بھارت کی فتح، سیمی فائنل میں پاکستان سے ٹکراؤ ہوگا

5 1,036

میزبان بھارت نے دنیا ئے کرکٹ پر آسٹریلیا کی طویل بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ عالمی کپ 2011ء کے دوسرے کوارٹر فائنل میں بھارت کے ہاتھوں 5 وکٹوں سے شکست کے بعد آسٹریلیا 1992ء کے بعد پہلی بار سیمی فائنل کھیلنے سے بھی محروم ہو گیا ہے۔ بھارت کی اس فتح کا مطلب ہے کہ 30 مارچ کو موہالی میں دوسرا سیمی فائنل کھیلنے کے لیے جو دو ٹیمیں میدان میں اتریں گی وہ پاکستان اور بھارت کی ہوں گی یعنی 'کرکٹ کی جنگ عظیم'۔

کوارٹر فائنل میں فتح کے مرکزی کردار یووراج سنگھ (اے ایف پی)

احمد آباد کے سردار پٹیل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے دوسرے کوارٹر فائنل میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر یووراج سنگھ کی آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت میچ جیتا اور آسٹریلیا کی جانب سے دیے گئے 261 رنز کے ہدف کو با آسانی 48 ویں اوور میں محض 5 وکٹوں کے نقصان پرپورا کر لیا۔ سچن ٹنڈولکر اور گوتم گمبھیر نصف سنچریوں نے بھی فتح میں اہم کردار کیا۔ جبکہ ان کے حریف آسٹریلوی قائد رکی پونٹنگ کی سنچری یادگار ہونے کے باوجود رائیگاں چلی گئی۔

آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور رکی پونٹنگ کی طویل عرصے بعد داغی گئی سنچری کی بدولت 6 وکٹوں پر 260 رنز بنانے میں کامیاب رہا۔ جو اسپنرز کے لیے مددگار پچ پر ایک مناسب اسکور تھا لیکن آسٹریلیا کی ٹیم میں کسی اچھے اسپنر کی عدم موجودگی اور بھارتی بلےبازوں کی اسپنرز کو اچھے انداز سے کھیلنے کی روایت نے آسٹریلیا کی دال نہ گلنے دی اور یوں عرصہ دراز کے بعد پہلا موقع آیا ہے کہ آسٹریلیا فائنل تو درکنار سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچا۔ آسٹریلیا 1996ء سے لے کر آج تک ہونے والے تمام سیمی فائنل (بلکہ فائنل بھی) کھیلنے کا اعزاز رکھتا ہے جن میں سے اسے صرف 96ء ہی میں شکست ہوئی جبکہ 1999ء کے فائنل میں اس نے پاکستان، 2003ء میں بھارت اور 2007ء میں سری لنکا کو زیر کر کے مسلسل تین مرتبہ عالمی کپ جیتا۔

رکی پونٹنگ، جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی آخری اننگ میں سنچری بنائی

یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا کے خطرناک پیس اٹیک کو مدنظر رکھتے ہوئے میزبان نے ایک سلو پچ بنوائی۔ اس میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا کہ کیونکہ آسٹریلیا کی ٹیم میں کوئی اچھا اسپنر موجود نہیں اس لیے بھارت کو اس سے بھی کوئی خطرہ نہیں تھا یوں ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک شاندار فتح حاصل کی گئی۔

آسٹریلین اننگ کی واحد خاص بات کپتان رکی پونٹنگ کی 104 رنز کی اننگ تھی، ان کے علاو ہ بھارتی اسپنرز خصوصا روی چندر آشون اور یووراج سنگھ نے بلے بازوں کو باندھ کر رکھا اور آسٹریلیا کو بہت بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے نہیں دیا۔رکی پونٹنگ کو اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ سنچری رائیگاں جا ئے گی اور بالآخر عالمی کپ میں ان کی آخری اننگ بن جائے گی۔ دیگر بلے بازوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا سوائے بریڈ ہیڈن کے 53 رنز اور آخر میں ڈیوڈ ہسی کے 38 رنز کے۔ درمیان میں مائیکل کلارک (8) اور مائیکل ہسی (3 رنز) کے پویلین لوٹ جانے نے آخری اوورز میں آسٹریلیا کے منصوبے کو زبردست دھچکا پہنچایا۔

بھارت کی جانب سے روی چندر آشون، یووراج سنگھ اور ظہیر خان نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ ہربھجن سنگھ اور مناف پٹیل ایک مرتبہ پھر نامراد لوٹے۔
پونٹنگ نے میچ سے قبل ہی کہا تھاکہ 250 کا اسکور اس پچ پر اچھا مجموعہ ہوگا اور شاید آسٹریلین ٹیم اسی سوچ کے ساتھ میدان میں اتری کہ انہوں نے اتنا ہی اسکور کرنا ہے۔ یہی غلطی انہیں لے ڈوبی۔ بھارت کی طویل و مضبوط لائن اپ کے سامنے بہت زیادہ بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے کی ضرورت تھی اور بھارت اتنے سے مجموعے کو تو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ اس کا حقیقی اظہار میچ کے دوران ہوا بھی کہ جب انتہائی مشکل پچ پر، جس پر گیند پڑتے ہی دھول بھی اڑتی دکھائی دی، بھارت نے با آسانی ہدف حاصل کر لیا۔

بھارت کی فتح کی بنیاد سچن ٹنڈولکر کی شاندار اننگ نے رکھی لیکن 94 رنز کے مجموعی اسکور پر دونوں اوپنرز وریندر سہواگ (15 رنز) اور سچن (53 رنز) کے لوٹ جانے کے بعد اب مڈل آرڈر پر ذمہ داری آ گئی جس کو انہوں نے خوب نبھایا۔ کوہلی اور گمبھیر نے تیسری وکٹ پر 49 رنز جوڑے۔ اس موقع پر میچ پر بھارت کی گرفت مضبوط لگتی تھی لیکن یکے بعد دیگرے گوتم گمبھیر اور مہندر سنگھ دھونی کے آؤٹ ہونے نے میچ کو سنسنی خیز بنا دیا۔ گمبھیر (50 رنز پر) رن آؤٹ ہوئے جبکہ کپتان دھونی (7 رنز) بریٹ لی کا نشانہ بن کر ایک مرتبہ پھر ٹیم کو منجدھار میں چھوڑ گئے۔

بھارت کا یوسف پٹھان کی جگہ سریش رائنا کو کھلانے کا فیصلہ درست ثابت ہوا جنہوں نے یووراج کے ساتھ مل کر بھارت کو مزید کسی نقصان سے بچایا۔ اور چھٹی وکٹ پر 74 رنز جوڑ کر بھارت کو منزل تک پہنچایا۔

یووراج سنگھ نے عالمی کپ میں چوتھی مرتبہ میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔

بھارت کی اس فتح کےساتھ ہی سیمی فائنل میں پاک- بھارت ٹکراؤ طے ہو گیا ہے جو 30 مارچ کو موہالی، چندی گڑھ کے پی سی اے اسٹیڈیم میں ہوگا اور بلاشبہ یہ ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا میچ ہوگا جس میں سرحد کے دونوں اطراف جوش و جذبہ عروج پر ہوگا اور حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی سطح پر پاک بھارت مقابلے کی اہمیت کرکٹ کی سب سے پرانی جنگ 'ایشیز' سے بھی زیادہ ہے۔

یہ پہلا موقع ہوگا کہ پاکستان اور بھارت کسی عالمی کپ کے سیمی فائنل میں ٹکرائیں گے۔ اس سے قبل صرف ایک مرتبہ ہی ناک آؤٹ مرحلے میں پاک بھارت ٹکراؤ ہوا ہے جو 1996 ء کے عالمی کپ میں ہوا جہاں بھارت نے پاکستان کو زیر کر کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔

اب دنیا بھر کی نظریں عالمی کپ کے دیگر مقابلوں سے ہٹ کر اس سیمی فائنل پر مرکوز ہو گئی ہیں جو روایتی حریفوں کے درمیان کھیلا جائے گا۔

میچ کی جھلکیاں“

بشکریہ ای ایس پی این اسٹار