ کر نو بالز پھینک کر سٹے باز مظہر مجید سے پیسے بٹورے ہیں۔ بعد ازاں آئی سی سی نے تینوں کھلاڑیوں پر طویل پابندیاں عائد کیں جبکہ برطانیہ میں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کا الگ مقدمہ تینوں کے لیے قید کی سزاؤں کا بھی باعث بنا۔

ستمبر 2015ء میں بھی محمد عامر کی عمر محض 23 سال ہوگی۔لیکن ان کی واپسی پر ایک اخلاقی سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا محمد عامر کو پاکستان کی دوبارہ نمائندگی کا موقع دیا جانا چاہیے؟ یا انہیں نوجوان کھلاڑیوں کے لیے نشان عبرت بنانا چاہیے کہ فکسنگ جیسی قبیح حرکت میں ملوث کھلاڑی کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا چاہے وہ عامر جیسا باصلاحیت کھلاڑی ہی کیوں نہ ہو۔