آسٹریلیا اور انگلستان دونوں علیم ڈار کے دشمن بن گئے

2 1,030

ایشیز سیریز کا نتیجہ تو جو بھی نکلا لیکن علیم ڈار فاتح اور شکست خوردہ دونوں ٹیموں کے رگڑے میں آ گئے ہیں۔ اوول میں ہونے والے پانچویں و آخری ٹیسٹ کو کم روشنی کی وجہ سے ختم کرنے کا اعلان کیا جب دن کے 4 اوورز کا کھیل باقی تھا اور انگلستان کو 21 رنز کی ضرورت تھی۔

اس لیے جیت کے اتنا نزدیک پہنچنے کے بعد امپائروں کی جانب سے "رنگ میں بھنگ" ڈالے جانے کے سبب انگلش میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جائلز کلارک نے کہا ہے کہ آئی سی سی کی گورننگ باڈی کا اجلاس طلب کرکے اس حوالے سے قوانین پر نظرثانی کی جائے۔ ایک ایسے لمحے پر جب میدان میں تماشائی بھرپور جوش و خروش میں تھے اور مقابلہ سنسنی خیز ترین مرحلے میں داخل ہوچکا تھا، امپائروں کا اچانک مقابلہ ختم کرنے کا اعلان مایوس کن تھا۔

صرف یہی نہیں بلکہ دوسری جانب آسٹریلیا کا ذرائع ابلاغ بھی اس لیے علیم ڈار پر غصہ اتار رہا ہے کہ انہوں نے حتمی لمحات میں مائیکل کلارک کو اپنے ہاتھ سے روکا تھا۔ دراصل شکست سامنے دیکھ کر آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک نے امپائر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کم ہوتی ہوئی روشنی پر توجہ کریں۔ جس پر علیم ڈار نے لائٹ میٹر نکالا اور کچھ دیر بعد کلارک خود لائٹ میٹر کا نتیجہ دیکھنے پہنچ گئے جس پر امپائر نے انہیں ہاتھ سے روکا کہ کچھ سمجھایا اور آسٹریلیا کے اس "شہزادے" کو ہاتھ سے روکنا ہی انہیں مہنگا پڑ گیا ہے۔

مائیکل کلارک کا کہنا ہے کہ انہوں نے علیم ڈار کی اس حرکت پر بہت شائستگی سے کہا کہ مجھے ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ اگر جواب میں میں نے ایسا کیا تو مجھ پر تین میچز کی پابندی لگ جائے گی۔

حیرت کی بات ہے کہ جن امپائروں پر میزبان انگلی اٹھا رہا ہے ان میں تین مرتبہ سال کے بہترین امپائر کا اعزاز جیتنے والے علیم ڈار کے علاوہ گزشتہ سال ڈیوڈ شیفرڈ ٹرافی کے فاتح کمار دھرماسینا شامل ہیں۔

یاد رہے کہ 2000ء میں پاک-انگلستان کراچی ٹیسٹ میں امپائروں نے دن کے اوورز باقی ہونے کی وجہ سے اندھیرا ہونے کے باوجود مقابلہ ختم نہیں کیا تھا اور جب انگلستان نے میچ جیتا اس وقت سورج غروب ہوئے ہوئے بھی کافی دیر ہو چکی تھی۔ شاید انگلستان ایک مرتبہ پھر ویسی ہی فتح حاصل کر کے چار-صفر سے ایشیز اپنے نام کرنا چاہتا تھا لیکن امپائروں کی اصول پسندی اسے ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔