[آج کا دن] بھارت کی بدترین شکستوں میں سے ایک

0 1,835

عالمی چیمپئن بننے کے بعد ٹیموں کا اعتماد بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔ صرف ایک یادگار جیت انہیں کس طرح حوصلہ دیتی ہے،اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ لیکن بھارت کے ساتھ معاملہ الٹا ہو گیا۔ عالمی کپ 2011ء جیتنے کے بعد آج ہی کے دن وہ انگلستان کے خلاف تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کے تمام مقابلوں میں اس کا دامن شکست سے داغدار ہوا اور انگلستان دنیائے کرکٹ کا نیا نمبر ایک بن کر ابھرا۔

بھارت کا دورۂ انگلستان 2011ء - چوتھا ٹیسٹ

‏18 تا 22 اگست 2011ء

دی اوول، لندن، برطانیہ

انگلینڈ ایک اننگز اور 8 رنز سے جیت گیا

سیریز ‏4-0 سے انگلینڈ کے نام

انگلینڈ (پہلی اننگز)591-6ڈ
این بیل235364سری سانتھ3-12329
کیون پیٹرسن175232سریش رینا2-5819
بھارت (پہلی اننگز) 300
راہُل ڈریوڈ146*266ٹم بریسنن3-5417
امیت مشرا4377گریم سوان3-10231
بھارت (فالو آن)283
سچن تنڈولکر91172گریم سوان6-10638
امیت مشرا84141اسٹورٹ براڈ2-4420

اوول کے تاريخی میدان میں ہونے والے سیریز کے چوتھے و آخری ٹیسٹ میں بھی بھارت کوئی مزاحمت نہ کر سکا اور ایک اننگز اور 8 رنز کی بدترین شکست کھائی۔ اس مقابلے کے مرد میدان تھے این بیل جنہوں نے شاندار ڈبل سنچری بنائی جبکہ گریم سوان نے 9 وکٹیں حاصل کر کے بھارت کی سیریز میں وائٹ واش سے بچنے کی آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا۔

این بیل اور کیون پیٹرسن کی پہلی اننگز میں 350 رنز کی شراکت داری نے بھارت کے رہے سہے ارمان بھی ختم کر دیے۔ بدقسمتی سے دونوں بلے باز تیسری وکٹ پر سب سے بڑی شراکت داری کا قومی ریکارڈ نہ توڑ سکے جو ڈینس کومپٹن اور بل ایڈرچ کے پاس ہے۔ بہرحال، پیٹرسن 175 رنز تک ہی محدود ہو گئے اور ڈبل سنچری میں داخل نہ ہو سکے۔ کیون کی یہ اننگز کتنی جامع تھی اس کا اندازہ گیندوں اور چوکوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔ 175 رنز بنانے کے لیے انہوں نے محض 232 گیندیں کھیلیں اور 27 بار گیند کو باہر کی راہ دکھائی۔ البتہ این بیل ڈبل سنچری کا سنگ میل ضرور عبور کر گئے اور 235 رنز بنانے کے بعد جیسے ہی وہ آؤٹ ہوئے انگلستان نے 591 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر پہلی اننگز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اس بھاری بھرکم مجموعے کے تعاقب میں ہندوستان کی "شہرۂ آفاق" بلے بازی ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئی۔ راہول ڈریوڈ کی 146 رنز کی مزاحمت کے علاوہ انگلش باؤلرز کو کسی بلے باز کی جانب سے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ راہول اس اننگز کی بدولت بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے کھلاڑیوں میں دوسرے نمبر پر بھی آئے اور بیٹ کیری کرنے والے تیسرے بھارتی بلے باز بھی بنے۔ لیکن ان کی یہ اننگز بھی بھارت کو فالو آن سے نہ بچا سکی۔

291 رنز کے خسارے کے بعد دوسری اننگز کا آغاز مایوس کن تھا۔ ابتدائی تین بلے بازوں کے جلد لوٹ جانے کے بعد توجہ کا مرکز سچن تنڈولکر تھے۔ انہوں نے نائٹ واچ مین امیت مشرا کے ساتھ چوتھی وکٹ پر 144 رنز جوڑ کر حریف کپتان کو پریشانی میں ڈال دیا لیکن آخری روز کھانے کے وقفے کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔

سچن اپنی سنچری مکمل نہ کر سکے اور 91 پر آؤٹ ہو گئے۔ اگر وہ تہرے ہندسے میں پہنچ جاتے تو یہ ان کے بین الاقوامی کیریئر کی 100 ویں سنچری ہوتی اور ایک بار پھر شکست خوردہ مقابلے میں بنائی گئی اننگز شمار ہوتی۔

آخری روز نئی گیند ملتے ہی انگلش گیند بازوں نے بھارت کی آخری سات وکٹوں کا صرف 21 رنز پر خاتمہ کیا اور انگلستان کو ایک تاریخی فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ 1999ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ بھارت کسی ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہوا ہو۔

بحیثیت مجموعی یہ انگلستان کے لیے ایک یادگار سیریز تھی۔ اس نے چاروں ٹیسٹ مقابلوں میں ایک لمحے بھی بھارت کو غلبہ حاصل نہ کرنے دیا ۔ بلے بازی، گیند بازی اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں انگلستان نے کمال کی کارکردگی دکھائی۔

اگر ہندوستان کے فلمی انداز کو اپنایا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سیریز میں گوروں نے درحقیقت دوگنا لگان وصول کرلیا 🙂