[باؤنسرز] کارکردگی کا تسلسل قائم ہے!

3 1,033

سب سے پہلے شاہد آفریدی کو مبارکباد جنہوں نے ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے ون ڈے میں ’’سیون اسٹار‘‘ پرفارمنس دکھاتے ہوئے شاندار انداز سے قومی ٹیم میں واپسی کی جس کے بارے میں سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ 350میچز کے کیریئر میں یہ شاہد آفریدی کی سب سے بہتر پرفارمنس ہے البتہ یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ ایک میچ میں دونوں شعبوں میں یکساں طور پر شاندار کارکردگی دکھانے کیلئے شاہد آفریدی کو ساڑھے تین سو میچز کا انتظار کرنا پڑا۔

مسلسل ناکامی کے باوجود حفیظ اپنا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے یا باہر بیٹھنے پر تیار نہیں (تصویر: WICB)
مسلسل ناکامی کے باوجود حفیظ اپنا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے یا باہر بیٹھنے پر تیار نہیں (تصویر: WICB)

ماضی میں بھی ٹیم میں کم بیک کرتے ہوئے شاہد آفریدی کی پرفارمنس عمدہ رہی ہے جنہوں نے مجموعی طور پر آٹھویں مرتبہ کم بیک کرتے ہوئے سات اننگز میں چار نصف سنچریاں اسکور کی ہیں جبکہ باؤلنگ کے شعبے میں آفریدی نے دو مرتبہ میچ میں پانچ یا زائد وکٹوں کا کارنامہ انجام دیا ہے مگر شاہد آفریدی اپنی ایسی لاجواب کارکردگی میں تسلسل لانے میں ناکام رہتے ہیں جس کا ثبوت اسی سیریز کے اگلے میچ میں شاہد آفریدی کی ناکامی ہے۔شاہد آفریدی بھلے اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار نہیں رکھ پارہے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں تسلسل برقرار ہے جس نے اپنی کارکردگی کے سلسلے کو وہیں سے جوڑا ہے جہاں سے یہ سلسلہ چیمپئنز ٹرافی میں منقطع ہوا تھا اور قومی ٹیم میں کی جانے والی تبدیلیاں بھی گرین شرٹس کی کارکردگی میں بہتری نہیں لاسکیں۔سیریز کے پہلے میچ میں اگر پاکستانی ٹیم نے کامیابی حاصل کی تو وہ شاہد آفریدی کے ون مین شو کی مرہون منت تھی کیونکہ اس میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن ناکامی کا شکار ہوئی تھی اور اگر 5/47کی صورتحال پر مصباح الحق اور شاہد آفریدی وکٹیں گرنے کا سلسلہ نہ روکتے تو پاکستانی ٹیم کیلئے شکست سے بچنا مشکل ہوسکتا تھا ۔

دوسرے میچ کی اگر بات کریں تو یہاں بھی پاکستانی باؤلرز نے بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے ہوم ٹیم کو 232تک محدود کیا مگر جواب میں پاکستانی بیٹسمین ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرسکے جنہوں نے اپنی اننگز کا آغاز تو اچھے طریقے سے کیا لیکن وہ بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔احمد شہزاد کو دو برس بعد ون ڈے ٹیم میں واپسی کا موقع ملا ہے لیکن سیریزکے ابتدائی دونوں میچز میں احمد شہزاد کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر ایسا نہیں لگا کہ یہ نوجوان 26 ماہ قومی ٹیم سے دور گزارنے کے بعد اپنی جگہ پکی کرنے کیلئے پر عزم ہے۔

چیمپئنز ٹرافی کی ناکامی ویسٹ انڈیز میں بھی محمد حفیظ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی، جو مسلسل ناکام ہونے کے باوجود اپنا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے یا باہر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔اسد شفیق کو پاکستان کرکٹ کا مستقبل قرار دیا جاتا ہے مگر یہ نوجوان بھی حالیہ عرصے میں اپنے اصل مقام سے دور نظر آیا ہے۔ ناصر جمشید نے بھارت کے خلاف سیریز میں دھماکہ خیز کارکردگی دکھائی تھی مگر دیگر بیٹسمینوں کی خراب کارکردگی کے باعث جارح مزاج اوپنر کو بھی اپنا کھیل تبدیل کرنا پڑ گیا ہے جو قدرتی انداز سے کھیلنے کی بجائے وکٹ پر پھنس کر کھیلنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی انداز کے سبب ناصر جمشید پر بھی سست روی سے کھیلنے کا الزام لگنا شروع ہوگیا ہے جس نے دوسرے ون ڈے میں 93گیندوں پر50رنز بنائے۔

مصباح الحق کب تک اپنے کندھوں پر بیٹنگ کا بوجھ اٹھائے گا کیونکہ اب تک پوری بیٹنگ لائن مصباح الحق کے گرد گردش کرتی رہی ہے اور جس میچ میں مصباح کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑے تو اس میچ میں بیٹنگ لائن بھی تاش کے پتوں کی طرح ڈھیر ہوجاتی ہے۔

عمر اکمل نے سیریز کے پہلے دونوں میچز میں وکٹوں کے پیچھے اپنے فرائض کافی عمدگی سے انجام دیے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ کسی ‘‘اسپیشلسٹ’’ وکٹ کیپر کی بجائے وکٹ کیپنگ کے دستانے مستقل طور پر عمر اکمل کو سونپ دینے چاہیے جس نے دوسرے میچ میں ایک برق رفتار نصف سنچری بھی اسکور کی مگر 40ویں اوور میں آفریدی کے آؤٹ ہونے پر 16*پر کھیلنے والا عمر اکمل اپنی ٹیم کو کامیابی نہ دلواسکا جسے آخری دس اوورز میں 82رنز کی ضرورت تھی۔اپنے سامنے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ ہوتا دیکھنے والے عمر اکمل نے 47 ویں اوور میں تین چوکے لگا نے کے بعد اگلے اوور میں براوو کو چھکا لگا کر اپنی نصف سنچری مکمل کی مگر اگلی ہی گیند پر ایک اور چھکا لگانے کی کوشش میں عمر اکمل اپنی وکٹ گنوابیٹھا جس کے بعد فتح کی آخری امید بھی ختم ہوگئی۔ عمر اکمل کے کیرئیر میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ چھٹے نمبر پر کھیلنے والا بیٹسمین اکثر اوقات اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بن جاتا ہے کہ اننگز کے اختتامی حصے میں وہ اپنی ٹیم کو کامیابی دلوانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔عمر اکمل کو اپنی اس خامی پر قابو پانے کی ضرورت ہے جو ذرا سی محنت اور ذمہ داری کی مدد سے پاکستانی ٹیم کیلئے کامیابیوں کی ضمانت بن سکتا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چیمپئنز ٹرافی کی بدترین ناکامی کے باوجود پاکستانی ٹیم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ٹیم میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اس ٹیم کی تقدیر نہیں بدل سکیں۔پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری صرف کھلاڑی تبدیل کرنے سے نہیں آسکتی بلکہ کھلاڑیوں کی اپروچ بدلنے کی ضرورت ہے جو ناکامیوں سے سمجھوتہ کرچکے ہیں اور کچھ رنز بنا کر وہ ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔کھلاڑیوں کی اس بزدلانہ سوچ کے باعث پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی کا تسلسل برقرارہے۔اس تسلسل کو توڑنے کیلئے کھلاڑیوں کو میدان کے اندر بے خوفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اگلے میچز میں کپتان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہوگا کہ وہ ان کھلاڑیوں میں مثبت سوچ اور بہادرانہ اپروچ بیدار کرے۔