پاکستانی نوجوان کرکٹرز کی پرواز رُک کیوں جاتی ہے؟

5 1,059

ایشز سیریز میں لارڈز ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں جب نوجوان انگلش اوپنر جو روٹ نے 180رنز کی اننگز کھیل کر ہوم ٹیم کی فتح کا سامان کیا تو یہ 22سالہ بیٹسمین لارڈز کے تاریخی میدان پر آسٹریلیا کے خلاف سب سے بڑی اننگز کھیلنے والا انگلش اوپنر بن چکا تھا۔ ریکارڈ ساز کارکردگی دکھانے والے روٹ کو انگلش ٹیم کا حصہ بنے زیادہ عرصہ نہیں ہوا جو 2012-13ء کے سیزن میں بھارت کے ٹور پر انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہوا تھا مگر چند مہینوں کے دوران یہ ہاتھ کا بیٹسمین انگلش ٹیم کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔

جونیئر ورلڈ کپ 2010ء میں شریک ایک کھلاڑی لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف سب سے بڑی اننگز کھیل جاتا ہے، اور اسی ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے پاکستانی کھلاڑیوں کا اب تک بین الاقوامی سطح پر کوئی نام و نشان نہیں (تصویر: Getty Images)
جونیئر ورلڈ کپ 2010ء میں شریک ایک کھلاڑی لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف سب سے بڑی اننگز کھیل جاتا ہے، اور اسی ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے پاکستانی کھلاڑیوں کا اب تک بین الاقوامی سطح پر کوئی نام و نشان نہیں (تصویر: Getty Images)

اگر ریکارڈز کھنگال کر دیکھیں تو یہ نوجوان 2010ء کے جونیئر ورلڈ کپ میں انگلش ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ گیا تھا جہاں وہ چھ اننگز میں صرف ایک نصف سنچری ہی بنا سکا جبکہ اس ایونٹ میں پاکستان کے بابر اعظم نے 298رنز بنا کر بیٹنگ ٹیبل پر تیسرا نمبر حاصل کیا تھا۔حماد اعظم نے فتح گر اننگز کھیلتے ہوئے اپنی آل راؤنڈ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔'کھبے' پیسر فیاض بٹ نے 9وکٹیں لے کر پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا جس کا نام بھی شاید لوگوں کو یاد نہ ہو۔اس کے علاوہ رضا حسن اور عثمان قادر نے بھی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔جونیئر لیول پر پاکستانی کھلاڑی انگلش بیٹسمین جو روٹ سے کہیں زیادہ باصلاحیت دکھائی دے رہے تھے اور ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ میں ان کی کارکردگی بھی ان کی صلاحیتوں کا ثبوت تھا مگر یہ تمام پاکستانی کھلاڑی قومی ٹیم میں جگہ حاصل کرنے کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں یا سینئر ٹیم میں چند دن گزارنے کے بعد اب واپسی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔

آج یہ کالم لکھنے سے قبل بھارتی ٹیم دورہ زمبابوے کے ابتدائی دو مقابلے کھیل چکی ہے جس کے ابتدائی میچ میں کپتان ویراٹ کوہلی نے اپنے ون ڈے کیریئر کی 15 ویں سنچری اسکور کی۔ ویراٹ کوہلی کی غیر معمولی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے جہاں ایک جانب خوشی ہوتی ہے کہ 2008ء کے جونیئر ورلڈ کپ میں بھارت کی کپتانی کرنے والا کوہلی پانچ سال بعد ناصرف بھارتی ٹیم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بھارت کی کپتانی بھی کوہلی کے قدموں میں آچکی ہے مگر دوسری جانب 2008ء کے اسی ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑی کوہلی سے بہت پیچھے ہیں جو انڈر 19 ورلڈ کپ میں صلاحیت اور کارکردگی کے اعتبار سے پاکستانی کھلاڑیوں احمد شہزاد، عمر اکمل اور عمر امین سے کافی پیچھے تھا۔

اگر یہ پاکستانی کھلاڑی کم عمری میں بہت زیادہ باصلاحیت تھے تو پھر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے اور نیشنل اکیڈمی میں تربیت پانے کے بعد ان کی صلاحیتیں پالش کیوں نہیں ہوسکیں؟ کیا وجہ ہے کہ ایج گروپ کرکٹ میں واجبی سی کارکردگی اور ٹیلنٹ کا حامل ایک انگلش کھلاڑی ان سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہے؟اگر ایسی نشوونما زمبابوے ،بنگلہ دیش یا کسی ایسوسی ایٹ ملک کے کھلاڑی کی ہوئی ہوتی تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاسکتا تھا کہ کمزور ٹیموں میں قدرے بہتر کھلاڑی کی آمد آسان ہوجاتی ہے مگر ایسی بات انگلینڈ کی ٹیم کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی جو اس وقت عالمی کرکٹ کی سرفہرست ٹیموں میں سے ایک ہے اور اس ٹیم میں کسی نوجوان کھلاڑی کا جگہ بنانا 'لوہے کے چنے چبانے' کے مترادف ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانی نوجوان کھلاڑی ابھی تک جدوجہد میں مصروف ہیں۔

2004ء اور 2006ء میں پاکستان کی جونیئر ٹیم نے مسلسل دو انڈر 19 ورلڈ کپ جیتے تھے جو نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا ایک اور ثبوت تھا۔ ان ٹیموں میں کپتانوں خالد لطیف اور سرفراز احمد کے علاوہ وہاب ریاض، فواد عالم، ذوالقرنین حیدر، ریاض آفریدی، رمیز راجہ جونیئر، ناصر جمشید اور انور علی جیسے کھلاڑی شامل تھے مگر پچھلے سات آٹھ برسوں میں ان میں سے کوئی بھی کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا مستقل رکن نہیں بن سکا۔

2006ء میں انڈر19 ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا کوئی رکن قومی کرکٹ ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا پایا (تصویر: ICC)
2006ء میں انڈر19 ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا کوئی رکن قومی کرکٹ ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا پایا (تصویر: ICC)

گزشتہ دس برسوں میں کھیلے گئے پانچ جونیئر ورلڈ کپ مقابلوں میں سے پاکستان نے دو جیتے جبکہ ایک کا فائنل اور ایک کا سیمی فائنل کھیلا جس سے واضح ہوتا ہے کہ جونیئر سطح پر پاکستان کے پاس خام صلاحیت موجود ہے جو دیگر کئی ٹیموں کے مقابلے میں بہتر ہے مگر یہ کھلاڑی آنے والے عرصے میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام رہتے ہیں ۔نوجوان پاکستانی کھلاڑیوں کی مثال ایسے کم عمر پرندے کی ہے جو بلند چٹان سے بے خطر ہوا میں کود پڑتا ہے اور پر چلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی توانائی میں کمی آنا شروع ہوتی ہے تو اس کا سفر زمین کی جانب شروع ہوجاتا ہے لیکن دوسری جانب انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور بھارت جیسے ممالک میں کھلاڑیوں کو ان کی خام صلاحیت کی بنیاد پر انٹرنیشنل کرکٹ میں نہیں اتارا جاتا بلکہ ان کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ کو پالش کرکے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کے قابل بنایا جاتا ہے جہاں ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں نیشنل اکیڈمی کا شمار دنیا کی بہترین کرکٹ اکیڈمیز میں ہوتا ہے جو عمدہ ترین صلاحیتوں سے لیس ہے مگر اس اکیڈمی میں کھلاڑیوں کی خامیوں کو درست کرنے کے سوا سب کچھ ہوتا ہے۔ہر چیئرمین اس اکیڈمی کا دورہ چند ماہ کے بعد کرتا ہے ،یہاں کھلاڑیوں کو اینٹی کرپشن کے بارے میں لیکچرز دیے جاتے ہیں،کوچز کی ایک فوج ظفر موج ہر وقت موجود رہتی ہے۔اس اکیڈمی میں بہترین جم اور سوئمنگ پول موجود ہے،تربیتی کیمپ کے دوران کھلاڑیوں کے ٹھہرانے کیلئے کمرے بھی میسر ہیں لیکن یہ کھلاڑی نیشنل اکیڈمی میں کیوں آتے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے اس کا نہ کھلاڑیوں کو پتہ ہے اور نہ ہی کوچز کو اور جس کھلاڑی کو اپنی خامیاں دور کرنے کیلئے نیشنل اکیڈمی بھیجا جاتا ہے وہ کچھ عرصے بعد اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ باہر نکلتا ہے جبکہ بھاری معاوضے لینے والے کوچز صرف ’’نیٹ پریکٹس‘‘ کروانے سے زیادہ کی اہلیت نہیں رکھتے ۔

اگر گزشتہ سات آٹھ برسوں میں پاکستان کے ٹاپ بیٹسمینوں کے نام گنوائیں تو اس فہرست میں محمد یوسف، یونس خان اور مصباح الحق کے علاوہ چوتھا نام یاد نہیں آتا جبکہ اس دوران پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بیٹسمینوں کی تعداد بے شمار ہے۔ جن تین کھلاڑیوں کے اوپر نام لیے گئے ہیں وہ جونیئر کرکٹ کی نہیں بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ کی پیداوار ہیں اور ان تینوں بیٹسمینوں نے اپنی انتھک محنت سے عالمی کرکٹ میں نام بنایا جبکہ انڈر19 کرکٹ سے ابھرنے والے کھلاڑی جدوجہد کا ہی شکار دکھائی دیے کیونکہ یہ کھلاڑی اپنی خام صلاحیت کے بل پر زیادہ آگے نہ بڑھ سکے اور کوچزان کی خامیوں کو دور کرنے میں ناکام رہے۔

اب وہ وقت گزر گیا ہے جب نوجوان پاکستانی کھلاڑی خام صلاحیت کے بل پر انٹرنیشنل کرکٹ میں طویل عرصہ گزار لیتے تھے موجودہ دور میں خام صلاحیت کو نکھارنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے جس کیلئے نیشنل اکیڈمی تو موجود ہے لیکن وہاں ٹیلنٹ کو نکھارنے کا عمل ناپید ہے جس کی وجہ سے پاکستانی نوجوان کھلاڑی نہایت تیزی کے ساتھ اُڑان تو بھرتے ہیں لیکن جلد ہی اُن کی پرواز کا عمل رُک جاتا ہے۔