دورۂ ویسٹ انڈیز کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان، انقلابی تبدیلیوں کی توقعات پر پانی پھر گیا

2 1,061

چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست کے بعد ٹیم میں انقلابی تبدیلیوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے کلیدی عہدوں پر نئی شخصیات کے تعین کے بعد تو یہ امیدیں مزید بڑھ گئی تھیں لیکن آج دورۂ ویسٹ انڈیز کے لیے ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی ان تمام توقعات پر پانی پھر گیا، کیونکہ دورے کے لیے اعلان کردہ ٹیم میں وہی پرانے چہرے ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپس آئے ہیں اور منصوبہ بندی کا وہی فقدان نظر آتا ہے جو انگلستان کے لیے روانگی سے قبل تھا۔

شاہد آفریدی، عمر اکمل اور احمد شہزاد تینوں کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی دونوں ٹیموں میں شامل کیا گیا ہے (تصویر: Getty Images)
شاہد آفریدی، عمر اکمل اور احمد شہزاد تینوں کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی دونوں ٹیموں میں شامل کیا گیا ہے (تصویر: Getty Images)

محض چند کھلاڑیوں کو باہر کا راستہ دکھا کر ظاہراً لیپاپوتی کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیم میں اب بھی وہی کمزوریاں موجود ہیں جو حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں تھیں اور یہ دستہ کسی طرح بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء اور عالمی کپ 2015ء کی تیاریوں میں معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کو کم از کم ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں تجربات کی ضرورت ہے، جیسا کہ دنیا کی تمام بڑی ٹیمیں کر رہی ہیں۔ انگلستان سے لے کر آسٹریلیا تک اور جنوبی افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک تمام ٹیموں نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کو نرسری بنا رکھا ہے جہاں سے وہ کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ دے رہی ہیں اور پھر ان سے فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا لگتا ہے سب کھلاڑی 'ہر فن مولا' ہیں یعنی تمام طرز کی کرکٹ میں چست۔ محمد عرفان کو لے لیں، جن کے کیریئر کا آغاز ہی اتنی تاخیر سے ہوا ہے کہ پاکستان کو انہیں بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن وہ حالیہ دورۂ جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ ٹیم کا بھی حصہ تھے، چیمپئنز ٹرافی میں ون ڈے کا بھی اور آنے والے دورۂ ویسٹ انڈیز میں ٹی ٹوئنٹی کا بھی۔ یہی معاملہ جنید خان کا بھی ہے اور خدانخواستہ کوئی بھی انجری انہیں طویل عرصے کے لیے ٹیم سے باہر کر سکتی ہے۔

بہرحال، سب سے اہم خبر شاہد خان آفریدی کی 'ایک مرتبہ پھر' ٹیم میں واپسی کی ہے۔ انہیں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی دونوں دستوں میں شعیب ملک کی جگہ شامل کیا گیا ہے ۔ اگر کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو شاہد آفریدی کی شمولیت سب سے حیران کن امر ہے کیونکہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں 57.13 کے اوسط سے صرف 15 وکٹیں حاصل کر سکے ہیں جبکہ بیٹنگ میں بھی ان کا اوسط صرف 19.25 ہے۔ شعیب ملک بھی ایسی ہی کارکردگی دکھا رہے تھے، جس کو بنیاد بنا کر انہیں ٹیم سے باہر کی راہ دکھائی گئی ہے تو ان کی جگہ شاہد آفریدی کو بلا کر ٹیم کے لیے کوئی خیر خواہی نہیں دکھائی گئی۔ ہم امید تو یہی رکھتے ہیں کہ وہ ٹیم کے لیے اچھی کارکردگی دکھائیں لیکن بظاہر چہرے کی تبدیلی سے کوئی طویل المیعاد "خیر" برآمد ہونے کی توقع نہیں۔

لاہور میں ٹیم کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا جس میں چیف سلیکٹر اقبال قاسم کے ساتھ دونوں طرز کی ٹیموں کے کپتان مصباح الحق اور محمد حفیظ اور ہیڈ کوچ ڈیو واٹمور بھی موجود تھے۔ اس موقع پر مصباح الحق نے شاہد آفریدی کی شمولیت کا کسی حد تک دفاع بھی کیا کہ ویسٹ انڈیز میں وکٹیں انگلستان کے مقابلے میں بالکل مختلف ہوں گی اور دھیمی وکٹوں پرشاہد آفریدی کافی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ ساتویں نمبر پر وہ ایک مستند بلے باز بھی ہیں۔ البتہ مصباح کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ شاہد آفریدی بہرصورت حتمی ٹیم کا حصہ بنیں، حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی انہیں کھلایا جائے گا۔

علاوہ ازیں وکٹ کیپر کامران اکمل کو خارج کر کے پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان محمد رضوان کو طلب کیا کیا گیا ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ رضوان 35 فرسٹ کلاس میچز میں 44 سے زیادہ کا شاندار اوسط بھی رکھتے ہیں اور وکٹوں کے پیچھے 122 شکار بھی کر چکے ہیں۔ اس شمولیت کو خوش آئند ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ روش درست نہیں کہ کامران اکمل کے بعد جب بھی موقع دیا جائے کسی نئے وکٹ کیپر ہی کو بلایا جائے۔ جیسا کہ ایک بار محمد سلمان کو بلایا گیا، کبھی سرفراز احمد تو کبھی عدنان اکمل ، کم از کم ان میں سے کسی ایک پر اتفاق کیا جائے اور پھر اسے کچھ عرصے تک مواقع دیے جائیں بجائے اس کے کہ ایک سیریز کے بعد پھر کامران اکمل کو طلب کرلیا جائے۔

ایک روزہ ٹیم میں تیسری تبدیلی عمران فرحت کے اخراج کے باعث ہوئی، جن کی جگہ متوقع طور پر احمد شہزاد کو دی گئی ہے۔19 ایک روزہ مقابلوں میں 26 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 477 رنز بنانے والے احمد شہزاد بلاشبہ پاکستان کا مستقبل ہیں لیکن ان کو بارہا اندر باہر کیا گیا ہے۔ احمد شہزاد نے پہلا بین الاقوامی مقابلہ اپریل 2009ء میں کھیلا تھا اور اس کے بعد سے اب تک انہیں صرف 19 ایک روزہ اور 11 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع دیا گیا ہے۔ اب انہیں ایک مرتبہ پھر طلب کیا گیا ہے اور اگر انہوں نے بہتر کارکردگی نہ دکھائی تو وہی ہونا متوقع ہےجو پہلے ہوتا رہا ہے۔

باؤلنگ کے شعبے میں زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ عمر گل گھٹنے کی سرجری کے بعد مکمل صحت یاب نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں ہیں جبکہ بقیہ باؤلنگ اٹیک تقریباً وہی ہے جس نے حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں توقعات کے مطابق نہ سہی لیکن بیٹنگ لائن اپ کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی دکھائی۔

ٹیم میں ایک اہم شمولیت عمر اکمل کی ہے، جن کی کمی پاکستان کو انگلستان میں شدت سے محسوس ہوئی لیکن اس مرتبہ انہیں ایک اضافی ذمہ داری کے ساتھ ٹیم میں واپس لیا گیا ہے۔ وہ ٹی ٹوئنٹی مرحلے میں وکٹوں کے پیچھے بھی فرائض انجام دیں گے اور عین ممکن ہے کہ محمد رضوان کو موقع نہ ملنے کی صورت میں ون ڈے میں بھی انہیں وکٹ کیپر بننا پڑے کیونکہ بقول چیف سلیکٹر اقبال قاسم کہ انہیں وکٹ کیپر بیٹسمین کی حیثیت سے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی میں تو شاید عمر اکمل وکٹ کیپنگ کا بوجھ برداشت کرلیں، لیکن ون ڈے میچز میں انہیں وکٹوں کے پیچھے اضافی ذمہ داری دینا ان کی بیٹنگ پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ محمد رضوان اچھے بلے باز ہیں، بجائے اس کے کہ عمر اکمل دونوں کام بہتر انداز میں نہ کرسکیں اور اپنے لیے مسائل کھڑے کرلیں، رضوان کو مواقع دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے دورۂ ویسٹ انڈیز کا باضابطہ آغاز 14 جولائی کو پہلے ون ڈے مقابلے سے ہوگا۔ 5 میچز کا یہ مرحلہ 24 جولائی تک جاری رہے گا جس کے بعد پاکستان 27 اور 28 جولائی کو سینٹ ونسنٹ میں دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گا۔

دورۂ ویسٹ انڈیز کے لیے پاکستان کی اعلان کردہ ٹیمیں یہ ہوں گی:

ایک روزہ: مصباح الحق (کپتان)، احمد شہزاد، اسد شفیق، اسد علی، جنید خان، حارث سہیل، سعید اجمل، شاہد آفریدی، عبد الرحمٰن، عمر اکمل، عمر امین، محمد حفیظ، محمد رضوان، محمد عرفان، ناصر جمشید اور وہاب ریاض۔

ٹی ٹوئنٹی: محمد حفیظ (کپتان)، احمد شہزاد، اسد علی، جنید خان، حارث سہیل، حماد اعظم، ذوالفقار بابر، سعید اجمل، سہیل تنویر، شاہد آفریدی، عمر اکمل، عمر امین، محمد عرفان، ناصر جمشید اور وہاب ریاض۔