[باؤنسرز] دورۂ زمبابوے اور ’’سب خوش‘‘ کی پالیسی

0 1,033

’’روزانہ‘‘ کی بنیادوں پر چلنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اب ہر کوئی اپنی کرسی بچانے کیلئے ’’محتاط‘‘ رویہ اپنائے ہوئے ہے تاکہ آنے والے دنوں میں جب نئے چیئرمین کا انتخاب ہو تو وہ اپنی ٹیم منتخب کرتے ہوئے ایسے عہدیداروں پر بھی ’’نظر کرم‘‘ کردیں جو اِن دنوں سب کو خوش کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ۔ ’’عدالتی زنجیر‘‘ نے جہاں بورڈ کے سربراہ نجم سیٹھی کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں وہاں ایک ماہ کی ’’ایکسٹینشن‘‘ حاصل کرنے والی بغیر چیئرمین کی سلیکشن کمیٹی بھی خوف کے عالم میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتی جو تینوں سلیکٹرز کے ’’مستقبل‘‘ کو مخدوش کردے۔اس لیے سلیم جعفر، اظہر خان اور فرخ زمان پر مشتمل ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ سلیکشن کمیٹی نے 23دنوں تک شیڈول دورہ زمبابوے کیلئے 26 کھلاڑیوں کا انتخاب کرکے ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔

سینئر ترین کھلاڑیوں کی شمولیت سلیکشن کمیٹی کے خوف کا اظہار ہے (تصویر: AFP)
سینئر ترین کھلاڑیوں کی شمولیت سلیکشن کمیٹی کے خوف کا اظہار ہے (تصویر: AFP)

اگر حالیہ عرصے میں ٹیموں کے انتخاب کا جائزہ لیں تو خوف کا عنصر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ خوف ٹیم کی شکست کا خوف ہے۔ انڈر23کی ٹیم منتخب کرتے ہوئے سلیکٹرز نے حماد اعظم، رضا حسن، احسان عادل اور محمد رضوان جیسے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کرلیا ہے جن کی منزل یقینی طور پر پاکستانی ٹیم ہے مگر شکستوں کے خوف کے باعث سلیکٹرز نے ایمرجنگ ٹورنامنٹ کیلئے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی ہے تاکہ اس ایونٹ میں شکست کے امکان کو ختم کیا جاسکے۔ اسی طرح دورہ زمبابوے کیلئے منتخب ہونے والی ٹیم پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی یہی محسوس ہورہا ہے کہ زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے تینوں فارمیٹس کیلئے مضبوط اسکواڈ تشکیل دیے گئے ہیں ۔تینوں فارمیٹس کیلئے منتخب کیے گئے مجموعی طورپر 26کھلاڑیوں میں صرف صہیب مقصود ایسا کھلاڑی ہے جو اس سے قبل پاکستانی ٹیم میں منتخب نہیں ہوا ورنہ دیگر کھلاڑیوں میں وہی نام شامل ہیں جو حالیہ عرصے میں پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کرتے رہے ہیں ۔ صہیب مقصود کے علاوہ صرف انور علی اور خرم منظور ایسے کھلاڑی ہیں جن کی طویل عرصے کے بعد پاکستانی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے اور ان دونوں کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا سنہری موقع میسر آگیا ہے مگر ان کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں کی اکثریت کون سا تیر چلانے کیلئے زمبابوے جارہی ہے؟

اگر کوئی اَپ سیٹ نہ ہوا تو پاکستانی ٹیم باآسانی زمبابوے کو تینوں فارمیٹس میں شکست دے کر سر فخر سے بلند کرتے ہوئے وطن واپس آئے گی مگر انفرادی ریکارڈز کے علاوہ یہ فتوحات پاکستان کرکٹ کیلئے کسی طور پر بھی مددگار ثابت نہ ہوں گی بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے کا جو عمدہ موقع سلیکشن کمیٹی کو میسر آیا تھا وہ بھی خوف کی وجہ سے گنوا دیا جائے گا۔ ۔ٹیسٹ ٹیم کے لیے محمد حفیظ، یونس خان اور سعید اجمل جیسے سینئر کھلاڑیوں کی جگہ باآسانی صہیب مقصود، حارث سہیل، عمر امین جیسے نوجوان بیٹسمینوں کے ساتھ ذوالفقار بابر کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا جاسکتا تھا جبکہ اگلے برس کھیلے جانے والے ورلڈ ٹی20کے پیش نظر اس فارمیٹ میں چند نئے کھلاڑیوں کو موقع دے کر ان کی آزمائش کی جاسکتی تھی مگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکال دیا گیا ۔

زمبابوے کا یہ ٹور بے رنگ اور پھیکا ثابت ہوگا جس میں پاکستانی ٹیم کامیابی حاصل کرتے ہوئے وطن واپس آئے گی اور ایئرپورٹ پر دونوں کپتان وہی روایتی بیان دیتے دکھائی دیں گے کہ زمبابوے کو ان کے ملک میں ہرانا آسان نہ تھا ،ہم نے ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا ،فلاں فلاں کھلاڑی نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی وغیرہ وغیرہ....سلیکشن کمیٹی نے خود کو بچانے اور محفوظ کرنے کیلئے ’’سب خوش‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا ہے جس نے وقتی طور پر واقعی سب کو خوش کردیا ہے لیکن ’’سب خوش‘‘ کا یہ فارمولا مستقبل کیلئے ہرگز خوش آئند نہیں ہے اور پاکستان کرکٹ کو آگے بڑھانے اور نیا ٹیلنٹ متعارف کروانے کیلئے لازمی ہے کہ پی سی بی اور اس کی سلیکشن کمیٹی خوف کا لبادہ اتار کر بہادرانہ فیصلے کرنے کی ہمت کرے۔