ناقابل یقین پاکستان فاتح، نمبر ایک جنوبی افریقہ ڈھیر

11 1,050

پاکستان کرکٹ ٹیم کو دنیا کی سب سے غیر متوقع نتائج دینے والی ٹیم کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا اندازہ پاکستان کی ٹیسٹ اکھاڑے میں حالیہ کارکردگی دیکھنے والوں کو بخوبی ہوگیا ہوگا۔ کہاں زمبابوے کے خلاف ایک ماہ قبل 264 رنزکے ہدف کے تعاقب میں ناکامی اور شکست کا سامنا اور کہاں عالمی نمبر ایک کے خلاف 7 وکٹوں کی شاندار کامیابی۔

جنوبی افریقہ کے خلاف ریکارڈ 146 رنز بنانے والے خرم منظور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AFP)
جنوبی افریقہ کے خلاف ریکارڈ 146 رنز بنانے والے خرم منظور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AFP)

ایسا لگتا ہے کہ جس عالمی نمبر ایک ٹیم کو اپنی صلاحیتوں کا حقیقی اندازہ لگانا ہو، اسے پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں سیریز کھیلنی چاہیے۔ انگلستان 2011-12ء میں اس امتحان میں ناکام ہوا تھا اور اب جنوبی افریقہ بھی اس سفر کی پہلی منزل پر بری طرح لڑکھڑایا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ امارات کی فضاؤں میں ایسا کچھ ہے جو پاکستان میں خاص توانائی بھر دیتا ہے۔ ابوظہبی کے شیخ زاید اسٹیڈیم میں پہلے ہی دن سے سب کچھ پاکستان کے حق میں دکھائی دیتا تھا۔ پہلی اننگز میں جنوبی افریقہ کو 249 رنز پر ٹھکانے لگانے کے بعد نوجوان اوپنرز کی یادگار سنچری اوپننگ شراکت داری، پھر خرم منظور اور کپتان مصباح الحق کی زبردست سنچریاں، دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے سامنے 442 رنز کا بھاری مجموعہ اور پھر دوسری اننگز میں ایک مرتبہ پھر حریف بلے بازوں کو چت کرنے کے بعد صرف 40 رنز کا ہدف عبور کرنا، حال ہی میں دنیا کی سب سے کمزور ٹیم سے شکست کھانے والی پاکستانی ٹیم کو اور کیا چاہیے؟

اب پاکستان کو دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں ناقابل ایک-صفر کی ناقابل شکست برتری حاصل ہو چکی ہے اور اس سے بھی بڑی خوشخبری یہ کہ عالمی نمبر ایک کے خلاف اس فتح کی بدولت پاکستان عالمی درجہ بندی میں چھٹے سے دوبارہ چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ کے خلاف ابوظہبی میں شکست ایک بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ وہ 15ٹیسٹ مقابلوں سے ناقابل شکست تھا اور اب اس کے سیریز جیتنے کے امکانات بھی ختم ہوچکے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ سیریز برابر کرسکتا ہے۔

جنوبی افریقہ نے ابوظہبی میں ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان کے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی نے اسے پہلے دن ہی دیوار سے لگا دیا کیونکہ صرف 245 رنز پر اس کی 8 وکٹیں گرچکی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہاشم آملہ سنچری نہ بناتے تو جنوبی افریقہ کا حال کہیں زیادہ خراب ہوتا کیونکہ ہاشم کے علاوہ صرف ژاں پال دومنی 57 رنز کے ساتھ قابل ذکر بلے باز رہے بلکہ صرف گریم اسمتھ، ابراہم ڈی ولیئرز اور ڈیل اسٹین ہی دہرے ہندسے میں داخل ہو سکے۔ ہاشم آملہ کی بیسویں ٹیسٹ سنچری نے جنوبی افریقہ کو امید کی کرن ضرور دکھائی لیکن اگلے دن سویرے ہی جنوبی افریقی اننگز کے 249 رنز پر خاتمے اور پھر پاکستانی اوپنرز شان مسعود اور خرم منظور کے درمیان 135 رنز کی شراکت نے اس کرن کا بھی خاتمہ کردیا۔

جن کھلاڑیوں کے لیے یہ ٹیسٹ مقابلہ زندگی کی بہترین یادگار رہے گا ان میں سب سے پہلا نام اوپنر خرم منظور کا ہے۔ گزشتہ 9 ٹیسٹ میچز میں سنچری بنانے میں ناکامی کے بعد خرم نے اس تاریخی موقع کو حاصل کرنے کے لیے عالمی نمبر ایک کو چنا اور کیا ہی کمال کی اننگز کھیلی۔ ڈیل اسٹین کی گیندبازی اور زبانی حملوں کا جواب انہوں نے بخوبی اپنے بلّے سے دیا۔ انہيں ابتدائی وکٹ پر ہی اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے شان مسعود کا زبردست ساتھ ملا جنہوں نے 75 رنز کی باری کھیل کے اپنے تمام ناقدین کو خاموش کردیا۔

خرم اور شان نے ڈیڑھ سال بعد کسی پاکستانی اوپننگ جوڑی کی جانب سے سنچری شراکت داری بنائی۔ بدقسمتی سے شان 75 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے البتہ خرم اننگز کو سنچری تک لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بلکہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف کسی بھی پاکستانی بلے باز کی طویل ترین اننگز کا ریکارڈ بھی قائم کیا اور 146 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔

مصباح الحق کی فارم کا شاندار سلسلہ برقرار رہا اور اس مرتبہ وہ سنچری بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے (تصویر: AFP)
مصباح الحق کی فارم کا شاندار سلسلہ برقرار رہا اور اس مرتبہ وہ سنچری بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے (تصویر: AFP)

اس وکٹ پر جہاں پاکستانی باؤلرز نے پہلی اننگز میں دنیا کے بہترین بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا، اسی پر دو نوجوان بیٹسمینوں کو ڈیل اسٹین، ویرنن فلینڈر اور مورنے مورکل کو کمال ہوشیاری سے کھیلتے دیکھنا ایک خوبصورت نظارہ تھا۔

درحقیقت پاکستان دوسرے روز کے اختتام پر ہی میچ میں بالادست پوزیشن پر آ چکا تھا کیونکہ جنوبی افریقہ پر برتری حاصل ہوچکی تھی اور اس کی صرف 3 وکٹیں گری تھیں۔ پھر تیسرے روز کپتان مصباح الحق کی سنچری نے اس برتری کو 193 رنز تک پہنچا دیا اور جنوبی افریقہ کے لیے حالات کو مزید گمبھیر کردیا۔

مصباح نے 187 گیندوں پر 8 چوکوں کی مدد سے 100 رنز بنائے جبکہ اسد شفیق نے 54 رںز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان کی پہلی اننگز 442 رنز پر مکمل ہوئی تو پاکستان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ تیسرے دن کا کھیل مکمل ہونے سے پہلے پہلے جنوبی افریقہ کی چند وکٹیں ضرور حاصل کرے اور باؤلرز نے مایوس نہیں کیا۔ بالخصوص دن کے آخری اوور میں ذوالفقار بابر کے ہاتھوں ہاشم آملہ کی وکٹ نے جنوبی افریقہ کو بالکل ہی اکھاڑے سے باہر پھینک دیا۔

دوسری اننگز میں الویرو پیٹرسن ایک مرتبہ پھر محمد عرفان کے ہتھے چڑھ کر جنوبی افریقہ کو پہلا نقصان دے گئے اور کچھ ہی دیر بعد گریم اسمتھ سعید اجمل کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ ژاک کیلس اپنی سالگرہ کے دن کو یادگار نہ بنا سکے اور جنید خان کی گیند پر صفر کی ہزیمت لیے پویلین لوٹے۔ تیسرے دن کا سب سے شاندار لمحہ دن کے آخری اوور کی پہلی گیند پر ہاشم آملہ کا آؤٹ ہونا تھا۔ "ذولفی" کے ہاتھوں گزشتہ اننگز کے سنچورین کا آؤٹ ہونا مقابلہ مکمل طور پر پاکستان کے حق میں پلٹا گیا۔ پہلی اننگز کے سنچورین ہاشم آملہ کا آؤٹ ہونا مقابلہ مکمل طور پر پاکستان کے حق میں پلٹا گیا۔

چوتھے دن جنوبی افریقہ کی واحد امید ابراہم ڈی ولیئرز تھے، جن کو کم از کم چوتھا پورا دن میدان میں رہنا تھا اور فف دو پلیسی اور ژاں پال دومنی سمیت ٹیل اینڈرز کو استعمال کرتے ہوئے 'راہِ فرار' ڈھونڈنا تھی لیکن دونوں بلے باز ان کا ساتھ نہ دے پائے۔ دومنی جنید خان کی ایک خوبصورت گیند پر وکٹوں کے آگے دھر لیے گئےجبکہ دوپلیسی اپنے کیریئر کے پہلے ٹیسٹ جیسی اننگز کی صرف حسرت ہی دل میں لیے میدان سے لوٹ آئے۔

البتہ ڈی ولیئرز نے رابن پیٹرسن کے ساتھ مل کر 57 رنز ضرور جوڑے اور شکست کے وقت کو کچھ ٹال دیا البتہ وہ اپنی سنچری مکمل نہ کرپائے اور 90 رنز بنانے کے بعد جنید کی گیند پر کور پر کھڑے شان مسعود کو کیچ دے گئے۔ آخری دو وکٹوں نے 42 رنز کا اضافہ کرکے جنوبی افریقہ کو اننگز کی شکست سے بچایا

پاکستان کو صرف 40رنز کا ہدف ملا لیکن شان مسعود صفراور خرم منظور 4 رنز کے جلد آؤٹ ہوجانے نے ان کی گزشتہ اننگز کی کارکردگی کو گہنا دیا۔ پاکستان صرف 7 رنز پر تین وکٹیں گنوا بیٹھا تھا لیکن اس سے پہلے کے مقابلہ کسی سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوتا مصباح اور یونس خان کے تجربہ کار ہاتھوں سے بازی کو سنبھالا اور پاکستان کی نیّا کو پار لگایا۔ مصباح نے رابن پیٹرسن کو چھکا رسید کرکےمیچ کا فیصلہ پاکستان کے حق میں کیا۔

رواں سال کے اوائل میں دورۂ جنوبی افریقہ میں تینوں میچز میں ناکامی اور پھر زمبابوے میں ٹیسٹ سیریز برابر کھیلنے کے بعد پاکستان کے لیے اس سے بہتر نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا اور بلاشبہ اس کا سہرا ان نوجوان بلے بازوں کے سر بندھتا ہے جنہوں نے سنچری شراکت داری کے ذریعے پاکستان کے کمزور ترین شعبے یعنی بلے بازی کو وہ اعتماد بخشا جس کی بدولت وہ پہلی اننگز میں ایک بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا اور دوسرے سرے پر باؤلرز نے اپنی اچھی کارکردگی کے تسلسل کو جاری رکھا اور دونوں باریوں میں جنوبی افریقہ کو جم کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔

یہ مقابلہ جس دوسرے کھلاڑی کے لیے یادگار رہا وہ 35 سال کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ذوالفقار بابر تھے جنہوں نے اس میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں جن میں 'نمبر ون' ہاشم آملہ بھی شامل تھے جبکہ 6 کھلاڑیوں کو سعید اجمل نے آؤٹ کیا۔

پاکستان نے آخری مرتبہ جب شیخ زاید اسٹیڈیم میں عالمی نمبر ایک کےخلاف ٹیسٹ مقابلہ کھیلا تھا تو اس نے انگلستان کو 72 رنز پر آل آؤٹ کرکے سیریز جیتی تھی، اب دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد اسی میدان پر جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کو کھیل کے تمام شعبوں میں آؤٹ کلاس کرنا بلاشبہ مصباح الیون کا ایک کارنامہ ہے جسے مدتوں یاد رکھاجائے گا ۔