[آج کا دن] میں ہوں ڈان!

2 1,203

دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ سر ڈونلڈ بریڈمین نے 1908ء میں آج ہی کے روز آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں جنم لیا۔ کرکٹ تاریخ کے بہترین بلے باز کی حیثیت سے آپ کی حیثیت مستند ہے اور اپنی زندگی میں بلے بازی کے درجنوں ریکارڈز ان کے پاس تھے بلکہ کئی ریکارڈ تو آج بھی انہی کے پاس ہیں اور کوئی بلے باز ان کو توڑ نہیں سکا جیسا کہ 99.94 کے ناقابل یقین اوسط کا ریکارڈ۔

ڈان نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز نومبر 1928ء میں انگلستان کے خلاف برسبین میں کیا اور اپنا آخری مقابلہ 1948ء میں اوول میں انگلستان ہی کے خلاف کھیلا۔ جہاں انہیں اپنی آخری اننگز میں صرف 4 رنز بنانے کی ضرورت تھی کہ ان کا اوسط 100 ہو جائے لیکن وہ صفر پر آؤٹ ہو گئے۔

اس کے باوجود ان کا اوسط ٹیسٹ بلے بازوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بلکہ اتنا زیادہ آگے ہے کہ کوئی دوسرا بلے باز ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ اگر 2 ہزار ٹیسٹ رنز کو معیار بنایا جائے تو ان کے قریبی ترین حریف جنوبی افریقہ کے گریم پولاک ہیں جنہوں نے 60.97 کے اوسط سے 2256 رنز بنائے تھے۔

‏1930ء اور 1940ء کی دہائی میں ڈان بریڈمین دنیائے کرکٹ پر چھائے ہوئے تھے۔ صرف 1930ء ہی کی سیریز میں انہوں نے 974 رنز بنا ڈالے جس میں ہیڈنگلے میں شاندار ٹرپل سنچری بھی شامل تھے جو انہوں نے ایک ہی دن میں بنائی۔ اسی بنیا دپر 1931ء میں آپ کو وزڈن کی جانب سے سال کا بہترین کھلاڑی منتخب کیا گیا۔

فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسط10050
ٹیسٹ526996334292913
فرسٹ کلاس23428067452*11711769

لیکن ڈان کا زمانہ دراصل وہی تھا جب دنیا نے اپنی تاریخ کی بدترین جنگ دیکھی۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بریڈمین کے کیریئر کے 8 قیمتی سال ضایع ہوئے۔ لیکن جیسے ہی 1946ء میں کرکٹ کا دوبارہ آغاز ہوا بریڈمین نے برسبین میں ہونے والے پہلے ہی ٹیسٹ میں 187 اور سڈنی میں دوسرے میں ٹیسٹ میں 234 رنز بنا ڈالے۔ اس کے بعد انہوں نے 1947-48ء میں بھارت کے خلاف چھ اننگز میں 4 سنچریاں جڑیں اور 1948ء میں ان کی شاندار 173 رنز کی ناقابل شکست اننگز میں آسٹریلیا نے چوتھی اننگز میں 400 سے زیادہ کا ہدف کامیابی سے عبور کیا۔ صرف جنگ کے بعد کے ایام میں کھیلے گئے 15 ٹیسٹ مقابلوں میں ڈان کا اوسط 105 تھا جس میں آٹھ سنچریاں بھی شامل تھیں۔

بریڈ مین "لمبی ریس کے گھوڑے" تھے، طویل اننگز کھیلنا ان کا خاصہ تھا۔ جس کا معمولی سا اندازہ تو ان کی سنچریوں اور نصف سنچریوں کی تعداد سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی سنچریاں 29 لیکن نصف سنچریاں صرف 13 ہیں۔ ان سنچریوں میں سے 12 ڈبل سنچریاں ہیں جو آج بھی ایک ریکارڈ ہے جبکہ دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ وہ ٹرپل سنچری تک پہنچے۔ ان کے ٹیسٹ مقابلوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1.79 ٹیسٹ مقابلے میں ان کی ایک سنچری ہے اور تواتر کے ساتھ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔

کیونکہ اس زمانے میں 5 ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز ایک عام بات تھی اس لیے بریڈمین کا کیریئر صرف 11 سیریز تک محیط تھا اور ہر سیریز میں ان کا اوسط شاندار رہا۔ ان کے کیریئر کاکم ترین سیریز اوسط 56.57 تھا جو ‏1932-33ء کی بدنام زمانہ باڈی لائن سیریز میں تھا جبکہ چار مرتبہ ان کا اوسط 100 سے زیادہ رہا اور تین مرتبہ 90 سے 100 کے درمیان ۔

ڈان کے پاس سب سے زیادہ ٹرپل اور سب سے زيادہ ڈبل سنچریوں کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے، اور کوئی کھلاڑی اب تک ان کو توڑ نہیں سکا (تصویر: Getty Images)
ڈان کے پاس سب سے زیادہ ٹرپل اور سب سے زيادہ ڈبل سنچریوں کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے، اور کوئی کھلاڑی اب تک ان کو توڑ نہیں سکا (تصویر: Getty Images)

پھر ڈان کی حیثیت ایک فتح گر کھلاڑی کی حیثیت سے بھی مسلّم ہے۔ ان کی 29 میں سے 23 سنچریاں ایسے مقابلوں میں بنائی گئیں جن میں آسٹریلیا کو فتح نصیب ہوئی جبکہ ان کے پورے عہد میں آسٹریلیا صرف ایک ایشیز سیریز ہارا ‏1932-33ء کی۔ جی ہاں! وہی سیریز جس میں انگلستان نے متنازع ترین 'باڈی لائن' باؤلنگ متعارف کروائی تھی۔ بحیثیت مجموعی انہوں نے 52 ٹیسٹ میچز کھیلے اور ان میں 29 سنچریوں اور13نصف سنچریوں کی مدد سے 99.94 کے ناقابل یقین اوسط کے ساتھ 6996 رنز بنائے۔

فرسٹ کلاس کے 234 مقابلوں میں انہوں نے 95.14 کے اوسط سے 28 ہزار سے زیادہ رنز بنائے جس میں ناٹ آؤٹ452 رنز ان کی بہترین اننگز تھی۔

اب ذرا ڈان بریڈمین کی یادگار ترین اننگز کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ جن میں ان کے اولین دورۂ انگلستان 1930ء میں لارڈز کے مقام پر بنائی گئی ڈبل سنچری کا ذکر ضروری ہے جو ڈان نے محض 21 سال کی عمر میں بنائی اور یوں وہ کم عمر ترین ڈبل سنچری ساز بن گئے۔ وہ 376 گیندوں تک کریز پر کھڑے رہے اور 25 بار گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔

اس یادگار اننگز کے صرف دو ہفتے بعد ڈان نے ہیڈنگلے، لیڈز میں ایشیز کی تاریخ کی پہلی ٹرپل سنچری بنائی۔ انہوں نے ایک ہی دن میں 309 رنز بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ انہوں نے کھانے کے وقفے کے کچھ دیر بعد انہوں نے 100 کا ہندسہ عبور کیا اور چائے کے وقفے سے قبل وہ 115 مزید رنز جوڑ چکے تھے اور دن کے آخری سیشن میں وہ 309 رنز تک جا پہنچے۔ مجموعی طور پر اس دورے میں ڈان نے 974 رنز بنائے۔ یہ ایک سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ ہے جو آج 83 سال گزرنے کے بعد بھی جوں کا توں قائم ہے۔

‏1932-33ء کی باڈی لائن سیریز میں ملبورن کے مقام پر کھیلی گئی 103 رنز کی اننگز بھی شاہکار تھی۔ وہ پہلی اننگز میں گولڈن ڈک کا شکار ہوئے تھے لیکن دوسری اننگز میں ناقابل شکست سنچری نے بعد ازاں آسٹریلیا کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہاں، یہ پانچ مقابلوں کی سیریز میں آسٹریلیا کی واحد فتح ہی تھی، باقی چاروں مقابلے انگلستان نے جیتے۔ باڈی لائن حکمت عملی کارگر تو ثابت ہوئی لیکن بدنامی ایک داغ انگلستان کے چہرے پر لگا گئی۔

ڈان کے کیریئر کی آخری سنچری ایک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ تھی جب آسٹریلیا نے 40 سالہ بریڈمین کے 173 ناٹ آؤٹ رنز کی بدولت 404 رنز کا ناقابل یقین ہدف عبور کیا۔

اگر مختلف ٹیموں کے خلاف ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اپنے زمانے کی چاروں ٹیموں کے خلاف ڈان بریڈمین کی کارکردگی شاندار تھی۔ انہوں نے سب سے زیادہ مقابلے انگلستان کے خلاف کھیلے جس میں ان کا اوسط 89.78 تھا جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف 6 اننگز میں انہوں نے 74.50 کے اوسط سے رنز بنائے۔ اس وقت کی کمزور ترین ٹیموں بھارت اور جنوبی افریقہ کے خلاف ان کا اوسط بالترتیب 178.75اور 201.50 تھا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد 1949ء میں آپ کو "سر" کا خطاب دیا گیا جبکہ 2000ء میں وزڈن نے آپ کو صدی کے پانچ بہترین کرکٹرز میں ایک منتخب کیا۔

‏25 فروری 2001ء کو ایڈیلیڈ میں سر ڈان بریڈ مین کا انتقال ہوا۔ آپ کی عمر اس وقت 92 سال سے زیادہ تھی۔