افغانستان:جنگ سے ورلڈ کپ تک!

1 1,162

’’استاد ...جب تک پاؤں ٹوٹ نہیں جاتا اُس وقت تک میں بالنگ کرتا رہوں گا‘‘یہ الفاظ افغانستان کے سرفہرست فاسٹ بالر حامد حسن کے تھے جو اس نے اپنے کوچ راشد لطیف سے اس وقت کہے تھے جب فاسٹ بالر کے زخمی پاؤں سے خون رِس رہا تھا مگر وہ بالنگ جاری رکھنے کیلئے بضد تھا۔کچھ عرصہ قبل مجھے انٹرویو دیتے ہوئے راشد لطیف نے اس بات کا تذکرہ کیا تھا جن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے کھلاڑی کوچ کی بے پناہ عزت کرتے ہیں جسے وہ ’’استاد‘‘ کہتے ہیں اور ڈیڑھ برس قبل راشد لطیف کا کہنا تھا کہ افغان ٹیم جس محنت اور جذبے کے ساتھ کھیلتی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں افغانستان ایک موثر قوت بن کر ابھرے گا ۔پہاڑوں سے زیادہ بلند ہمت کے باعث ہی افغانستان کی ٹیم ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کیلئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جس نے شارجہ میں ورلڈ کرکٹ لیگ کے آخری میچ میں کینیا کو شکست دے کر ورلڈ کپ 2015ء میں اپنی نشست پکی کی۔

گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکوں سے سہم جانے والے افغانی آج کرکٹ کی بدولت جشن منا رہے ہیں (تصویر: ICC)
گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکوں سے سہم جانے والے افغانی آج کرکٹ کی بدولت جشن منا رہے ہیں (تصویر: ICC)

افغانستان کی ٹیم نے اس سے قبل دو مرتبہ ورلڈ ٹی20کیلئے کوالیفائی کیا ہے لیکن ون ڈے کے ورلڈ کپ تک رسائی حاصل کرنا افغان ٹیم کیلئے کسی خواب کی مانند ہے جنہیں کرکٹ کے کھیل کو اپنائے ہوئے حقیقتاً ’’جمعہ جمعہ آٹھ دن‘‘ہوئے ہیں ۔ افغانستان کے بیشتر کھلاڑیوں کا کرکٹ سے پہلا تعارف پاکستان میں قائم پناہ گزین کیمپوںمیں ہوا تھا جہاں جنگ سے متاثرہ افغانی اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کی کوشش کررہے تھے اور انہیں کیمپوں میں انہیں پاکستان کے ورلڈ چمپئن بننے کی خبر ملی جبکہ انہیں کیمپوں میں پیدا ہونے والے بیشتر افغان کھلاڑی اسی ملک میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کریں گے جہاں دو عشرے پہلے پاکستان کی فتح نے افغانیوں کو اس کھیل کی جانب راغب کیا تھا۔

ورلڈ ٹی20کے دو مقابلوں میں افغانستان کی ٹیم صرف شرکت کا اعزاز ہی حاصل کرسکی ہے لیکن ون ڈے کے ورلڈ کپ میں افغانستان کو چھ میچز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا اور یقینا اس ٹیم کی خواہش ہوگی کہ وہ کسی بڑی ٹیم کے خلاف اَپ سیٹ کرکے دنیائے کرکٹ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے جسے افغانیوں کی کامیابی نے پرجوش کردیا ہے۔ افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو محمد نور نے بھی اس کامیابی کو افغانستان کرکٹ کے نئے سفر کا آغاز قرار دیا ہے جو آنے والے عرصے میں مزید کامیابیوں کیلئے پرعزم ہیں اور اپنی ٹیم کو کامیابیوں کی راہ ڈالنے کیلئے انہوں نے بڑی ٹیموں کے ساتھ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاکہ ورلڈ کپ سے قبل افغانستان کی ٹیم کو مناسب تجربہ حاصل کرکے میگا ایونٹ میں دنیائے کرکٹ کو حیران کرسکے۔

پاکستان کی سرزمین سے کرکٹ کے ساتھ رشتہ جوڑنے والی افغانستان کی ٹیم ماضی میں اہم مقابلوں سے قبل تیاری کیلئے پاکستان کا رخ کرتی رہی ہے اور ورلڈ کپ کی تیاریوں کیلئے پاکستان کے میدان افغان ٹیم کیلئے آئیڈیل جگہ ثابت ہونگے جہاں وہ اپنے سے زیادہ تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں جبکہ افغانستان کے کوچ کبیر خان کیلئے پاکستان کوئی نئی جگہ نہیں ہے جو 90ء کے عشرے میں ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔

چند برس پہلے تک جس ملک میں لوگ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکوں سے سہم جایا کرتے تھے آج وہاں افغانستان کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں پر جشن منایا جارہا ہے اور یہ بات کسی اچنبھے سے کم نہیں ہے جنگ سے متاثرہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم بغیر کسی انفرااسٹرکچر بلکہ بنیادی سہولتوں سے محرومی کے باوجود دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن افغانستان کی یہ کامیابی شاید ان کے سابق کوچ راشد لطیف کیلئے حیرانی کا باعث نہ ہو جو یہ جانتے ہیں افغان کھلاڑیوں میں پہاڑوں جیسا حوصلہ ہے جو پاؤں زخمی ہونے پر میدان پر باہر نہیں آتے بلکہ اپنی ٹیم کی کامیابی کیلئے پاؤں ٹوٹ جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے!!