[با‎ؤنسرز] کپتان بدلو …… نظام نہ بدلو!!

3 1,074

اس مرتبہ کرک نامہ سے غیر حاضری کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی ہے جس کا سبب ذاتی مصروفیت تھی۔ کہیں قارئین یہ نہ سمجھ لیں کہ پاکستان کی شکست نے افسردہ کردیا تھا جس کے سبب لکھنے کو من نہ کیا کیونکہ پاکستان کی شکست تو صاف دکھائی دے رہی تھی اور پہلے ٹیسٹ میں کامیابی کے باوجود پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں جھول تھا اور اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ "کیا جیت نے خامیوں کو چھپا دیا ہے؟" کیونکہ 221 رنز کی ریکارڈ ساز کارکردگی نے حقیقتاً خامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈال دیا جنہیں دوسرے ٹیسٹ کی شکست نے برہنہ کر کے رکھ دیا ہے اور اب ہر کوئی اپنا تن ڈھانپٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ متبادل بلے باز زمبابوے میں بدترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں سے بھی گئے گزرے ہیں(تصویر: AFP)
بدقسمتی یہ ہے کہ متبادل بلے باز زمبابوے میں بدترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں سے بھی گئے گزرے ہیں(تصویر: AFP)

زمبابوے کے خلاف پہلا ٹیسٹ پاکستانی ٹیم نے یونس خان کی غیر معمولی اننگز کی بدولت جیتا تھا جبکہ اس میچ میں دیگر بیٹسمین اور خاص طور پر پاکستان کا ٹاپ آرڈر بری طرح ناکام ہوا تھا جس کے بعد میں نے پچھلی تحریر میں سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان کا ٹاپ آرڈر زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی کیوں ناکام ہو رہا ہے جس کے پہلے تین بیٹسمین پہلی اننگز میں 27 اور دوسری باری میں 23 کے اسکور پر پویلین لوٹ گئے۔ پہلے ٹیسٹ میں زمبابوے ٹیم اپنی ناتجربہ کاری کے باعث شکست کھاگئی مگر دوسرے میچ میں قومی ٹیم کی متواتر ناکام کارکردگی نے زمبابوے کو جشن منانے کا موقع فراہم کردیا۔ میں نے لکھا تھا کہ پہلے ٹیسٹ کی کامیابی کےبعد کوچ ڈیو واٹمور کو ٹیم کی خامیوں پر قابو پانے کے لیے بھی کوئی فارمولا آزمانا ہوگا کیونکہ قومی ٹیم کی خامیاں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف کے لیے مصیبتوں کا پھندہ بن سکتی ہیں مگر کھلاڑیوں نے زمبابوے کے ہاتھوں رسائی کی داستان تحریر کر کے واٹمور کو مشکل میں ڈال دیا ہے جو خود کو یہ کہہ کر تسلی دے رہے ہیں کہ پاکستان زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز نہیں ہارا بلکہ برابری پر ختم کرکے آیا ہے جبکہ چند ماہ پہلے تک ماہر کی حیثیت سے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پی سی بی اور قومی ٹیم کے بخیے ادھیڑنے والے سابق کپتان معین خان کو مینیجر کا عہدہ ملتے ہی "سب اچھا" نظر آ رہا ہے۔ جنہیں پاکستانی ٹیم کی شکستوں پر نہ تشویش ہے اور نہ شرمندگی بلکہ سابق وکٹ کیپر نے ٹیم کی کارکردگی کو "تسلی بخش" قرار دیا ہے کہ پاکستانی ٹیم صرف دو میچز میں ہی خراب کھیلی ہے بقیہ پورا ٹور تو ٹیم نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!

پاکستانی ٹیم کے شکست کے اسباب کیا تھے، کن کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی پیش کی اور وہ کون سے کھلاڑی تھے جن کی کارکردگی کا معیار گرگیا اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہمارے قارئین جان چکے ہیں کیونکہ گزشتہ چند دنوں سے اس شکست کا ماتم کرنے کے علاوہ ٹی وی چینلوں پر براجمان "ماہرین" قومی ٹیم کے پوسٹ مارٹم کا عمل بھی مکمل کر چکے ہیں اور اکثریت کا ماننا ہے کہ ناکامی کی اصل وجہ مصباح الحق کی دفاعی حکمت عملی ہے اور کپتان کا سب سے "جرم" میچ کو فنش نہ کرنا ہے جس کے باعث پاکستان کو زمبابوے کے ہاتھوں 24 رنز کی شکست برداشت کرنا پڑا کیونکہ 79 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلنے والا مصباح اگر تن تنہا لڑتا ہوا پاکستان کو فتح دلوا دیتا تو شاید وہ ناقدین کی نظر میں معتبر بن جاتا لیکن شکست کا "ذمہ دار" کپتان اب ناقدین کی توپوں کی زد میں ہے جو مصباح پر تنقید کرتے ہوئے ہر مرتبہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم صرف مصباح الحق پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں پانچ اسپیشلسٹ بیٹسمینوں سمیت دس کھلاڑی اور بھی ہیں جو مل کر بھی پاکستانی ٹیم کو مشکلات سے نہیں نکال پاتے مگر ان بیٹسمینوں پر تنقید کرنے کے بجائے ہر مرتبہ چومکھی لڑائی لڑنے والے کپتان کے لتے لیے جاتے ہیں۔

اپنی چالیسویں سالگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے کپتان کو منصب سے ہٹا دینا اپنی کرسیاں بچانے کا آسان ترین حل ہے اور شائقین کو بھی "نیا کپتان، نیا جوش" کے نعرے سے کچھ دنوں کے لیے بہلایا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرنا قومی ٹیم کو لاحق بیماری کا مستقل اور کارآمد علاج نہیں ہے بلکہ کپتان بدلنے کے بجائے نظام تبدیل کرنے کی ضرورت جو آہستہ آہستہ پاکستان کرکٹ کو صلاحیت کے حوالے سے بنجر کرتا جا رہا ہے اور اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ زمبابوے کے خلاف ناکام ہونے والے کھلاڑیوں کو صرف اس لیے تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ ٹیم سے باہر بیٹھے کھلاڑی ان سے کم تر کارکردگی کے حامل ہیں جبکہ مصباح الحق اور یونس خان جیسے سینئرز صرف اس لیے اب تک کھیل رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے پاس ان دونوں بلے بازوں کا متبادل موجود نہیں ہے اور جنہیں متبادل قرار دیا جا رہا ان کے خود تبدیل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

زمبابوے کے خلاف بدترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں بھی جگہ حاصل کرلیں گے کیونکہ بیک اپ میں ان سے بھی گئے گزرے کھلاڑی ہیں اور ٹیم میں جگہ پکی ہونے کا خمار ان کھلاڑیوں کو اپنے اصل مقام سے دور لیے جا رہا ہے۔ شکستوں کا تدارک کرنے اور کارکردگی میں تسلسل لانے کے لیے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے جو پاکستان کرکٹ کو تواتر کے ساتھ باصلاحیت کھلاڑی فراہم نہیں کررہا۔ جس کے سبب پاکستان کرکٹ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ کپتان بدلنا مسائل کا حل نہیں بلکہ نظام کو بدلنا ہوگا تاکہ ماضی جیسا عروج دوبارہ پاکستان کرکٹ کو میسر آ سکے۔ کپتان کو بدلنے کی بجائے اپنی سوچ اور نظام کو بدلو کیونکہ پاکستان کرکٹ جب ایک مربوط نظام کے تحت چلنا شروع ہوگئی تو پھر کپتان کوئی بھی ہو، مثبت نتائج کی فراوانی نہیں رک سکے گی۔