ہدف کا تعاقب اور انضمام الحق کا انوکھا ریکارڈ

1 1,271

پاکستان اور زمبابوے کے درمیان سیریز کا دوسرا ور آخری ٹیسٹ بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ چار دن کے کھیل کے اختتام پر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو جیتنے کے لیے 264 رنز کی ضرورت ہے اور اس کی پانچ وکٹیں محض 158 رنز پر گر چکی ہیں یعنی کہ اب میچ کے آخری دن اسے مزید 106 رنز کی ضرورت ہے جبکہ زمبابوے کو ایک اور تاریخی فتح حاصل کرنے اور سیریز برابر کرنے کے لیے پاکستان کی پانچ وکٹیں حاصل کرنا ہوں گی۔

پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ 1994ء؛ یہ منظر نہ کبھی انضمام بھولیں گے اور نہ کبھی این ہیلی اور شین وارن، ایک یادگار مقابلہ (تصویر: Getty Images)
پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ 1994ء؛ یہ منظر نہ کبھی انضمام بھولیں گے اور نہ کبھی این ہیلی اور شین وارن، ایک یادگار مقابلہ (تصویر: Getty Images)

کرکٹ تاریخ میں صرف تین مرتبہ ہی ایسا ہوا ہے کہ پاکستان چوتھی اننگز میں 250 سے زیادہ کا ہدف حاصل کر پایا ہو۔ پہلی بار پاکستان نے 1994ء میں کراچی میں کھیلے گئے یادگار پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ میں 314 رنز کا ہدف حاصل کیا تھا، جو تاریخ کا واحد موقع ہے جب پاکستان نے 300 سے بھی زیادہ کا ہدف حاصل کیا ہو۔ اس کے بعد 2003ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ملتان کے تاریخی ٹیسٹ میں ایک وکٹ سے جیتا جبکہ اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف ویلنگٹن میں پاکستان نے 274 رنز کا ہدف حاصل کیا۔

ایک بات جو آسٹریلیا، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف ان تینوں مقابلوں میں یکساں ہے، وہ ہے کہ سنگین صورتحال میں عظیم بلے باز انضمام الحق کی ناقابل شکست اور فیصلہ کن اننگز۔ پہلے دونوں مقابلوں میں فتح کا مارجن ہی صورتحال کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، یعنی صرف ایک وکٹ کی جیت! آسٹریلیا کے خلاف 1994ء کا کراچی ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کے سنسنی خیز ترین مقابلوں میں شمار ہوتا ہے اور معروف برطانوی امپائر ڈکی برڈ نے تو اسے اپنے کیریئر کا سب سے شاندار میچ قرار دیا ہے۔ اس میچ میں 314 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستان 258 رنز پر اپنی 9 وکٹیں گنوا بیٹھا اور اس کے بعد آخری وکٹ پر انضمام الحق اور مشتاق احمدکے درمیان 57 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی اور میچ کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوا کہ انضمام الحق شین وارن کی گیند کو آگے بڑھ کر کھیلنے کی کوشش میں ناکام ہوگئے لیکن وکٹ کیپر این ہیلی انہیں اسٹمپ نہ کرسکے اور یوں آسٹریلیا کو ان کی غلطی کی سزا نہ صرف میچ بلکہ بعد ازاں سیریز کی ہار کی صورت میں بھی بھگتنا پڑی کیونکہ اس ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

جب پاکستان نے آخری بار 250 سے زیادہ کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا تو انضمام بہترین بلے باز بھی تھے اور کپتان بھی (تصویر: AFP)
جب پاکستان نے آخری بار 250 سے زیادہ کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا تو انضمام بہترین بلے باز بھی تھے اور کپتان بھی (تصویر: AFP)

دوسرا مقابلہ، جہاں پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف 261 سے زیادہ رنز کا ہدف عبور کیا، ستمبر 2003ء کے ابتدائی ایام میں ملتان میں ہوا۔ یہاں انضمام الحق نے ناقابل شکست سنچری کے ذریعے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا اور بنگلہ دیش کے ٹیسٹ جیتنے کے خواب کو چکناچور کردیا۔ آسٹریلیا کے خلاف تو انضمام کو مشتاق کا ساتھ مل گیا تھا لیکن یہاں انضمام نے درحقیقت پاکستان کو تن تنہا جیت دلائی۔ وہ 317 منٹ تک کریز پر موجود رہے اور 232 گیندوں کھیل کر 138 رنز بنائے۔

پھر سال 2003ء ہی کے اختتامی ایام میں پاکستان نے انضمام الحق کی 88 رنز کی جاندار اننگز کی بدولت نیوزی لینڈ کے خلاف ویلنگٹن میں 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور سیریز بھی جیت لی۔

ان تینوں یادگار میچز اور اس میں انضمام الحق کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی فتوحات میں ان کا بڑا کردار تھا۔ آج مصباح الحق کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔۔ کیا وہ خود کو انضمام کا حقیقی جانشیں ثابت کرپائیں گے؟

اس ریکارڈ کی جانب توجہ دلانے پر ہم مظہر ارشد کے شکر گزار ہیں۔