زمبابوے کی تاریخی فتح اور پاکستان دل شکستہ

0 1,086

زمبابوے نے ہرارے میں پاکستان کے خلاف 24 رنز کی تاریخی کامیابی سمیٹ کر سیریز کو ایک غیر متوقع نتیجے پر پہنچا دیا، یعنی برابری پر! ایک ایسا نتیجہ جس کے بارے میں کسی نے سیریز کے آغاز سے قبل سوچا بھی نہ تھا۔ پاکستان جسے آخری دن 106 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی تمام تر امیدیں مصباح الحق سے وابستہ تھیں، دوسرے اینڈ سے اپنی وکٹیں گرنے کا سلسلہ نہ روک پایا اور کھانے کے وقفے کے کچھ ہی دیر بعد نئی گیند ملتے ہی اس کی باری تمام ہوئی۔

تنخواہوں سے محروم اور ہڑتالیں کرنے والے زمبابوین کھلاڑیوں نے کارنامہ انجام دے ڈالا (تصویر: AFP)
تنخواہوں سے محروم اور ہڑتالیں کرنے والے زمبابوین کھلاڑیوں نے کارنامہ انجام دے ڈالا (تصویر: AFP)

اس شکست کا پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے کیونکہ وہ ابھی حال ہی میں ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں چوتھی پوزیشن پر آیا تھا لیکن زمبابوے جیسی ٹیم،جو کہ عالمی درجہ بندی میں جگہ تک نہيں رکھتی تھی، کے خلاف مقابلہ ہارنے سے اسے دو درجوں سے محروم ہونا پڑا ہے یعنی کہ چوتھے سے اب وہ چھٹے نمبر پر آ گیا ہے۔

یہ زمبابوے کی مجموعی طور پر گیارہویں ٹیسٹ فتح تھی اور پاکستان کے خلاف تیسری۔ زمبابوے نے آخری مرتبہ 1998ء میں پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں شکست دی تھی اور آج مصباح الحق کی 79 رنز کی جراتمندانہ اننگز بھی اسے فتح حاصل کرنے سے نہ روک سکی۔ اختتامی لمحات میں جس طرح مصباح کھیل رہے تھے لگ رہا تھا کہ وہ پاکستان کو منزل تک پہنچا کر دم لیں گے لیکن راحت علی کے رن آؤٹ نے معاملہ ختم کردیا اور پاکستان کی دوسری اننگز 230 رنز پر تمام ہوئی۔ مصباح نے 181 گیندوں پر میزبان باؤلرز کا سامنا کیا اور 9 چوکوں کی مدد سے یہ رنز بنائے۔

ویسے تو زمبابوے مقابلے پر چھایا ہوا تھا لیکن یہ پاکستانی باؤلرز تھے جنہوں نے زمبابوے کی دوسری اننگز کا 199 رنز پر خاتمہ کرکے پاکستان کے لیے کچھ امید پیدا کی کیونکہ 264 رنز کا ہدف قابل حصول لگتا تھا۔ گو کہ پاکستان تاریخ میں صرف تین مرتبہ ہی 250 رنز سے زیادہ کا ہدف حاصل کرپایا ہے لیکن پھر بھی یونس خان اور مصباح الحق کی عدم موجودگی میں اس ہدف کو ناقابل عبور نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن خرم منظور اور مصباح الحق کے علاوہ کسی بلے باز نے توقعات کے مطابق کارکردگی نہ دکھائی۔ تجربہ کار محمد حفیظ16، اظہر علی صفر، گزشتہ مقابلے میں ڈبل سنچری بنانے والے یونس خان صرف 29 اور اسد شفیق 14 رنز بنانے کے بعد میدان سے لوٹے اور جب چوتھے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان کا اسکور صرف 158 رنز تھا اور آدھے بلے باز واپس لوٹ چکے تھے۔ مصباح وکٹ کیپر عدنان اکمل کے ساتھ کریز پر موجود تھے اور آخری دن مزید 106 رنز بنانے کے لیے میدان میں اترنا تھا۔

لیکن آخری دن کوئی معجزہ رونما نہ ہو سکا، مصباح الحق جیت کے قریب پہنچانے والے کھلاڑی ہی رہے، جیت سے ہمکنار کرنا شاید ان کی قسمت میں نہیں لکھا ۔ مصباح ڈٹے تو رہے لیکن دوسرا اینڈ مکمل طور پر زمبابوے کے باؤلرز کے رحم و کرم پر تھا۔ عدنان اکمل دن کے بالکل ابتدائی لمحات ہی میں آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے 20 رنز بنائے اور اس کے بعد عبد الرحمٰن 16 رنز بنانے کے بعد پنیانگرا کی واحد وکٹ بنے۔ کھانے کے وقفے کے بعد مصباح نے اننگز کو تیز کرنے کی کوشش کی اور دو مسلسل اوورز میں دو، دو چوکے جڑے لیکن نئی گیند سے قبل آخری اوور کی آخری گیند پر ایک رن لینے میں ناکامی مہنگی پڑ گئی اور پہلے ہی اوور میں ٹینڈائی چتارا نے جنید خان کو گلی میں کیچ آؤٹ کرایا اور پانچویں گیند پر راحت علی کے ایک رن کے باعث مصباح کو آخری گیند کھیلنے کو ملی لیکن وہ مصباح کو اسٹرائیک دینے کی خاطر اس گیند پر بہرصورت رن دوڑنا چاہتے تھے اور یوں رن آؤٹ ہوگئے۔

چتارا نے دوسری اننگز میں 61 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں پراسپر اتسیا نے اور ایک، ایک پنیانگرا اور برائن وٹوری نے حاصل کی۔

پاکستان کی بیٹنگ دونوں اننگز میں بری طرح ناکام رہی (تصویر: AFP)
پاکستان کی بیٹنگ دونوں اننگز میں بری طرح ناکام رہی (تصویر: AFP)

قبل ازیں میچ کے پہلے روز زمبابوے نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی باؤلنگ کے سامنے اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ ا ۔ اس کی ابتدائی 7 وکٹیں صرف 203 رنز پر گریں، جس میں کپتان برینڈن ٹیلر اور ہملٹن ماساکازا کے درمیان دوسری وکٹ پر 141 رنز کی شراکت داری شامل تھی لیکن جیسے ہی یہ رفاقت ٹوٹی پاکستانی باؤلرز مقابلے پر حاوی ہوگئے۔ اننگز کی بساط کسی بھی وقت لپیٹی جا سکتی تھی لیکن زمبابوے کے ٹیل اینڈرز نے جراتمندی کے ساتھ پاکستانی گیندبازوں کا سامنا کیا اور آخری چار وکٹوں نے مجموعی طور پر 91 قیمتی رنز کا اضافہ کیا جو بعد ازاں بلاشبہ فیصلہ کن ثابت ہوئے۔

بہرحال، پہلی اننگز میں پاکستان کی جانب سے جنید خان نے بہت عمدہ باؤلنگ کی اور 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ تین وکٹیں عبد الرحمٰن کو ملیں۔ دو کھلاڑیوں کو راحت علی اور ایک کو سعید اجمل نے آؤٹ کیا۔

پاکستان کی پہلی اننگز ویسی نہ تھی جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ حفیظ اور اظہر علی ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئے اور بالترتیب 22 اور 7 رنز بنائے جبکہ خرم منظور نے 51 رنز بنا کر گزشتہ مقابلے کی کارکردگی کا ازالہ کیا۔ البتہ اسکور تہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے وہ بھی پویلین میں تھے۔ مصباح الحق اور یونس خان نے اسکور میں 86 رنز کا اضافہ کیا لیکن مصباح کی اننگز 33 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی اور پھر اسد شفیق کی ایک اور ناکامی کی وجہ سے یونس خان اکیلے رہ اور کچھ ہی دیر میں وہ بھی 77 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ پاکستان کی پہلی اننگز صرف 230 رنز پر تمام ہوئی یعنی زمبابوے کو پہلی اننگز میں 64 رنز کی شانداربرتری ملی۔ اور یہ برتری انہی باؤلرز کی بدولت تھی جنہوں نے پہلی اننگز میں 91 رنز بھی بنائے تھے۔

برائن وٹوری نے صرف 61 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ تین وکٹیں تناشے پنیانگرا کے حاصل ہوئی۔ ایک وکٹ چتارا نے حاصل کی۔

دوسری اننگز میں زمبابوے کے بلے بازوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر ظاہر کیا کہ ٹاپ آرڈر کا کھیلنا کس قدر ضروری ہے۔ ٹینو ماوویو اور ہملٹن ماساکازا کے درمیان دوسری وکٹ پر 104 رنز کی شراکت داری نے زمبابوے کو پلیٹ فارم مہیا کیا۔ گو کہ بعد میں ہو اس کا فائدہ نہ اٹھا سکا لیکن پھر بھی وکٹ کی صورتحال اور پاکستانی باؤلرز کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے پھر بھی 199 رنز جوڑ ہی ڈالے جس میں آخری لمحات میں وکٹ کیپر رچمنڈ موتمبامی کے قیمتی 29 رنز بھی شامل تھے۔ ٹینو ماوویو 58 اور ہملٹن ماساکازا 44 رنز کے ساتھ قابل ذکر بلے باز رہے۔

پاکستان کی جانب سے راحت علی نے 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو، دو وکٹیں سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کو اور ایک وکٹ جنید خان کو ملی۔

پھر 264 رنز کے ہدف کے تعاقب کا آغاز ہوا جو بالآخر تاریخی شکست پر منتج ہوا۔

ٹینڈائی چتارا کو دوسری اننگز میں شاندار باؤلنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ یونس خان سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے پر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

ایک کمزور ترین ٹیم کے خلاف اس مایوس کن کارکردگی کے بعد اب پاکستان کا مقابلہ اگلے ماہ کے اواخر سے عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ سے ہوگا جو متحدہ عرب امارات میں گرین شرٹس کا مقابلہ کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک ماہ کے مختصر وقت میں پاکستان اس اہم سیریز کے لیے کیا تیاریاں کرتاہے۔