[باؤنسرز] مشکل فیصلے سلیکشن کمیٹی کے بس کا روگ نہیں

0 1,024

پریکٹس میچ کے آخری دن بقیہ تین کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرکے جنوبی افریقہ کیخلاف 15رکنی ٹیسٹ اسکواڈ کو مکمل کردیا گیا ہے۔احمد شہزاد اور شان مسعود کے درمیان اوپننگ پوزیشن پر خرم منظور کا ساتھی بننے کیلئے ’’ٹائی‘‘ تھی مگر سہ روزہ میچ میں نصف سنچریاں اسکور کرنے والے دونوں اوپنرز کو اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے جبکہ اسد شفیق کوبھی ’’امتحان ‘‘سے گزرنے کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں جگہ مل گئی ہے مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ خرم منظور کے ساتھ اننگز کا آغاز کون کرے گاکیونکہ اسکواڈ میں منتخب ہونے والے احمد شہزاد اور شان مسعود میں سے کسی ایک کو اب بھی حتمی الیون سے باہر ہونا پڑے گا۔

ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے منہ دیکھتے رہ گئے اور ایک پریکٹس میچ میں کھیلنے والے قومی ٹیم تک پہنچ گئے (تصویر: AP)
ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے منہ دیکھتے رہ گئے اور ایک پریکٹس میچ میں کھیلنے والے قومی ٹیم تک پہنچ گئے (تصویر: AP)

سلیکشن کمیٹی نے ان دونوں اوپنرز کو اسکواڈ میں شامل کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے یا مجلس انتخاب کو دونوں کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں ہے ؟اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا کیونکہ احمد شہزاد اور شان مسعود کی اسکواڈ میں موجودگی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سلیکٹرز یہ آپشن کھلا رکھنا چاہتے ہیں کہ پہلے میچ میں ایک اوپنر کی ناکامی کی صورت میں دوسرے کو موقع دیا جاسکے۔احمد شہزاد اور شان مسعود نے جنوبی افریقہ کیخلاف پریکٹس میچ میں نصف سنچریاں اسکور کیں تو دوسری جانب خرم منظور کویو اے ای جیسی ٹیم کیخلاف بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور خرم منظور کی اس ناکامی کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کو احمد شہزاد اور شان مسعود کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے جو پریکٹس میچ میں رنز کرنے کے بعد کافی پراعتماد ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو یہ 39برس بعد پہلا موقع ہوگا کہ پاکستان کی طرف سے ایک ہی میچ میں دونوں اوپنرزڈیبیو کریں گے۔آخری مرتبہ اکتوبر 1964ء میں خالد عباد اللہ اور وکٹ کیپر عبدالقادر نے آسٹریلیا کیخلاف ایک ہی میچ میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا ۔احمد شہزاد اور شان مسعود سے اوپن کروانے کی تجویز دینے سے پہلے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خرم منظور نے زمبابوئے کے ٹور پر آخری ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں نصف سنچریاں اسکور کیں تھیں اس لیے خرم منظور کو محض پریکٹس میچ میں کم رنز بنانے کی پاداش میں باہر بٹھا دینا زیادتی ہوگی۔

پریکٹس میچ میں 42رنز بنانے والے اسد شفیق کو بھی ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بنا لیا گیا ہے جبکہ اس میچ میں ناکامی نے فیصل اقبال کو پاکستانی ٹیم سے باہر کروادیا ہے۔اسد شفیق کی شمولیت سے 15 کھلاڑیوں کے اسکواڈ میں بیٹسمینوں کی مجموعی تعداد 8ہوگئی ہے جبکہ فائنل الیون میں دو اوپنرز کے ساتھ اظہر علی،یونس خان اور مصباح الحق کی شرکت یقینی ہے ۔چھٹے نمبر پر عمر امین اور اسد شفیق کے درمیان مقابلہ ہوگا اور عام خیال یہی ہے کہ عمر امین کو تین برس بعد دوبارہ ٹیسٹ کھیلنے کا موقع دیا جائے گا ۔اگر ٹیم مینجمنٹ عمر امین کو ہی کھلانا چاہتی ہے تو پھر اسد شفیق کو اسکواڈ میں رکھنا بلاجواز ہے کیونکہ عمر امین پر اعتماد کی صورت میں کھبے بیٹسمین کو دونوں میچز میں موقع دیاجانا چاہیے۔

15رکنی اسکواڈ میں بیٹسمینوں کی بہتات ہے لیکن فاسٹ بالنگ کے شعبے کو نظر انداز کردیا گیا ہے کیونکہ دو ٹیسٹ میچز کیلئے تین فاسٹ بالرز کا انتخاب ناکافی ہے اور یہ تینوں بالرزبھی ایسے نہیں ہیں کہ جن پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جاسکے۔تین روزہ میچ میں تینوں فاسٹ بالرزاحسان عادل، اعزاز چیمہ اور عمران خان نے پہلی اننگزمیں ایک ایک وکٹ ہی حاصل کی اور شاید اسی وجہ سے سلیکٹرز نے فاسٹ بالرکی بجائے اضافی بیٹسمین کو منتخب کرلیا۔ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کا فیصلہ صرف ایک سائیڈ میچ سے کرنا سراسر غلط اور ناانصافی ہے ۔فیصل اقبال کافی عرصے سے ٹیم کے ساتھ ہے جسے کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا اس لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر سلیکشن کمیٹی اسد شفیق کو فائنل الیون سے باہر کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی تو پھر فیصل اقبال کو ٹیسٹ کھیلنے کا موقع دیا جاتا لیکن طویل انتظار کے بعد محض ایک اننگز کی ناکامی نے ایک مرتبہ پھر فیصل اقبال پر قومی ٹیم کے دروازے بند کردیے ہیں ۔یہی سلوک تینوں فاسٹ بالرز کے ساتھ کیا گیا ہے ۔گزشتہ سیزن میں اعزاز چیمہ کی پرفارمنس غیر معمولی تھی ،احسان عادل نے اپنے پہلے ہی سیزن میں وکٹوں کے ڈھیر لگائے جبکہ عمران خان کی سوئنگ سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکامگر پریکٹس میچ میں ایک مردہ وکٹ پر جب یہ بالرز اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے تو انہیں ٹیسٹ ٹیم کیلئے قابل غور نہ سمجھا گیا۔کیا یہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے جو پورا سیزن اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی ٹیم کے قریب آتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم میں شمولیت کا پیمانہ ڈومیسٹک کرکٹ کو نہیں بلکہ سائیڈ میچ کو بنا دیا جاتا ہے۔اسد شفیق کو 42رنز بنانے پر ٹیم میں جگہ مل گئی ہے تو پھر صہیب مقصود کا کیا قصور تھا جس نے اسی میچ میں ناقابل شکست 34رنز بنائے اور اگر اننگز ڈیکلیئر نہ کی جاتی تو ففٹی کرنے کے بعد صہیب مقصود بھی اسکواڈ میں شمولیت کا مضبوط امیدوار بن سکتا تھا۔

ان تین کھلاڑیوں کے انتخاب سے یہی لگتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی ہر کسی کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جسے ٹیم کمبی نیشن سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ سلیکشن کمیٹی مشکل فیصلے کرنے کی اہل نہیں ہے ۔اسد شفیق کو ابتدائی12کھلاڑیوں سے باہر کرکے غلطی کی گئی اور جب اسد شفیق کے حق میں آواز یں اٹھنا شروع ہوئیں تو سلیکشن کمیٹی نے مجبوراً مڈل آرڈر بیٹسمین کو اسکواڈ میں شامل کرلیا۔اسی طرح احمد شہزاد اور شان مقصود کی نصف سنچریوں نے بھی سلیکٹرز کو مخمصے میں ڈال دیا کہ وہ کس کو منتخب کریں اور کس کو ڈراپ کریں اس لیے سلیکشن کمیٹی نے دونوں کو منتخب کرکے مشکل فیصلے کا طوق ٹیم مینجمنٹ کے گلے میں ڈال دیا ہے جنہیں ایک جیسی پرفارمنس کے حامل اوپنرز میں کسی ایک کو ٹیسٹ کیپ دینا ہوگی۔خدا نہ کرے کہ پاکستانی ٹیم کو اس سیریز میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے یا کسی کھلاڑی کی یاد پوری سیریز میں ستائے لیکن منتخب شدہ ٹیم کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی!