[ریکارڈز] 'آخری سپاہی' آشٹن ایگر نے آتے ہی ریکارڈز توڑ دیے

2 1,048

ٹرینٹ برج میں ایشیز 2013ء کے پہلے ٹیسٹ سے قبل جب آسٹریلیا نے آشٹن ایگر کی ٹیم میں شمولیت کا اعلان کیا تو اس نے شائقین حتیٰ کہ ماہرین تک کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ایک 19 سالہ بچہ،جس کا تجربہ بھی محض 10 فرسٹ کلاس میچز کا ہے، کی جگہ اس آسٹریلوی ٹیم میں کس طرح بنتی ہے جو اس وقت نازک ترین مرحلے سے گزر رہی ہے۔ آسٹریلیا کی حالیہ کارکردگی کو مدنظر رکھیں تو خود آسٹریلوی شائقین کو بھی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات نہیں ہیں لیکن آشٹن ایگر نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کے محض دوسرے دن ریکارڈ ساز کارکردگی کے ذریعے اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا اور آسٹریلیا کو امید کی کرن دکھلا دی۔

آشٹن ایگر بدقسمتی سے سنچری مکمل نہ کر سکے، لیکن آخری بلے باز کی طویل ترین اننگز کا ریکارڈ ضرور بنایا (تصویر: Getty Images)
آشٹن ایگر بدقسمتی سے سنچری مکمل نہ کر سکے، لیکن آخری بلے باز کی طویل ترین اننگز کا ریکارڈ ضرور بنایا (تصویر: Getty Images)

حیران کن طور پر آشٹن ایگر کا یہ کارنامہ گیند سے نہیں بلکہ بلّے سے ہے۔ اک ایسے موقع پر جب 117 رنز پر اپنی 9 وکٹیں گرنے کے بعد آسٹریلیا کا انگلستان کو پہلی اننگز میں 215 رنز پر آؤٹ کرنے کا نشہ ہرن ہو چکا تھا ، آشٹن ایگر نے فلپ ہیوز کے ساتھ مل کر آخری وکٹ پر ریکارڈ طویل ترین شراکت داری بھی بنائی اور انفرادی طور پر کسی بھی گیارہویں نمبر کے کھلاڑی کی جانب سے طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔

جب انگلش باؤلرز مقابلے پر مکمل طور پر حاوی تھے، انہوں نے صرف 9 رنز کے اضافے سے آسٹریلیا کی پانچ وکٹیں کھڑکا دی تھیں، ایک 19 سالہ نوجوان گلے کی ہڈی بن جائے گا، یہ بات تو خود انگلش باؤلرز کے لیے ناقابل یقین تھی۔

ایگر کی اننگز خوبصورت شاٹس کا مجموعہ تھی۔ ابتداء میں تو فلپ ہیوز کوشش کر رہے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گیندوں کا خود سامنا کریں، اور رنز بنانے کی رفتار بڑھائیں کہ نجانے کس لمحے وہ گیند آ جائے جو آسٹریلیا کی اننگز کی بساط لپیٹ دے۔ لیکن کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے آشٹن ایگر کو 'ہلکا' لے لیا ہے۔ ایگر نے 50 گیند پر اپنی نصف سنچری مکمل کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا لیکن ابھی آسٹریلیا کے لیے کافی کام باقی تھا۔ اسے اپنے باؤلرز کی بہترین کارکردگی کو ضایع ہونے سے بچانا تھا اور دونوں بلے بازوں نے اس فریضے کو بہ احسن و خوبی انجام دیا۔

فلپ ہیوز اور آشٹن ایگر کے درمیان دسویں وکٹ پر 163 رنز کی شراکت داری نے نیا عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ ان دونوں نے نیوزی لینڈ کے برائن ہیسٹنگز اور رچرڈ کولنج کا 151 رنز کی شراکت داری کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ پاکستان کے اظہر محمود اور مشتاق احمد نے بھی 1997ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف آخری وکٹ پر 151 رنز کی ساجھے داری کی تھی۔ یوں یہ مشترکہ ریکارڈ آج آسٹریلیا کے پاس چلا گیا۔

آخری وکٹ پر طویل ترین ٹیسٹ شراکت داریاں

بلے باز ملک رنز بمقابلہ بتاریخ بمقام
فلپ ہیوز اور آشٹن ایگر آسٹریلیا آسٹریلیا 163 انگلستان انگلستان 2013ء ناٹنگھم
برائن ہیسٹنگز اور رچرڈ کولنج نیوزی لینڈ نیوزی لینڈ 151 پاکستان پاکستان 1973ء آکلینڈ
اظہر محمود اور مشتاق احمد  پاکستان پاکستان 151 جنوبی افریقہجنوبی افریقہ 1997ء راولپنڈی
دنیش رامدین اور ٹینو بیسٹ ویسٹ انڈیز ویسٹ انڈیز 133 انگلستان انگلستان 2012ء برمنگھم
وسیم راجہ اور وسیم باری پاکستان پاکستان 133 ویسٹ انڈیز ویسٹ انڈیز 1977ء برج ٹاؤن

آشٹن ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سنچری بنانے والے پہلے نمبر 11 کھلاڑی بننے والے تھے کہ 'اینٹی کلائمیکس' ہو گیا۔ 98 رنز تو بن گئے، لیکن وہ دو رنز نہ بن سکے جو انہیں اس مقام پر پہنچاتے جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچا تھا۔ اسٹورٹ کی ایک اٹھتی ہوئی گیند کو مڈوکٹ کی راہ دکھانے کی کوشش مہنگی ثابت ہوئی اور گریم سوان کے خوبصورت کیچ نے نوجوان کھلاڑی کے ارمان پورے نہ ہونے دیے۔ 101 گیندوں پر 12 چوکوں اور 2 چھکوں سے مزید اننگز اپنے اختتام کو پہنچی اور میدان میں موجود تماشائیوں کو کھڑے ہوکر داد دینے پر مجبور کر گئی۔

اس بدقسمتی کے باوجود یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کسی بھی نمبر گیارہ بلے باز کی طویل ترین اننگز تھی۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے ٹینو بیسٹ کے پاس تھا جنہوں نے گزشتہ سال انگلستان کے خلاف 95 رنز کی بہترین اننگز کھیلی تھی۔

گیارہویں کھلاڑی کی طویل ترین اننگز

بلے باز ملک رنز بمقابلہ بمقام بتاریخ
آشٹن ایگر آسٹریلیا آسٹریلیا 98 انگلستان انگلستان ناٹنگھم 2013ء
ٹینو بیسٹ ویسٹ انڈیز ویسٹ انڈیز 95 انگلستان انگلستان برمنگھم 2012ء
ظہیر خان بھارت بھارت 75 بنگلہ دیش بنگلہ دیش ڈھاکہ 2004ء
رچرڈ کولنج نیوزی لینڈ نیوزی لینڈ 68* پاکستان پاکستان آکلینڈ 1973ء
البرٹ ووگلر جنوبی افریقہ جنوبی افریقہ 62* انگلستان انگلستان کیپ ٹاؤن 1906

دوسرے اینڈ پر کھڑے ہیوز 81 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ انہوں نے 131 گیندوں کا سامنا کیا اور 9 چوکے لگائے۔ ان دونوں کی بہترین بلے بازی کی بدولت آسٹریلیا کا پہلی اننگز کا مجموعہ 280 رنز تک پہنچا اور اسے انگلستان پر 65 رنز کی برتری حاصل ہوئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آسٹریلیا پہلی اننگز میں باؤلرز کی عمدہ کارکردگی اور پھر 'آخری سپاہی ' کی جراتمندانہ اننگز کا فائدہ آگے بھی اٹھاپاتا ہے یا نہیں، جبکہ انگلستان کے لیے بھی موقع ہے کہ وہ پہلی اننگز کی کارکردگی کے صدمے سے نکل آئے اور غیر متوقع نتیجہ نہ آنے دے۔