ذمہ داری اب بیٹسمینوں کی ہے!

0 1,041

متحدہ عرب امارات کی وکٹوں پر رنز کرنا آسان نہیں ہے یہ بات ٹیسٹ سیریز کے پہلے دن ہی ثابت ہوگئی جب جنوبی افریقہ جیسی ٹیم بھی پونے تین رنز فی اوور کے حساب سے بیٹنگ کرسکی جبکہ پاکستانی بالرز نے 8 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے ثابت کیا کہ جنوبی افریقی بیٹسمین اماراتی کنڈیشنز اور وکٹوں پر مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔ پہلے دن کے کھیل کے بعد سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کیونکہ یہ امید ہوگئی ہے کہ یہ ٹیسٹ میچ فیصلہ کن ضرور ثابت ہوگا۔

ذوالفقار بابر نے عبدالرحمن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے (تصویر: AFP)
ذوالفقار بابر نے عبدالرحمن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے (تصویر: AFP)

ہاشم آملہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی کلاس ثابت کردی ہے جو کسی بھی قسم کی وکٹوں، کنڈیشنز اور باؤلنگ اٹیک کے خلاف رنز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ہاشم آملہ نے پہلے دن کے کھیل میں نہ صرف سنچری کرکے جنوبی افریقہ کو مکمل تباہی سے بچایا بلکہ 88 اوورز تک بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے ٹمپرامنٹ کا بھی بھرپور ثبوت دیا کہ سست وکٹ، شدید گرمی اور عمدہ بالنگ اٹیک بھی ہاشم آملہ کو اس کی راہ سے نہ ہٹا سکے جو 118رنز کے ساتھ کریز پر موجود ہے۔

پاکستان کی باؤلنگ کی اگر بات کریں تو محمد عرفان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے ابتدائی اوورز میں وکٹ کی تازگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر معمولی باؤنس کی مدد سے پروٹیز اوپنرز کو جلد پویلین روانہ کیا جس کے بعد جنید خان نے ژاک کیلس کی شکل میں پاکستان کو اہم ترین کامیابی دلوائی۔ 34 سال کی عمر میں ڈیبیو کرتے ہوئے ذوالفقار بابر نے عبدالرحمن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جسے کمر کی تکلیف نے میدان میں نہ اترنے دیا۔عبد الرحمٰن واقعی ان فٹ ہے یا ذوالفقار بابر کو کھلانے کیلئے "مانے" کو باہر بٹھایاگیا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر عبد الرحمٰن اَن فٹ نہیں تھا تو پھر پاکستانی ٹیم کو تین اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے تھا تاکہ پروٹیز بیٹسمینوں کو اسپن کے جال میں پھنسایا جاسکتا ۔

اسد شفیق کو ایک موقع دے کر عمر امین کی واپسی کا راستہ روک لیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم صرف چار بالرز کے ساتھ میدان میں اتری ہے اگر جنوبی افریقی بیٹسمین لمبے رنز بنانے میں کامیاب ہوجاتے تو پاکستان کے پانچویں باؤلرکی سہولت نہ تھی۔عمر امین کو کھلانے کا یہ فائدہ ہوسکتا تھا کہ وہ پانچویں باؤلر کے طور پر محمد عرفان یا جنید خان کے ساتھ نیا گیند کرسکتا جس کے بعد اسپنرز چاروں طرف سے حملہ آور ہوجاتے۔ ٹیم سلیکشن کو دیکھتے ہوئے شائقین کو سب سے زیادہ مایوسی احمد شہزاد کو فائنل الیون سے باہر دیکھ کر ہوئی کیونکہ سائیڈ میچ میں پراعتماد نصف سنچری اسکور کرنے کے بعد احمد شہزاد ٹیسٹ کیپ کا مضبوط امیدوار بن چکا تھا لیکن یہ اعزاز "برتھ ڈے بوائے" شان مسعود کو مل گیا۔

پہلے دن کے کھیل کے بعد پاکستانی باؤلرز نے اپنا کام کردیا ہے جنہیں کل صبح پہلے آدھے گھنٹے میں بقیہ دونوں وکٹیں حاصل کرکے پروٹیز کو 260کے لگ بھگ محدود کرنا ہوگا جس کے بعد بیٹسمینوں کا اصل امتحان شروع ہوگا۔ نئے گیند سے جس طرح محمد عرفان کو وکٹ سے مدد ملی اور اسے دیکھتے ہوئے یقینی طور پر ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی کا حوصلہ بڑھا ہوگا جو پاکستان کے ناتجربہ کار اوپنرز پر بھرپور قوت سے حملہ آور ہوگی۔ یہ دیکھنا بہت اہم ہوگا کہ کل صبح شان مسعود اور خرم منظور نئے گیند سے کیسے جان چھڑاتے ہیں کیونکہ ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کی صورت میں پاکستانی بیٹنگ لائن دباؤ کا شکار ہوسکتی ہے۔اگر اوپنرز نے پاکستان کو عمدہ اسٹارٹ فراہم کردیا تو پھر پروٹیز پیسرز کیلئے پرانے گیند سے بالنگ کرتے ہوئے گرم موسم مین وکٹیں لینا آسان نہ ہوگا۔ کویت میں پیدا ہونے والے شان مسعود کیلئے ٹیسٹ کیرئیر کی پہلی اننگز بہت اہم ہوگی جو ان کے مستقبل کا تعین کرے گی جبکہ مضبوط مڈل آرڈر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اب پاکستانی باؤلرز نے تو کافی حد تک اپنا کام کردکھایا ہے اب بیٹسمینوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو پہلی اننگزمیں کم از کم 100 رنز کی برتری دلوائیں تاکہ چوتھی اننگز میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستانی بیٹسمینوں کو مشکل نہ ہو کیونکہ پہلے دن کے کھیل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ میچ فیصلہ کن ثابت ہوگا اور مصباح الحق الیون مزید شکستوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔